کھویا ہوا دوست/ڈاکٹر اظہر وحید

راولپنڈی سے ایک نوجوان شہزاد حسین ہیں، آج کل قاہرہ میں، جامعۃ الازہر میں بغرضِ تعلیم مقیم ہیں، اُن کا ایک خط موصول ہوا، سوال کی صورت، کافی دلچسپ ہے۔ روزمرہ معاملات میں ایسی صورتحال بعض لوگوں کو درپیش ہوتی ہے، مناسب سمجھا کہ اس سوال کو کالم میں جگہ دی جائے، تا آن کہ دیگر قارئین بھی شاملِ خیال و حال ہو سکیں۔ ان کا مختصر سا خط یوں ہے: ”سر! السلام علیکم! اُمّید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ ایک سوال ہے جو عملی زندگی سے متعلق ہے۔ جب کوئی بہت اچھا دوست ہم سے جدا ہو جاتا ہے اور بہت منت سماجت کے بعد بھی واپس نہیں آنا چاہتا تو ایسی صورتِ حال میں اس کے ساتھ کیا رویہ رکھنا چاہیے، جب کہ ابھی کچھ سفر علمی یا عملی اکھٹے گزارنا بھی باقی ہو۔ دوسری بات یہ کہ وہ ناراض بھی ہو اور کسی اور کے ساتھ ہمارے سامنے منسلک ہو جائے تو اس صورت میں برداشت بہت مشکل سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کا حل بھی ضرور ذکر فرما دیں کہ کیا کرنا چاہیے۔ آخر میں یہ بھی فرمائیے گا کہ کھوئے ہوئے دوست کو واپس لانے کا طریقہ کیا ہے؟“

شہزاد میاں! ہم تمہارے رنج و غم میں برابر کے شریک ہیں۔ ہم اس تکلیف کو سمجھتے ہیں۔ یہ دل کا معاملہ ہوتا ہے، ہم عقلی دلیلیں دے کر، پند و نصائح کے ابواب کھول کر، تمہارے دل کو مزید رنج نہیں دینا چاہتے۔ بس مل جل کر کچھ باتیں کر لیتے ہیں، اپنا دل ہلکا کر لیتے ہیں۔ ممکن ہے، باتوں سے کوئی بات نکل آئے، اور اس بات سے آپ کو کوئی رستہ، کوئی روشنی کی کرن دکھائی دینے لگے۔

دوست کا روٹھ جانا، ایک تشویشناک معاملہ ہوتا ہے۔ گہرے دوست کو جگری دوست کہتے ہیں۔ کوئی شبہ نہیں کہ جگری دوست کا جدا ہونا، ایسا ہی تکلیف دہ معاملہ ہے جیسے جیتے جی جگر کا ٹکڑا ہمارے وجود سے الگ ہو جائے۔ کہتے ہیں کہ لفظ دوست دراصل ”دو“ اور ”ست“ کا مجموعہ ہے، یعنی ”دو سچے…“ دوستی، دو سچے لوگوں کا زمان و مکان میں کسی جگہ اکٹھے ہونے کا نام ہے۔ سچائی کی دریافت میں لوگ اکٹھے ہوتے ہیں، دوست بنتے ہیں، ہم سفر بنتے ہیں اور فکر و خیال کے قافلے تشکیل پاتے ہیں۔ اگر سچ کے علاوہ کوئی اور مقصد پیشِ نظر ہو تو اِس رفاقت کو دوستی نہیں، کچھ اور کہیں گے۔ مالی مفاد کے لیے تاجر لوگ بھی اکٹھے ہوتے رہتے ہیں، سیاسی مفادات کے لیے بھی لوگ ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں، لیکن یہ مفادات کا اشتراک دوستی نہیں کہلاتا۔ دوستی اور چیز ہے، تجارت اور سیاست چیزے دگر!

دوستی کی بنیاد کوئی مشترک نظریہ ہے، یا مشترک شخصیت۔ دوستوں کے درمیان وجہِ دوستی سج ہے، یا کوئی سچا کردار! دو دوستوں کے مابین اگر کوئی ایک بھی اس نظریے سے منحرف ہو جائے تو دوستی قائم نہیں رہ سکتی ہے۔ جب نظریہ بدل جاتا ہے تو دوست بھی بدل جاتا ہے۔ یہ نظریہ بالعموم نظریہ حیات ہوتا ہے۔ ایک نظریے پر چلنے والوں کے درمیان بھی اگر نظریے سے وابستگی کی بابت ترجیحات بدل جائیں تو بھی دوستی قائم نہیں رہ سکتی۔ مثلاً دو دوست ہیں، دونوں کے درمیان حج کرنے پر کوئی اختلاف نہیں، لیکن ایک دوست کہتا ہے کہ پہلے دنیا کے بکھیڑے نپٹا لوں، پھر حج پر جائیں گے، دوسرے کے نزدیک حج ترجیحِ اوّل ہے، وہ کہتا ہے دنیا کے کام ہوتے رہیں گے، کارِ دنیا کسے تمام نہ کردد، پہلی فرصت میں حج پر روانہ ہونا چاہیے۔ اب ایسی صورت میں بھی رفاقت برقرار نہ رہے گی۔ اگرچہ نظریہ تبدیل نہیں ہوا، لیکن نظریے سے وابستگی کی شدت تبدیل ہو چکی ہے، اس لیے یہ دوستی بھی فراق میں بدل میں جائے گی۔ دوستوں کے راستے الگ ہو جائیں گے۔ ان کے قافلے الگ ہو جائیں گے، رسمِ دنیا کے طور پر تعلق تو دکھائی دے گا، لیکن فون، واٹس ایپ، خط اور خیر خیریت کی دریافت کی حد تک! معنی کی دریافت کا سفر جدا ہو چکا ہے۔

بسا اوقات ایک ہی راستے پر چلنے والوں کے درمیان مزاج کا فرق ایک دیوار بن جاتا ہے۔ دونوں دوست ہی مسجد تعمیر کرنا چاہتے ہیں، ایک مینار کی تعمیر پہلے چاہتا ہے، دوسرا محراب و منبر کی افضیلت کا داعی ہے۔ یہاں مزاج میں فرق آ گیا۔ عین ممکن ہے، جدائی شروع ہو جائے۔ اب یہاں کوئی ایک دوست اپنے مزاج کی قربانی دے کر دوستی اور مسجد دونوں بچا سکتا ہے۔ نظریے کے ساتھ زیادہ وابستگی رکھنے والا، نسبتاً زیادہ تفہیم رکھنے والا انسان اپنا مزاج ترک کر دے گا اور مسجد کی تعمیر میں کوئی خلل نہ آنے دے گا۔ نظریے کا وارث زیادہ بڑی قربانی دیتا ہے۔ بعد میں منسلک ہونے والے اپنے مزاج اور مفاد کے اسیر ہوتے ہیں۔ وہ کام تو اچھا کرنا چاہتے ہیں، نظریے کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، اس کے فروغ کے داعی ہوتے ہیں لیکن اپنے مزاج اور مفاد کی نفی نہیں کر پاتے۔ اخلاص اپنے مزاج اور مفاد کی نفی کا نام ہے۔ اب دین کا کام مخلص لوگوں کا نصیبہ ہوتا ہے۔ غیر مخلص لوگ دین کے نام پر اپنی اپنی دکانوں کی تعمیر میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ عجب بات ہے، لوگ دنیاوی مفاد کے لیے اپنی اَنا مدھم کر دیتے ہیں، دین کے لیے نہیں کرتے۔ غالباً لوگوں کے نزدیک دنیا ترجیح اوّل ہے اور دین ترجیحِ ثانی! ایک تاجر پیشہ شخص اپنے گاہک کا دل راضی کرنے کے لیے اس کے سامنے جھک جائے گا، اسے ہر قیمت پر روٹھے ہوئے گاہک کو منانے کی ترکیب کرے گا، لیکن دینی کام کے لیے اپنی اَنا کو زیر نہیں کرے گا۔ دینی حکم کے تحت اسے اگر کسی بھائی بہن کو راضی کرنا ہو، اگر اس پر اپنے والدین کو راضی کرنے کا قرض باقی ہو، تو یہ موقع سے بھاگ جائے گا۔ طریقت کے اصول اور حصول کی خاطر اگر کسی رفیقِ طریق کا دل راضی کرنے کا فرض اس پر باقی ہو تو اسے اور بیسیوں قسم کے اصول یاد آ جائیں گے۔ دراصل یہ اصول کے نام پر اپنی اَنا کے نشان نصب کرتا ہے۔ شومئی قسمت! بسا اوقات یہ اپنے مزاج کی تکمیل اور اَنا کی تشکیل کو دین اور روحانیت کی تبلیغ کا نام دے دیتا ہے۔

بہرطور دوستی ایک راہِ وفا ہے … اور یہاں وفا کے راہی کم کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔ سچ میں دوستی روح کا میل ملاپ ہے۔ دوستی کے باب میں دلیل سے زیادہ دل کی اہمیت ہوتی ہے۔ یہاں ہار کر جیتا جاتا ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے: ”ہم بحث جیت جاتے ہیں اور دوست ہار جاتے ہیں۔“

اب یہ آپ پر ہے، آپ کیا چاہتے ہیں؟ آپ بحث جیتنا چاہتے ہیں یا دوست؟ حضرت واصف علی واصفؒ ہی کا قول ہے:”دوست کے ساتھ صرف ایک ہی سلوک رَوا ہے اور وہ وفا ہے۔ وفا کرنے والے کسی کی بے وفائی کا گلہ نہیں کرتے۔ اپنی وفا کا تذکرہ بھی وفا کے باب میں ابتدائے جفا ہے”۔

ایک سچے دوست کو صرف اپنی وفا سے غرض ہونی چاہیے۔ دوست کی بے وفائی بھی کھلے دل قبول کر لینی چاہیے، شکوے، شکایت اور گلِے کا دفتر کھولے بغیر! جو دوستی میں استقامت اختیار کرتا ہے، اسی کے لیے محبت کے ابواب کھولے جاتے ہیں۔ مجاز سے غداری کرنے والا حقیقت کا محب نہیں کہلا سکتا۔ کسی کی بے وفائی کا ذکر نہ کریں، اپنی وفا برقرار رکھیں۔ وفا ایک ریاضت ہے، اِس ریاضت میں ثابت قدم رہیں۔ آپ کو اپنی ریاضت سے کام ہونا چاہیے۔ وفا خوشبو ہے، جفاکاری بساند۔ خوشبو کو بس مہکنے سے کام ہے۔ جہاں خوشبو ہوتی ہے، وہاں بدبو کسی کو محسوس ہی نہیں ہوتی۔ حریمِ محبت وفا کی عُود سے مہک رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دوستی کو مجاز کی حد تک محدود نہ رکھیں، اسے حقیقت کی کھلی فضا میں لے جائیں۔ مجاز فراق اور وصال کے جھنجھٹ سے آزاد نہیں ہوتا۔ حقیقت میں رقیب اور رقابت کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ کھوئے ہوئے دوست کو واپس بلانے کا کوئی طریقہ نہیں۔ یہ دل کا سودا ہے، سودائی ہی یہاں کامیاب ہوتے ہیں۔ روٹھنے والے دوست کی شکایت سن لیں اور دُور کر دیں، خود سے کوئی شکایت نہ کریں۔ شکایت کرنے سے شکایت دُور نہیں ہوتی، شکایت سننے سے دُور ہوتی ہے۔ وہ جو کبھی دوست تھا، اگر وہ دل کے بجائے دلیل پیش کرنے لگے تو پھر واصفی پروٹوکول یاد رکھیں:
واصفؒ یار دلیلیں پئے گیا
توں وی پیچھے ہٹ دا، جا

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply