بس ترویدی رہ جائے گا: انعام رانا

بات شروع کرتے ہیں بھٹو صاحب سے جن کے کان میں ترویدی نے سرگوشی کی کہ مجیب غدار ہے اور اگر اقتدار میں آیا تو ملک ٹوٹ جائے گا۔ شاید اسی لئیے بنگلہ قتل عام پہ بھٹو صاحب پکارے، خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا۔ پاکستان مگر ٹوٹا اور مسکراتے ہوے ترویدی نے سنگھاسن پہ بھٹو صاحب کو بٹھا دیا کہ ہماری عزت بحال کیجئیے، ملک سنبھالئے کہ امید آپ ہی ہیں،دنیا میں بھلا آپ سا کون ہے۔ بھٹو صاحب اسے زیادہ سنجیدہ لے گئے تو ترویدی نے نو ستاروں کو سمجھایا کہ اگر بھٹو تخت پہ رہا تو ملک کا تختہ ہو جائے گا۔ بھٹو صاحب ترویدی کی جھکی آنکھوں میں چھپی بیزاری نا دیکھ پائے اور پھندے پہ جھول گئے۔ ترویدی نے مسکراتے ہوے انکو دفن کیا اور سنگھاسن پہ خود بیٹھ گیا۔

دنیا کا موسم بدلا تو پگاڑا کے دربار میں بارکوع اک مرید کو قیام دیا مگر پسند نا آیا۔ آندھی چلی تو ٹوپی ترچھی کی اور بھٹو کی ہی بیٹی کو تخت پہ آدھے پاؤں بٹھا کر مسکرانے لگا اور ساتھ ہی شیر پنجاب نواز شریف کے سر پہ ملک کے نظریاتی دفاع کی پگ باندھ دی۔ پھر مسکراہٹ قہقہوں میں بدلی کہ بے نظیر کو نواز شریف اور نواز شریف کو بے نظیر کی مدد سے یوں نکالا کہ دونوں ہی ممنون ہوتے رہے۔ نواز شریف مگر دو تہائی کے خمار میں عہدے کو زیادہ ہی سنجیدہ لے گئے تو جدے گئے اور ترویدی نے مسکراتے ہوے پھر خود سنگھاسن سنبھال لیا۔

ترویدی خود اپنے ہی دست و پا سے بھی کھیل کر خوش ہوتا ہے، سو اپنے دائیں بازو مشرف کو بائیں پاؤں افتخار چوہدری میں پھسا لیا اور مسکرانے لگا۔ بھٹو کی بیٹی پچھلی عمر میں باپ کے نعروں کو زیادہ سوچنے لگی تو اسے چیتاونی دی مگر اسے بھی تاریخ میں زندہ رہنے کا شوق تھا۔ جانے بندوق کس کی تھی اور شکاری کون، اس مرغزار کا سب سے سنہری ہرن یوں لہو میں ڈوبا کہ سیاست کی تسبیح اب بھی ستائس دسمبر کو سرخ ہو جاتی ہے۔

اک زرداری سب پہ بھاری ماضی سے سیکھتے رہے تھے تو اس کرسی پہ بیٹھے جہاں ترویدی کو پنجے زرا اٹھانا پڑتے تھے اور ترویدی کو کہا لو کھیل لو۔ البتہ ترویدی کو کھیل زیادہ پسند نہیں آیا، نواز شریف کوٹ پہن کر نظریاتی سرحد بچانے عدالت جا پہنچے، گیلانی کو انصاف کی دیوی کھا گئی،ترویدی کی نظروں کی تپش اتنی بڑھی کہ زرداری کو پرفضا مقام پہ سانس لینا پڑی۔ ترویدی نے مسکراتے ہوے تاج پھر سے نواز شریف کے سر پہ رکھ دیا۔ تیسری باری تو معصوم لونڈا بھی کام سیکھ لیتا ہے یہاں تو وزیراعظم تھا۔ شروع دن سے ہی ترویدی کی ان سنی کرنے لگا۔ ترویدی نے بھنویں تلوار کیں مگر اثر نا ہوا۔ ترویدی نے کھلاڑیوں کے کھلاڑی کو آنکھ ماری۔ کئی سال سے اسے یہ منا کر سیاست میں کھینچا گیا تھا کہ عوام ان چوروں سے تنگ آ گئے اور تو ہی ان کا مسیحا ہے۔ اب تک مگر ویٹنگ میں رکھا تھا کہ کچا تھا۔ قدرت نے پانامہ دیا، ترویدی نے نذرانہ۔ ادھر رجنی کو بچپن سے ہی تاریخ رقم کرنے کا شوق تھا ورنہ جج تو وہ باپ کی خواہش پوری کرنے کو بنا تھا۔ ترویدی نے اسے بتایا کہ کچھ فرائض اسکے بطور جج ہیں جنکا ثواب اسکے نصیب میں صدارت ہے۔ صحافت تو ہے ہی وہ لونڈی جو ترویدی کی جانب کانی آنکھ سے دیکھ کر آزاد کتھک کرتی ہے۔ لیجئیے تبدیلی کے انقلاب کا سفر شروع ہوا۔ ٹیم ترویدی نے سیلیکٹ کر دی تھی اور امپائر وہ خود، تو کپتان کیلئیے میچ جیتنا کیا مشکل تھا۔ ترویدی نے مسکراتے ہوے نیا سیلوٹ ممنون ہوتے کپتان کو کیا، جو ہینڈسم بھی بہت تھا اور ایماندار بھی۔

کپتان کیونکہ ترویدی کا دس سالہ منصوبہ تھا تاکہ کرپٹوں کی موجودہ نسل یا قبر میں اتر جائے یا نظر سے گر جائے، تو ہر جانب سے کمک پہنچائی۔ اپنے بچے کی کمزوریاں تو ماں بھی دوپٹّے تلے ڈھانپ لیتی ہے۔ بچہ مگر وقت سے پہلے بالغ ہو گیا اور بلوغت سرپھری ہوتی ہے۔ ادھر پہلی بار ترویدی کا نام لے لے کر الزام لگنے لگے تھے۔ خدا کی مار اپنی گود کا پالا اک مولوی نکے کا ابا کہہ کہہ کر ٹچکریاں کرنے لگا اور ترویدی کی خدا ترسی سے لندن گیا مریض صحت مند سوال۔ ترویدی ابھی فقط بے چین تھا مگر کپتان نے سیم پیج پہ انٹرویو لکھ دیا۔ ایسی جرات تو دو تہائی والے کو نا ہوئی تھی۔ ترویدی کی مسکراہٹ غائب ہو گئی، پیج پھٹ گیا۔

ترویدی کو جو آزردہ دیکھا تو کچھ لوگ آگے بڑھے اور یاد دلایا کہ کیسے ہم باعث مسکان رہے ہیں۔ اداس نا ہوئیے، ہم مر گئے ہیں کیا؟ آپ بس منہ پھلا کر بیٹھ جائیے اور ہماری باؤلنگ دیکھئیے۔ امپائر نے جو نو بالز اگنور کرنا شروع کیں تو کپتان کا ماتھا ٹھنکا۔ اس نے سائیڈ امپائر کو مین وکٹ پہ آنے کو کہا مگر گیم کے کچھ رولز بھی ہوتے ہیں۔ آخری اوور آیا تو کپتان نے فیصلہ کیا کہ یا تو پہلے جیسی وکٹ دو وگرنہ نا کھیلوں گا نا کھیلنے دوں گا، سازش کا نعرہ لگایا اور وکٹ ہی کھودنا شروع کر دی۔ سب نے ترویدی کے گرد گھیرا ڈال لیا کہ وکٹ گئی تو کھیلیں گے کہاں؟ ترویدی نے رات گئے تھرڈ امپائر کال کیا، سٹیڈیم کو گھیرا ڈلوا لیا اور دو سکیورٹی والے کپتان کو پکڑ کر سٹیڈیم سے باہر چھوڑ آئے۔ ترویدی نے مسکراتے ہوے نائٹ میچ جاری رکھنے کا اشارہ کیا اور کہا اب سب ہی بیٹنگ کرو۔ کھیل جاری رہے گا، کپتان کی سٹیڈیم میں دوبارہ انٹری پہ پابندی لگ چکی اور اب وہ باہر ہی نعرے مارتا تاریخ بن جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

کھیلنے والے بھی جانتے ہیں، سب ہار جائیں گے، بس ترویدی جیتے گا۔ مگر وہ پھر بھی کھیلیں گے جانے کرنی اور دیر۔ سب مارے جائیں گے، بس ترویدی رہ جائے گا، مسکراتا ہوا۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”بس ترویدی رہ جائے گا: انعام رانا

  1. وااہ رانا صاحب درست نقشہ کھینچ دیا۔ پاکستانی سیاست کی یہی اصلیت اور حقیقت ہے۔

Leave a Reply