اپنے شکستہ جسم سے کہتا ہوں میں جھک کر
باغ ِ ارم ہے، ایک خیاباں ہے یہ جہاں
تو مرغزار زیست کا وہ مرزبان ہے
جو ذوق وشوق و تاب وتواں میں تھا مستعد
جس میں قرار تھا نہ تعطل نہ کاہلی
طوفاں میں بھی جو بر سر ِ پرواز رہا تھا
جو آشنا نہ تھا کبھی فرصت کے نام سے
اپنے شکستہ جسم سے کہتا ہوں میں، اُٹھ چل
مت دیکھ یہ بکھرے ہوئے سرطان زدہ جسم
جو ماندگی سے مضمحل ہر سمت پڑے ہیں
پسپائی کے مارے ہوئے یہ لوگ ہیں ناکام
تُو ان کی طرح بے عمل، بیکار نہیں ہے
اُٹھ چل کہ ابھی تک تری منزل نہیں آئی
جنت بدر ہوا تو ہوں لیکن درونِ ِ دشت
“قانون ِ باغبانی ِ صحرا نوشتہ ایم”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تین ماہ کے اسپتال اور نرسنگ ہوم میں قیام کے بعد لکھی گئی!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں