فسق و فجور۔۔قربِ عباس

“ویلنٹائن کو محض اس لیے مار دینا کہ وہ محبت کرنے والوں کی شادیاں کرواتا تھا، ایک ٹریجڈی ہے۔ لیکن اسی تصویر کا دوسرا رُخ بھی تو دیکھو۔۔۔ ایک طرح سے اس نے جرم بھی کیا تھا۔”

میرے دوست نے حیرت سے کہا؛
“دو محبت کرنے والوں کی شادی کروانے میں کیسا جرم؟”

اور میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا؛
“کیوں کہ وہ بیچارے دو محبت کرنے والوں کی ‘شادی’ کروا دیتا تھا!”

ہم دونوں نے اس بات پر قہقہہ لگایا۔
آج چودہ فروری ہے۔ فضاء میں ہر طرف محبت ہی محبت ہے، ہر کہیں سرخ رنگ، سرخ سفید دل والے غبارے، سرخ پھول ہی پھول، لوگوں کے سرخ کپڑے، چہروں پر محبت۔۔۔ سینٹ ویلنٹائن کو چودہ فروری کے روز اٹلی کی خاک تلے دفنا دیا تھا مگر اس نے جو محبت عام کی تھی وہ آج لاہور ہی کیا پوری دنیا کی فضاء میں پھیل چکی ہے۔ کہیں پر پہرہ ہو، کوئی مجبوری ہو، کوئی بے بسی ہو۔۔۔ محبت بہار تک پہنچنے کا کوئی نہ کوئی راستہ ضرور تلاش کر ہی لیتی ہے، چاہے وہ چور راستہ ہی کیوں نہ ہو۔میرے اس دوست نے بھی اس محبت کو کاروبار میں بدل دیا ہے، یعنی اس نے شہر سے کچھ ہٹ کر ایک بہترین ریستوران  بنایا ہے، جس میں طرح طرح کے معیاری کھانے ہیں، ہر وقت دھیمی دھیمی موسیقی بجتی رہتی ہے اور ٹیبل پر پڑی شمع کی مدھم روشنی میں دو پیار کرنے والے اپنی سرگوشیوں سے اس موم بتی کا شعلہ تھرکاتے رہتے ہیں۔ چونکہ ریستوان سستا بھی ہے تو نوجوان جوڑے زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ مجھے یہاں سے چائے مفت ملتی ہے اور کوئی اچھی کتاب پڑھنے کے لیے بے شمار وقت بھی۔۔۔ اس لیے بعض اوقات یہاں آکر بیٹھ جاتا ہوں اور چائے کے ساتھ ساتھ کوئی کتاب پڑھتا رہتا ہوں ۔ کبھی سر اٹھا کر اِدھر اُدھر بیٹھے جوڑوں کو دیکھتا رہتا ہوں۔۔۔ چہروں پر محبت دیکھنا مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : امروز- محبت کا لوک گیت جسے نام کی ضروت نہیں۔۔سلیم پاشا/انٹر ویو (پہلا حصہ)

آج میری  پچھلی  ٹیبل پر ایک بے چین طبیعت نوجوان بیٹھا تھا، وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اٹھتا اور موبائل دیکھتا ہوا باہر نکل جاتا پھر اسی مضمحل چہرے کے ساتھ اندر واپس آجاتا، یوں لگ رہا تھا کہ وہ شدت سے اپنی محبوبہ کے انتظار میں ہے۔ سرخ ٹائی اس کے اندر چھپے جذبات کو کچھ اور عیاں کر رہی تھی۔۔۔ میں نے پہلے اتنی زیادہ توجہ نہ دی تھی مگر میں کتاب کے کس پنے پر پہنچا ہوں یہ اس وقت بھول گیا تھا جب اس کے بائیں ہاتھ کی انگلی میں ایک سونے کی انگوٹھی دیکھی تھی، عمر سے کوئی سٹوڈنٹ تو نہیں لگتا تھا۔۔۔ انگوٹھی بتا رہی تھی کہ شادی شدہ بھی ہے۔۔۔ مگر پھر اس کے چہرے پر بے چینی، آنکھوں میں انتظار، ویلنٹائن، کینڈل لائٹ ڈنر، سرخ ٹائی۔۔۔ اور انگلی میں شادی کی انگوٹھی۔۔۔؟ یہ سب چیزیں میرے لیے واضح تضاد کا سبب بن گئیں اور میں   اپنی کتاب کے ساٹھویں صفحے پر اٹک کر رہ گیا۔

اس کا موبائل بجا اور وہ بولا؛
“ہیلو، کہاں رہ گئی ہو یار؟ گھنٹے سے انتظار کر رہا ہوں۔
اچھا۔۔۔ اوکے، پانچ منٹ کا مطلب ہے بس پانچ منٹ۔”

اتنا کہہ کر اس نے کال کاٹ دی اور پھر جیب سے ڈبیا نکالتا ہوا باہر نکل گیا، دروازے کے اس پار کھڑا ہو کر سگریٹ سلگا لیا، شیشے کے اس دروازے سے میں باآسانی اُسے دیکھ سکتا تھا کہ وہ کس قدر مضطرب حالت میں چہل قدمی کر رہا تھا اور کش پر کش لگا رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں ہی ایک سرخ لباس میں خوبصورت لڑکی اس کے قریب آئی، اس کے چہرے کی بے چینی ختم ہوگئی اور دونوں مسکراتے ہوئے ریسٹورنٹ  کے اندر داخل ہوگئے۔

میری پچھلی نشست پر وہ تھے اور میں ان کی سرگوشی کو ذرا سا کان لگا کر سُن سکتا تھا، میرے کاروباری دوست نے آج موقع کی مناسبت کو سمجھتے ہوئے “بہاروں پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے” کا انسٹرومنٹل میوزک لگایا ہوا تھا جو دو دلوں کے اندر ابلتے ہوئے جذبات کو کچھ اور اشتعال دلا رہا تھا۔ لڑکی نے بیٹھتے ہی کہا؛
“ٹائی بہت اچھی لگ رہی ہے۔”

لڑکا بھی انسیت سے بھری آواز میں بولا؛
“You are also looking gorgeous in this dress”

مجھے مسکراہٹ کی کھنک اور محبت کی جھنکار ان کی آواز میں بالکل واضح سُنائی دے رہی تھی۔
لڑکا بولا؛
“تو آج آسانی سے نکل آئی تم اس دیو کے چنگل سے؟”

یہ بھی پڑھیں :  محبت کی سرگوشیاں۔سائرہ ممتاز

“کچھ مت پوچھو یار۔۔۔ کتنی کہانی گھڑنی پڑی ہے، میں نے کہا تھا کہ آج ایک سہیلی نے پارٹی رکھی ہے اس پر جانا ہے۔۔۔ اس کی باتوں سے لگ رہا تھا کہ اس کو مجھ پر شک ہوگیا ہے، کیوں کہ کہہ رہا تھا میں چھوڑ آتا ہوں، میں نے کہا کہ نہیں تمہارا دوست اسلام آباد سے آرہا ہے اس کے ساتھ گپ شپ کرو ۔ میں نہیں چاہتی کہ میری وجہ سے اپنا پلان خراب کرو۔”

لڑکے کی حیران آواز سنائی دی؛
“دوست اسلام آباد سے؟ تم بیوقوف ہو؟ پاگل لڑکی وہ تمہیں چکر دے رہا ہے۔۔۔ خود بھی کسی ڈیٹ پر نکلا ہوا ہے!”

لڑکی نے لاپروائی کے ساتھ جواب دیا؛
“مجھے کیا، جہاں مرضی جھک مارتا پھرے۔۔۔ مجھے تم مل گئے ہو اور کیا چاہیے؟ اور ویسے بھی دیکھا جائے تو میں بھی اس کو دھوکہ ہی دے رہی ہوں۔”

لڑکا پُرجوش انداز میں بولا؛
“کوئی دھوکہ نہیں۔۔۔ محبت میں کوئی دھوکہ نہیں ہوتا!”

“تم بھی تو اپنی بیوی سے کوئی جھوٹ ہی بول کر آئے ہوگے؟”

لڑکے نے قہقہہ لگایا؛
“ہاں، میں نے اس ڈائن کو یہی کہا ہے کہ آج کچھ لیٹ آؤں گا، کام زیادہ ہے۔”

“تم اس کو طلاق دے دو بس!”

“اوکے تم اپنے شوہر کو جب زہر دے دو گی تو میں بھی اپنی بیوی کو طلاق دے دوں گا۔”

لڑکی اداس آواز میں بولی؛
“کب تک ایسے ملتے رہیں گے؟”

ویٹر ان کے ٹیبل کے قریب آگیا اور کچھ دیر کے لیے میں صرف انسٹرومنٹل میوزک ہی سنتا رہا۔

میرے لیے یہ سب سننا دلچسپ تو تھا ہی مگر ایسا بھی ہے کہ مجھے افسوس ہو رہا تھا۔ ہم لوگ ایسے سمجھوتے کیوں کرتے ہیں اور پھر پوری زندگی کے لیے؟ کیا اس طرح سے تابوت میں بند ہو کر رہنا گھٹن کا سبب نہیں بنتا؟ صرف ذرا سی کوشش کی ضرورت ہے کہ انکار کیا جائے، ہر اس جھوٹے رشتے اور بے جوڑ بندھن سے انکار کیا جائے جس کا بوجھ اٹھائے پھر رہے ہیں۔ لیکن ایسا کیا نہیں جاتا، ہمارے ہاں اس کو شرمناک سمجھا جاتا ہے جبکہ لاکھوں جوڑے شادی کے بعد بھی عاشقی معشوقی کسی اور سے لڑاتے پھر رہے ہوتے ہیں، وہ سب نارمل ہے۔

“تم جب جب اپنی بیوی کی بات کرتے ہو تو پتا نہیں کیوں۔۔۔ مجھے جلن سی محسوس ہوتی ہے۔”

لڑکی کی آواز کے ساتھ سامنے پڑی شمع کا شعلہ بھی تھرتھرایا ہوگا۔ لڑکے نے یہ جواب اس لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر دیا ہوگا؛
“یہ سُن کے دل میں عجب شور کوئی ہوتا ہے!
تیرے کمرے میں اب۔۔۔ اور کوئی ہوتا ہے۔”

ان کی آوازوں کے ساتھ میں کتاب کے ساٹھویں صفحے پر رُکا ایک اپنی اینیمیشن فلم چلا رہا تھا۔

یہ بھی پڑھیں  مجھے صرف تم سے محبت ہے۔اسماء مغل(ہمایوں احتشام کی تحریر کے جواب میں )

” مجبوری یہ ہے کہ میں اس کو چھوڑ نہیں سکتا، تم اس کو چھوڑ نہیں سکتیں۔۔۔ خاندان ٹوٹ جائیں گے اور پھر اس سکون سے چلتی زندگی کو بہت ساری مشکلات آکر گھیر لیں گی۔”

لڑکی کی شکایت بھری آواز سنائی دی؛
“یہ زندگی سکون کی زندگی ہے؟ ہر ایک پل ڈر ڈر کر رہنا اور پھر ہر روز ایک نیا جھوٹ بولنا، اپنے شوہر کے آفس جانے کا انتظار کرنا کہ کب وہ جائے اور کب تم سے میری بات ہو اور پھر یہ ڈر رہنا کہ اگر موبائل میں کوئی میسج رہ گیا ، اس نے پڑھ لیا تو کیا ہوگا؟”

“ہاں، ڈر تو ہے ہی۔۔۔ شاید یہی ڈر ہماری محبت میں مزے کا سبب بھی ہے! آہ۔۔۔ کب ملیں گے دوبارہ اسی رات کی طرح؟”

لڑکی شرمانے لگی؛
“بس تمہیں تو ہر وقت یہی پڑی رہتی ہے کہ کہیں رات گزارنے کا موقع  مل جائے۔”

“اور تمہیں؟ اور تمہیں انتظار نہیں رہتا ایسی رات کا؟ جو پوری کی پوری گناہ میں ڈوبی رات ہو۔۔۔ کالی سیاہ مگر بہت جگمگاتی۔۔۔”

پچھلی نشست پر فلمی سین شروع ہوچکا تھا۔ بات دھیرے دھیرے اپنی منزل کی جانب بڑھ رہی تھی۔ لڑکی کی رومانوی سانسوں کے ساتھ لڑکھڑاتی آواز جھومی؛
“تم ایک نشہ ہو! اور مجھے اس نشے کی لت لگ چکی ہے۔۔۔ اب اگر یہ نشہ چھوٹ گیا تو زیادہ دن رہنا مشکل ہے۔”

لڑکا بھی مدہوش تھا؛
“میرے لیے بھی، تم ایک ناختم ہونے والا سرور ہو۔۔۔ تو کب ہوگا یہ نشہ؟”

” دو تین دن میں اس کو گھر سے باہر جانا ہے ایک رات کے لیے، تم آجانا اور پھر رات بھر پیئیں گے، جھومیں گے، مستی کریں گے!”

اب چونکہ معاملہ کچھ زیادہ پرائیوٹ ہو رہا تھا اس لیے میں نے کوشش کی کہ میں نہ ہی سنوں۔ مگر یہ ممکن بھی کیسے تھا؟ وقت گزرتا جا رہا تھا اور آواز کانوں میں خود ہی گھس رہی تھی۔ میں نے کتاب میں اپنا ذہن لگانا چاہا مگر ایسا مجھ سے زیادہ دیر تک نہ ہو پایا، پھر سامنے والے ٹیبل پر بیٹھے ایک جوڑے کو دیکھنے لگا، بہت دیر تک دیکھتا رہا۔۔۔ وہاں پر کوئی حرکت نہ تھی، کوئی گرم جوشی نہ تھی ۔ یقیناً وہ میاں بیوی تھے، چپ چاپ اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کھانا کھاتے چلے جا رہے تھے، بیچ بیچ میں روکھی روکھی باتوں کے دو چار نوالے، ان باتوں کو سنے بغیر سمجھا جا سکتا تھا یعنی؛
“کھانا کیسا ہے؟”

“ہوں! اچھا ہے۔”

پھر ایک لمبی کمرشل بریک کے بعد ایک جملہ؛
“یہاں اچھا ہی ہوتا ہے۔ سٹنگ اچھی ہے۔”

“ہوں! کافی اچھی ہے۔”

پھر ایک وقفہ؛
“کچھ اور لو گی؟”

“نہیں کچھ نہیں۔ آپ ؟”

“نہیں بس میں فُل ہوں۔”

“تو گھر چلیں؟”

“ہاں تم چلو میں آتا ہوں۔”

اور بس، یہ پارٹی ایسے ہی شروع ہوتی ہے ایسے ہی ختم ہوتی ہے۔
مگر میرے پیچھے جو فلم تھی اب کچھ اڈلٹ فلم میں تبدیل ہونے جا رہی تھی شاید!
میں چائے پی چکا تھا، کتاب مجھ سے پڑھی نہیں جا رہی تھی دوست یہاں پر موجود نہیں تھا اور موبائل پر بار بار بیوی کے میسج آ رہے تھے:
“کہاں ہو ابھی تک؟ گھر نہیں آنا آج؟
کب تک آنا ہے؟
اوکے، کوئی جواب نہ دو
آ رہے ہو کہ نہیں؟
آج چودہ فروری ہے”

پانچ چھ میسج کے بعد جب اس نے کہا کہ آج چودہ فروری ہے تو میں یک دم جھٹکے سے اٹھا، میرے ذہن نے گھنٹی بجائی کہ آج میری شادی کی سالگرہ ہے۔۔۔
گھر کے لیے نکلتے ہوئے ریسٹورنٹ  کے دروازے پر دوست بھی مل گیا؛
“خیر ہے آج بغیر گپ شپ کے ہی بھاگ رہے ہو۔”

“بس یار اب کل ہی ملاقات ہوگی کیوں کہ مجھے آج جلدی جانا ہے۔”

وہ ہنس دیا اور کہنے لگا؛
“اوئے ابھی تو محفل جوان ہوئی ہے، یہاں پر بہت شغل ہوگا، میں تو کہتا ہوں کہ بھابھی کو کہہ دے یہاں آجائے۔۔۔ آج کی پارٹی میری طرف سے ہے۔”

اس نے میرا ہاتھ تھاما اور ریسٹورنٹ  کے اندر واپس کھینچنے لگا؛
“چل فون کر بھابھی کو، وہ یہیں آجائیں۔”

میں نے موبائل نکال کر کال کی اور بیوی سے کہہ دیا کہ تیار ہو کر یہاں آجاؤ، کال کے دوران ہی میرا دوست میری پچھلی نشست پر بیٹھے فلمی جوڑے کے پاس کھڑا حال چال پوچھنے لگا۔ میں نے کال کاٹ کر دوست کے بیٹھتے ہی پوچھا؛
“تم ان دونوں کو جانتے ہو؟”

“ہاں بہت اچھی طرح، ہر مہینے آتے ہیں۔۔۔ دوست ہیں میرے!”

میں کچھ دیر خاموش رہا، پھر سوچا کہ کچھ اور کریدوں؛
“یہ دونوں شادی شدہ ہیں!”

“ہاں ہاں دونوں شادی شدہ ہیں، ماشاء ایک بیٹی بھی ہے ان کی!”

“ان کی مطلب؟”

دوست نے میری حیرت کو حیرت سے دیکھا؛
“ان کی مطلب انہی کی اور کس کی؟”

“مطلب ان دونوں کی آپس میں شادی ہوئی ہے؟”

دوست میری بیوقوفی پر مزید حیرت  زدہ ہوا؛
“ہاں تو؟ تین سال پہلے یہاں پر ان کی شادی ہوئی تھی، میرے اسی ریسٹورنٹ  کے ویڈنگ ہال میں! کیوں تجھے کس بات کی پریشانی ہے؟”

یہ بھی پڑھیں :  میرو اور جینا۔۔ انعام رانا

اتنا کہہ کر وہ کچھ دیر رُکا اور پھر اس نے قہقہہ لگایا؛
“ارے یار میں سمجھ گیا! تم نے ان کا کوئی ڈرامہ دیکھا ہوگا۔ یہ ایسے ہی ہیں، جب میں ٹوکتا ہوں تو کہہ دیتے ہیں بھئی ہم تو زندگی کو ہر اینگل سے پرکھنا چاہتے ہیں، سارے ذائقے چکھنا چاہتے ہیں، سارے رنگ دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر یہ اداکاری بھی ہے تو اس میں کیا برا ہے؟ سب لوگ ایسی ہی اداکاری تو کر رہے ہیں، ہم میں اور عام لوگوں میں فرق بس اتنا سا ہے کہ وہ ہر مرتبہ اپنا ساتھی کردار بدل لیتے ہیں، ہم دونوں کو ایک ساتھ پرفارم کرنے میں مزہ آتا ہے۔”

Advertisements
julia rana solicitors

میں ہنس دیا اور ان کی جانب دیکھا جو ابھی تک کسی فلمی جوڑے کی طرح ایک دوسرے میں ڈوب کر سرگوشیوں پر سامنے پڑی شمع کے شعلے کو اپنی سانسوں پر نچا رہے تھے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply