ادھوری محبت کا حاصل (افسانہ)۔۔محمد وقاص رشید

ادھوری محبت کا حاصل (افسانہ)۔۔محمد وقاص رشید/ریل اپنی پٹڑی پر رواں دواں تھی۔۔شاعر کی سوچوں کی پٹڑی پر بھی یادوں کی ایک ریل محوِ حرکت تھی۔ کبھی کسی اسٹیشن پر رکتی کبھی کسی پلیٹ فارم پر خراماں خراماں چہل قدمی کرتی۔ایک خاص اسٹیشن پر یادوں کی ریل ایسی رکی کہ وہ پہلو بدل کر رہ گیا۔ ایک بے زاری سی رگ و پے میں سرائیت کر گئی ۔ ازل کا مسافر یہ شاعر ان تنہا مسافتوں سے تھک چکا تھا۔اسے اپنا ہی ایک شعر یاد آ رہا تھا۔
کوئی منزل نہیں تو سفر کس لیے
اے مسافر یونہی در بدر کس لیے
اس دن تو گرمی بھی بلا کی تھی۔۔ ریل سے جڑی مسافر کی رومانویت کو گویا جھلسا ہی رہی تھی۔ریل کے پہیوں سے آنے والا شور اسے سر میں چبھتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔کھلی کھڑکیوں سے آنے والی گرد ظاہر میں بھی ایسا غبار برپا کیے ہوئے تھی جیسا اسکے باطن میں اس وقت گردباد کا عالم تھا۔ گرم لو کے تھپیڑے چہرے پر یوں لگ رہے تھے جیسے ہجر کے تپتے صحرا سے آتے ہوں۔اپنے پیارے دیس کی ریل تھی پنکھے بھی ایسے چل رہے تھے ،جیسے شبِ ہجراں کی گھڑیاں چلتی ہیں۔ اجنبی چہرے۔۔دشتِ انجان کی مسافت۔۔اور اس پر غضب یہ کہ اسکے ہاتھوں میں پکڑا قلم اسکی زندگی کی طرح ٹھہرا ہوا تھا اور صفحہ اسکے دل کی طرح ویران۔۔

ریل کسی پلیٹ فارم پر رُکی۔۔ کچھ سواریاں اُتریں کچھ سوار ہوئیں۔ شاعر کھڑکی کے ساتھ سنگل والی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا۔اچانک وہاں ایک سواری آ کر کھڑی ہو گئی ۔یہ سواری ریل پر نہیں اسکے دل پر سوار ہوئی تھی۔کوئی سیٹ خالی نہیں تھی، سو شاعر نے اسے زندگی کا سب سے قیمتی لمحہ گردانتے ہوئے۔ کھڑے ہو کر اسے اپنی سیٹ پر بیٹھنے کے لیے کہا۔۔اس اپسرا نے انتہائی دلربا انداز میں جو شکریہ کہا تو اسکی سماعتوں میں شکریہ کا ش ،شیرینی ٹپکانے لگا۔لفظوں کے کھلاڑی کو اس دن پتا چلا کہ شفا کے شہد ساتھ ساتھ کسی کے شش  یہ کہنے میں بھی ہو سکتی ہے۔اسکے   انداز میں عامیانہ پن کہیں بھی نہیں تھا۔۔ شاعر نے سوچا کہ یہ شاید بہشت کا اسٹیشن تھا اورخدا کی کوئی حور ریل پر سوار ہو گئی ہے اور اب اسے لے کر یہ اسکے جنت کے محل کی طرف رواں دواں ہے۔کالی چادر میں ملبوس ، ایک پُر وقار چال چلتے ہوئے وہ اسکی سیٹ کے ساتھ آکر کھڑی ہو گئی ۔شاعر کو یوں لگا جیسے اسکا حسن کوئی طلسم ہے جس میں وہ گرفتار ہو چکا ہے۔اسکا جمال کوئی سحر ہے جو اسکے حواس پر چھا چکا ہے۔جیسے وہ آسماں سے اتری کوئی اپسرا تھی۔۔اسکے صبحِ منور جیسے بدن پر چاندنی رات سی یہ ردا۔۔ ردا نہیں تھی اس جل پری کے پَر تھے۔ جن پر وہ شاعر کو لے کر اڑے جا رہی تھی۔ اسکی آنکھیں۔۔۔ بس۔۔۔ ایک ہی بار جن سے شاعر کی نگاہیں چار ہوئیں تو اسے یوں لگا کہ وہ آنکھیں نہیں وہ آلہءِ قتل ہے جس سے خود کشی حرام نہیں رہی۔۔ شاعر کو لگا کہ اس عام سے شاعر کی جگہ ریل میں فیض صاحب ہوتے تو اسے بتاتے کہ انہوں نے یہ مصرعہ اسکی آنکھوں کے لیے ہی کہا ہے۔

لکھاری:محمد وقاص رشید

“تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے “۔

شاعر کے کانوں میں ریل کی آواز جیسے کلاسیکی موسیقی کے کسی راگ کی طرح رس گھولنے لگی۔۔۔۔ کھڑکیوں سے یکسر بادِ صبا کے جھونکے کوئی پیامِ بہار لے کر آنے لگے ۔۔اسے لگا جیسے ہوا نے اسکے دل کی چوری پکڑ لی ہے اور اب یہ شریر ہوا اس غزال کے ملبوس کو چھو کر شاعر کے رگ و پے میں کوئی خمار بھر رہی ہے ۔اسے اس ہوا میں کسی شبستان میں پڑتی پھوار کی نمی سی محسوس ہوئی۔  فضا میں ایک خوشگوار سی خنکی اسکی حسِ رومانویت کو گدگدا رہی تھی۔ ریل کا ہارن اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئل کی مدھر سی کوک ہو۔ ریل میں لگے پنکھوں کو بھی اچانک کچھ ہو گیا۔ ۔گویا سرعت سےرقص کرنے لگے تھے۔ ۔

شاعر اس سے کچھ فاصلے پر دروازے کے قریب جا کر کھڑا ہو گیا تھا۔   جہاں سے اس نے باہر دیکھا تو اسے یوں لگا کہ دھرتی نے جیسے سنہری چادر اوڑھ رکھی ہے ۔۔ یہ دھوپ تھی۔ ۔۔دھوپ اسے اتنی حسین کبھی نہیں لگی تھی ۔لہلہاتے کھیت تو کسی نخلستان کا منظر پیش کر رہے تھے۔۔۔ شجر یوں تھے جیسے سلطنتِ ادب کے دربان ہوں اور اسے جھک کر سلامی دے کر گزرتے جا رہے ہوں ۔ہر شئے میں ایک تازگی ایک حسن و جمال در آیا تھا۔

وہ اس طرف دیکھنا چاہتا تھا جس طرف چاند فلک سے اتر کر آج اس ریل میں سوار تھا ۔ اسکی چاندنی کو بینائیوں میں بھرنا چاہتا تھا مگر ۔۔وہ خود ہی اپنی راہ میں حائل تھا۔ ۔مگر آج اسے یوں لگ رہا تھا کہ روحوں کے میلے میں جو روح وہاں آسمانوں پر اسکے  ہمراہ تھی۔ ۔۔۔ وہ یہی تھی ۔وہ دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ اسکی منزل بھی وہی ہو۔  اسے بھی خواب نگر ہی جانا ہو۔۔ ۔

اس نے اپنے راستے سے خود ہی کو ہٹا کر بڑی مشکل سے اس طرف دیکھا تو اس نے اپنی کتاب سے سر اٹھایا۔۔۔فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ کتاب کون سی ہے۔  وہ جو اس کی جھولی میں رکھی ہوئی ہے یا وہ جو اسکے کاندھوں پر۔۔ اسکا چہرہ ایک شاعری کی کتاب ہی تو تھا ۔ فراز کی نشیلی غزلوں جیسی مخمور آنکھیں ، فیض صاحب کی سدا بہار نظموں کی طرح کِھلے ہوئے رخسار، میر صاحب کے ہم قافیوں کی طرح کشادہ منور پیشانی۔ غالب کے پپر پیچ کلام کی طرح ریشمی زلفیں۔ ۔ محسن نقوی کے با کمال کلام جیسی تیکھی حسین ناک۔۔خورشید رضوی صاحب کے شاہکار ادب جیسی کاملیت کا نمونہ ٹھوڑی ۔۔اور انور مسعود صاحب کی شاہکار شاعری کی طرح شوخ گلابی ہونٹ۔  ۔شاعر کو اپنا ایک شعر یاد آیا
ہر انگ ہی تخلیق کا شاہکار ہو جیسے
یہ حسن تیرا حسن کا معیار ہو جیسے

وہ سوچ رہا تھا،جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھ رہا تھا  کہ آج کوئی حسین اتفاق ہو گا اور وہ اظہارِ محبت کرے گا اسے یاد کروائے گا کہ یاد کرو وہ سماں جب میرا عشق وہاں عالمِ ارواح میں تمہاری پوجا کرتا تھا۔  تم یہاں زمین پر آج اس ریل کے سفر میں ہمراہ زندگی کی ریل میں ہمسفر بننے کے لیے ہوئی ہو۔  وہ خواب نگر میں اتر کر اسے بتانا چاہتا تھا کہ یہ محض اتفاق نہیں ہے۔۔ اسے اس سے محبت ہو گئی ہے ۔اسکے ذہن میں ایک نئی غزل کا مطلع آیا۔  اسکا جی چاہا کہ اس سے وہ کتاب لے اور اس پر یہ شعر لکھ دے۔ ۔
بہت چاہا تھا نہ چاہیں مگر پھر بھی یہ چاہت ہو گئی
انہیں کیسے بتائیں ہم ، ہمیں ان سے محبت ہو گئی

اسکا یہ بھی جی چاہا کہ اسے یہ بھی بتائے کہ وہ فراز صاحب کی جو کتاب “خوابِ گل پریشاں ہے” پڑھ رہی ہے یہ اسکی پسندیدہ کتاب ہے ۔اس نے یہ کتاب اپنی پہلی کمائی سے خریدی تھی۔۔ فراز سے وہ بھی اتنا عشق کرتا ہے جتنا اسکی آنکھوں سے۔ ۔شاعر اسے بتانا چاہتا تھا کہ اسکے ذوق و شوق بھی اس سے ملتے ہیں ۔ اسے لگتا ہے کہ وہ بھی شاعرہ ہے۔ ۔ وہ اسے کہنا چاہتا تھا کہ وہ اپنی مخروطی انگلیوں میں اسکے دل کو تراش کر اسکا قلم بنا کر تھام لے اور عشق کی کاتبِ تقدیر بن جائے  اور شاعر بدلے میں اسکے حسن پرزندگی بھر محبت کے دیوان لکھتا رہے گا۔

شاعر اپنی آنکھوں میں خواب کے سخن لکھ ہی رہا تھا کہ اچانک ریل کی رفتار آہستہ ہونے لگی۔ کوئی پلیٹ فارم آ رہا تھا ۔اپسرا نے اپنی کتاب بند کی اپنے بیگ میں ڈالی تو شاعر کو لگا جیسے ریل کی رفتار کے ساتھ اسکی سانسوں کی رفتار تھمنے لگی ہے ۔ شاعر کو لگا کہ یہ ریل نہیں رُک رہی۔ ۔ بلکہ اسکے دل کی دھڑکنیں رکنے لگی ہیں۔۔ اسٹیشن آیا۔۔۔ ریل رکی۔۔  اپسرا نے اپنا بیگ اٹھایا اور اسکے پاس سے گزرتے ہوئے اسکی طرف دیکھا اور عید کے چاند جیسی ہلکی سی قوس اسکے یاقوتی ہونٹوں پر نمودار ہوئی۔ ۔اور بہت دھیما سا اس نے کہا۔۔ آداب ۔۔۔ اور وہ اسٹیشن پر اتر گئی ۔۔اسکا جی چاہا کہ وہ بھی وہیں اتر جائے جہاں پر اسکی زندگی کو ساتھ لیے اپسرا اتر گئی۔۔۔۔مگر وہ ازل کا مسافر اور ہجر کا شاعر تھا۔۔ اسے چلنا اور بچھڑنا تھا!

ریل پھر روانہ ہوئی تو ازل کا مسافر اپنی سیٹ پر جا کر بیٹھا۔۔ اسکی اچانک نگاہ پڑی تو ایک کاغذ وہاں کونے میں کھڑکی کے کنارے پر بہت باریک تہہ کر کے رکھا ہوا تھا۔  اس نے جلدی جلدی کھول کر پڑھا تو اس میں ایک چھوٹی سی نظم لکھی تھی۔۔ ۔
تھا سفر اک ریل کا
ایک عجب سے میل کا
شاعر سا اک لگتا تھا
الجھا الجھا گم سم سا
میرے اندر بسنے والے
ہو بہو وہ تھا تم سا
کاش وہ مجھ سے کہہ پاتا
جو کچھ میرے دل میں تھا
کیا ہی عجب مسافت تھی
اک خاموش محبت تھی
(شاعرہ)
اسے یوں لگا کہ جیسے اسکی روح کانٹوں پر رگیدی جا رہی ہو۔ آنکھوں سے آنسو اندر دل پر گر رہے ہوں اور چھالے بناتے چلے جا رہے ہوں۔۔  درد کی ایک لہر دل سے اٹھی اور روح میں سما گئی ۔گرم لو کے تھپیڑے اسکا چہرہ جھلسانے لگے ۔ریل کے پورے ڈبے میں گردو غبار سے سانس لینا محال ہونے لگا ۔ دھوپ آنکھوں میں یوں لگ رہی تھی کہ گویا آشوبِ چشم کا مرض لاحق ہو ۔ ریل کی آواز گرڑ۔۔ گرڑ۔۔ گڑ گڑ گڑ۔۔۔۔۔۔ اسکے دماغ میں ہتھوڑے برسا رہی تھی۔ پنکھے بھی یوں چل رہے تھے جیسے غریب کی زندگی میں شب و روز کی گردش ہوتی ہے۔ اس نے باہر دیکھا تو سنگلاخ چٹیل بے رنگ میدان و خشک صحرا۔ درخت بھی اپنی ہریالی کھو چکے تھے۔ اجنبی چہرے۔۔  اجنبی دنیا۔ ۔ ازل کا مسافر شاعر تھک چکا تھا ان مسافتوں سے۔ ۔ان ادھوری محبتوں سے۔ ۔

Advertisements
julia rana solicitors

خدا خدا کر کے خواب نگر آ گیا ۔ شاعر ریل سے اُترا  اور اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہو گیا ۔وہ منزل جہاں اسے سوچوں ،فکروں ،خیالوں اور یادوں کے ایک نئے سفر پر روانہ ہونا تھا ۔جہاں کاغذ ،قلم اور شاعر رہتے تھے۔۔۔۔اس نے ریکارڈر پر محترمہ اقبال بانو کی گائی ہوئی فیض صاحب کی شاہکار غزل لگا دی۔۔
دشتِ تنہائی میں اے جانِ جہاں لرزاں ہیں
تیری آواز کے سائے تیرے ہونٹوں کے سراب
دشتِ تنہائی میں دوری کے خس و خاک تلے
کھل رہے ہیں تیرے پہلو کے چمن اور گلاب
شاعر کا رکا ہوا قلم چلنے لگا۔۔۔۔ وہ ادھوری محبت کے عنوان سے ایک نظم لکھنے لگا۔۔۔۔۔ شاعری کرنے لگا۔۔۔۔جو اسکی ہر مسافت کا حاصل تھی۔۔ ہر محبت کا حاصل تھی!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply