ماہ رنگ بلوچ!تیری جرأتوں کو سلام/ندیم اکرم جسپال

پاکستان آرمی ہر چند سال بعد کوئی ایک آدھ سیاسی جماعت اُدھیڑ کے تجربہ کرتی ہے۔ہماری دادیاں نانیاں اپنے وقتوں میں سویٹر اُدھیڑ کے اُسی دھاگے سے کوئی نئی نکور جرسی بنا لیتی تھیں۔عسکری کے 70  سالہ تجربات کا بھی یہی حاصل ہے۔خدا نے ان کے ہاتھ میں برکت اور ہنر رکھا ہے کہ کب اور کیسے مسلم لیگ سے ن اور گجرات نکالنا ہے۔

اس سال تازہ تجربے میں جماعت انصاف کے حصّے بکھرے کیے تو جماعت کے وارث،بلکہ سوگواران اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہو گئے۔کل تک جو کہا کرتے تھے کہ فوج اور سیاسی جماعت ایک پیج پہ ہیں آج انہیں پتہ چلا ہے کہ وہ ایک پیج فوج کا ہی تھا،جماعت تو بس اس پیج پہ مہمان تھی۔فوج کے اس آخری تجربے کے بعدبہرحال آرمی پنجاب میں مزاحمت نہیں، تو نفرت کا سامنا ضرور کر رہی ہے۔کل تک پنجاب کے لوگ آرمی کے ہر کیے دھرے کا جواز گھڑ لیتے تھے،مارشل لاءز سے لے کے افغان جنگ،پختونوں کا قتل اور بلوچوں کا اغوا ءسمیت،پنجابیوں کے پاس ہر بات کا جواز موجود ہوتا تھا۔
اب آگ اپنے گھر تک آئی،بلکہ آگ بھی کہاں آئی،بس تپش آئی تو سمجھ آئی کے ظلم کہ  جواز نہیں ہوتے،ظلم ہر طور ظلم ہوتا ہے۔اس تپش نے کم از کم اتنا تو کر دیا کہ اپنے پیاروں کو روتے بلوچ اب غدار نہیں لگتے۔اپنے بچوں کا ماتم کرتے پختوں اب بیرونی ایجنٹ نہیں لگتے۔اسلام آباد میں بیٹھی بلوچ مائیں بہنیں جو اپنے پیارے ڈھونڈنے  آئی ہیں آج پنجاب ان کے ساتھ کھڑا ہے،یا کم از کم ان کے خلاف نہیں کھڑا۔

آج پنجاب کو سمجھ آئی ہے کہ یہاں لاہور جیسے شہر،سوشل میڈیا کی طاقتیں اور عمران جیسے کرزمے کے ساتھ اگر ریاست یہ کر سکتی ہے تو بلوچستان کے پہاڑوں میں اور سوات کے آپریشن کے نام پہ عسکری نے کیا کیا نہ کِیا ہوگا؟کل کے وزیر مشیر اور جاگیردار آج اپنے گھر تو کیا اپنے شہر نہیں لوٹ پارہے،اربوں کے کاروباروں پہ عسکری تالے پڑے ہیں،بھرے شہروں میں سی سی ٹی وی  کیمروں کے ہوتے لوگوں کی ماؤں اور بہنوں کی تذلیل کی گئی ہے۔چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کیا ہے،تو پھر ایک لمحے کو سوچ آتی ہے کہ خضدار میں عسکری نے کیا گُل کھلائے ہوں گے؟کتنے کاروبار اُجاڑے ہونگے،کتنے گھر برباد کیے ہوں گے،کتنی عصمتیں۔۔۔میرے منہ میں خاک۔

اس سب کے باوجود کل تک جب بلوچ سڑکوں پہ نکلتا تھا تو بھارتی ایجنٹ گردانہ جاتا تھا،پختون کو افغانی ایجنٹ کہا جاتا تھا۔مگر دیکھو حوصلے ان کے،کیا کیا جر کے بھی کتنے حوصلے اور کیسی جرات سے ریاست سے جینے کا حق مانگ رہے ہیں۔پنجاب میں چار دن سیاسی راہنماؤں کو اندر رکھا جاتا ہے تو پانچویں دن پریس کانفرنس ہوجاتی ہے،بلکہ بعض تو میرے جیسے ہیں،ویڈیو ریکارڈ کر کے رکھی ہے،خدا جانے کب ریلیز کرنی پڑجائے۔

ایسے ماحول میں کمال جرات ہے ماہ رنگ بلوچ کی،نہ وسائل،نہ سپورٹ،نہ میڈیائی سپورٹ ،پھر بھی جاڑے کی راتوں میں اپنے پیاروں کی تصویریں لیے انصاف کے لیے بیٹھی ہیں۔ہر رات ریاست اپنی اوقات دِکھاتی ہے،نہتوں کو ٹارچر کرتی ہے،اغوا کرتی ہے ،دھمکاتی ہے،مگر پہاڑ حوصلے ان مرد کے بچیوں کے،ٹس سے مس نہیں ہوتیں۔

ہماری بدقسمتی مگر،ہماری عسکری سے نفرت یا مزاحمت بھی تقسیم ہے۔کُچھ ہارڈ لائنر پنجابیوں کے نزدیک ماہ رنگ عسکری سے زیادہ پنجاب مخالف “ایجنڈے” پہ کام کر رہی ہے۔دو ہفتوں سے اس مارچ کو فالو کرتے مجھے ایسی  کوئی چیز نہیں ملی جس سے مجھے کوئی چیز عسکری جبر کی مخالفت کے علاوہ نظر آئے۔کیسا ہی شاندار ہوتا کہ یک زبان ہوکے ایک بار عسکری جبر کو للکارہ جاتا،کتنا ہی اچھا ہوتا کہ ماہ رنگ کو نام رکھنے کی بجائے اسے اپنے گھر میں جگہ دیتے،اس کا درد سنتے،اپنے گِلے سناتے۔بلوچ مائیں ماتم کرتی ہمارے گھر آئی ہیں،ہمارے ان سے سوال بنتے ہی نہیں۔کیا لگتا ہے اگر کوئی پائے کا لیڈر بلوچ دھرنے میں جاکے کہہ دیتا کہ پنجاب بلوچوں کے ساتھ کھڑا ہے تو گِلے نا  دُھلتے؟عام بلوچ کے نزدیک عام پنجابی کا امیج بدل نا جاتا؟سمجھ آ نا جاتی کہ بلوچوں،پختونوں اور پنجابیوں کے بچے کھانے والی ڈائن ایک ہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایسا نہیں ہوا،یہ بچے کھانی بلا ایسا ہونے نہیں دے گی۔بچوں  کو کھا کے پلنے والی یہ ڈائن پہلے بچوں کو وکھ (الگ)کرتی ہے،پھر ایک ایک کر کے کھاتی ہے۔مگر کوئی ہے جو میری طرف سے جا کے ماہ رنگ کو کہہ  دے “توں جنڑے دی بچی ایں،توں بھِڑ گئی ایں،تیری جراتاں دے صدقے جاواں”۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply