کہتے ہیں کہ جب روم جل رہا تھا تو “نیرو” سُکھ اور چین کی بانسری بجا رہا تھا۔ ادِھر نیا سال شروع ہونے کو ہے اور اُدھر فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے پاکستان میں سالِ نو کی تقریبات منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ ہم دو ریاستی حل سے پیچھے نہیں ہٹے، لیکن “نیرو” کو بانسری بجانے کیلئے نئی لے اور تازہ دھن ہاتھ آگئی ہے۔ ”نیرو” کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُس نے خود ہی اپنی سلطنت “روم” کو آگ لگائی تھی۔ یاد رہے کہ صاحبانِ اقتدار جب خود ہی اپنے ملک کو آگ لگا کر مزے لوٹیں اور لطف اٹھائیں تو ایسے موقعوں پر یہ محاورہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی لئے تو پہلے نئے سال کے آغاز پر بزرگ بچوں کو یہ شعر سنایا کرتے تھے کہ “غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی، گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی۔” اب وطنِ عزیز میں اس شعر کی جگہ “نیرو” کی بانسری نے لے لی ہے۔ ”نیرو” کو روم کی مانند پاکستان میں بھی فقط بانسری کی دھن اور کیف و مستی سے غرض ہے۔
اگر اسرائیل کو جنیوا کنونشن 1948ء کی اور بھارت کو 21 اپریل 1948ء کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی کوئی پرواہ نہیں تو نہ سہی “نیرو” کو بھی تو کوئی پرواہ نہیں۔ رہ گیا غزوہ ہند اور جہاد کا جوش و خروش اور جنگی ترانے تو “نیرو” ان سب سے بھی لطف اٹھاتا ہے۔ اسے کشمیر اور فلسطین کا دو ریاستی حل ایک مرتبہ نہیں بلکہ تین مرتبہ قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے۔ تقسیمِ کشمیر کے جتنے بھی فارمولے ہیں، وہ ہمارے “نیرو” کے ہی پیش کردہ ہیں۔ یہ تو بھارت کی اکھڑ مزاجی ہے کہ جو یہ نہیں ہونے دے رہا اور جو کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہہ کر تقسیمِ کشمیر کے خلاف ڈٹا ہوا ہے۔ ورنہ ہمارے “نیرو” میاں تو من ہی من میں کب سے یہ سودا کئے بیٹھے ہیں۔
بانسری کے دور میں علامہ اقبال ؓ اور قائداعظم کے نظریات کی اب بات ہی کیا کرنی!۔ “نیرو” میاں نے کون سا علامہ اقبال ؓ اور قائداعظمؒ کے نظریات کے مطابق چلنا ہے۔؟ جنوبی افریقہ نے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالتِ انصاف کی طرف اور ہمارے “نیرو” نے سیدھا اسرائیل کی طرف رُخ کر رکھا ہے۔ ملک میں بے روزگاری، مہنگائی، رشوت اور دھونس کی ایسی آگ ہے کہ الاماں۔ اقبال نے کہا تھا:
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
انتخابات 2024ء کی باتیں تو آپ نے بھی سُنی ہی ہوں گی۔ خوشہ گندم کو جلانے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ یہاں تو دہقان کے پاس حقِ احتجاج ہی نہیں۔ ایک زرعی ملک کے شہریوں کو برستی بارشوں، بہتی ندیوں اور لہلہاتے کھیتوں کے باوجود خود کُشیاں کرنی پڑ رہی ہیں۔ خود کُشیاں کیوں نہ کریں!؟
گھڑیال کب سے پکار رہا ہے کہ وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے۔ تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں۔ آسمانوں پر مشورے ہونے کے بعد اب آسمانوں سے شعلے برس رہے ہیں۔ عدل و انصاف سے عاری معاشرے میں والدین اپنے بچوں کیلئے ایسی نوکریوں کی خاطر دعا گو ہیں کہ جن میں رشوت اور حرام کی کمائی زیادہ سے زیادہ ہو۔ کہنے کو تو تجارت سے بابرکت پیشہ کوئی نہیں۔ جی ہاں!تجارت جو انبیائے کرام کا پیشہ ہے، اس کا یہ حال ہے کہ ایک گوالا بھی دودھ میں ملاوٹ کی نیّت کرکے ہی اپنی دکان کھولتا ہے۔ بڑی بڑی کوٹھیوں، بلڈنگوں اور محلّات کے زَرْق و بَرْق میں رزقِ حلال کی کوئی ایک پائی ڈھونڈنا گویا بُھوسے میں سوئی تَلاش کَرنا ہے۔
سال 2024ء کا آغاز ہوا چاہتا ہے، لیکن “نیرو” کو کوئی ندامت، کوئی احساسِ شرمندگی، کوئی احساسِ زیاں اور کسی قسم کا کوئی احساسِ ذمہ داری نہیں!۔ غزہ میں شہداء کی مجموعی تعداد 21507 اور زخمیوں کی مجموعی تعداد 56 ہزار ہوگئی ہے۔ اُمّت اُمّت کی رٹ لگانے والوں کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ اسرائیلی طیاروں سے کیمیائی بمباری کے باعث قحط زدہ غزہ میں بیماریاں پھوٹ پڑی ہیں۔ نہ دوائی ہے اور نہ غذا۔ خادم حرمین شریفین نے ابھی تک کوئی جہاد کا فتویٰ دیا اور نہ دلوایا۔مقبوضہ کشمیر کی بھی صورتحال اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ ایسے میں “نیرو” کی بانسری پر ہی گزارہ کیجئے۔
ہمارے “نیرو” (حکمرانوں) کے وژن اور پالیسیوں کے حوالے سے ہمیں اجتماعی طور پر فیض مرحوم کی قبر پر جاکر یہ اعتراف کرنا چاہیئے کہ “یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر، وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں۔” بنگلہ دیش کے بعد پارہ چنار کے لوگوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے، وہ سوائے “نیرو” کے بطورِ پاکستانی کسی کیلئے بھی قابلِ قبول نہیں، لیکن آگ نہیں ہوگی تو بانسری کا لطف کیسے آئے گا۔ “نیرو” کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ پارہ چنار میں خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد “نیرو” کے لواحقین میں سے جس کا جہاں پر کوئی داو چل گیا ہے اور جس کے گھر میں دانے (اناج) ہیں، اُس نے نہ ہی کبھی پبلک ٹرانسپورٹ سے سفر کرنا ہے، نہ ہی سرکاری ہسپتالوں سے کبھی اپنا علاج کرانا ہے اور اُس نے نہ ہی اپنے بچے کبھی سرکاری سکولوں میں پڑھانے ہیں۔
اُسے فرصت ہی کہاں ہے کہ وہ یکساں نصابِ تعلیم، صحت کی معیاری سہولتوں، پبلک ٹرانسپورٹ کے محفوظ ہونے اور رشوت سے پاک عدالتی سسٹم کی کہانیاں سُنے۔ اُسے تو اپنی موج مستی سے ہی فراغت نہیں۔ مُلک جلتا ہے تو کیا، عوام مضطرب ہیں تو کیا، سائبر کرائم پر کوئی قابو نہیں تو کیا اور سرکاری ادارے بنیادی اخلاقیات، انسانی شرافت، عوام دوستی اور فیڈ بیک کی دولت سے محروم ہیں تو کیا!۔ جو بھی ہو جائےو یہ اعزاز کم تو نہیں کہ دنیا کی سب سے مضبوط اور طاقتور ایجنسیاں تو ہمارے “نیرو” کی ہی ہیں۔ ہم آخر اپنے ملک کے “نیرو” کی خوشیوں میں خوش کیوں نہیں ہوتے!؟ جب “نیرو” نے بطورِ ہیرو یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ عوام کیلئے ہر نیا سال بھی پرانے سالوں جیسا ہی ہوگا تو پھر نئے سال کے آغاز پر گھڑیال کی منادی کی باتیں کرنے کے بجائے گھڑیال کو اٹھائیے اور باہر پھینک دیجئے۔
یہ حقوق وہ حقوق، یہ انصاف وہ انصاف، یہ شکایت وہ شکایت، یہ احتجاج وہ احتجاج، یہ لاپتہ وہ لاپتہ، یہ قائد کے نظریات، وہ اقبال کے نظریات۔۔۔۔۔۔۔۔ اب کے برس کوئی مسنگ پرسن کی بات نہیں ہونی چاہیئے، کوئی انسانی، جمہوری یا عوامی حقوق کا نعرہ نہیں لگنا چاہیئے۔ اب یہ سب چھوڑئیے۔۔۔۔۔۔ اپنے اپنے قلم اٹھائیے اور انہیں بانسری بنا لیجئے۔۔۔۔۔ اور بانسری بجائیے کہ ہمیں فلسطین کا دو ریاستی حل قبول ہے اور فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے، پاکستان میں سالِ نو کی تقریبات منسوخ کر دی گئی ہیں۔۔۔۔ جب غیرت ختم ہو جائے تو تلواریں جہاد و دفاع کے بجائے رقص کیلئے اور قلم نظریہ پردازی و امر بالمعروف اور نہی از منکر کے بجائے طاقتوروں کی قصیدہ خوانی کیلئے بطورِ بانسری استعمال ہونے لگتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں