جغرافیہ کے قیدی (3) ۔ روس ۔ مسکووی/وہاراامباکر

صدر پیوٹن سوویت یونین کے آخری صدر میخائل گورباچوف کو پسند نہیں کرتے۔ سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کو بیسویں صدی کا بڑا سیاسی سانحہ قرار دیتے ہیں اور سابق صدر کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

روس میں اس بات پر بے چینی پائی جاتی ہے کہ ناٹو رینگ کر اس کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اور ایسے ملکوں کو لپیٹ میں لے رہا ہے جہاں پر وعدہ کیا گیا تھا کہ یہ نہیں آئے گا۔ 1999 میں چیک ری پبلک، ہنگری اور پولینڈ۔ 2004 میں بلغاریہ، اسٹونیا، لیٹویا، لتھوینیا، رومانیہ، سلواکیہ۔ 2009 میں البانیہ۔ ناٹو کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی وعدہ نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی بھی عظیم پاور کی طرح، روس اگلے سو سال کا سوچتا ہے۔ اور اس بات کو سمجھتا ہے کہ اس عرصے میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ آخر، ایک صدی پہلے، کس کا یہ خیال ہو گا کہ امریکی فوج ماسکو سے چند سو میل دور پولینڈ اور بالٹک میں ہو گی۔ وارسا معاہدہ ٹوٹ جانے کے پندرہ سال کے اندر روس کے سوا اس معاہدے میں شریک ہر ریاست یا تو ناٹو کا حصہ بن گئی یا یورپی یونین کا۔
ماسکو انتظامیہ کے ذہن میں مغربی لیڈروں سے زیادہ تازہ ہے اور ان کے لئے پریشان کن ہے کیونکہ وہ اپنی تاریخ سے واقف ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روس کی تاریخ نویں صدی سے شروع ہوتی ہے جب مشرقی سلاو قبائل نے آپس میں ایک ڈھیلا ڈھالا سا اتحاد کیا تھا جسکو کیوین روس کا نام ملا تھا۔ یہ ان علاقوں میں تھا جو موجودہ یوکرین میں کیو کے پاس کے علاقے ہیں۔ تیرہویں صدی میں منگول سلطنت پھیل کر یہاں تک پہنچ گئی اور یہ علاقہ اس سلطنت میں آ گیا۔ اور روس کی یہ ریاست اس علاقے کی طرف چلی گیا جو موجودہ ماسکو ہے۔ یہ ابتدائی ریاست مسکووی کی ریاست تھی۔ اور اس کا دفاع کرنا ناممکن تھا۔ کوئی پہاڑ یا صحرا نہیں۔ چند دریا اور ہر طرف چٹیل میدان۔ مشرق اور شمال کے گھاس کے سمندر کے پار منگول۔ حملہ آور اپنی مرضی کی جگہ سے آ سکتے تھے اور کوئی قدرتی دفاعی پوزیشن نہیں تھی۔
اور اس وقت روس کی تاریخ کی نامور شخصیت آئیون خوفناک کی آمد ہوئی جو پہلے زارِ روس تھے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply