ڈٹ کے کھڑا ہے عمران۔۔سید مہدی بخاری

بدقسمتی ہماری اس سے بڑھ کر کیا ہو گی کہ عمران خان بطور تیسری قوت ابھرا اور اس پر اعتماد کیا۔ اسے اقتدار دیا مگر وہ اس سارے عرصے میں صرف کنٹینر پر ہی کھڑے رہے ۔ عوامی مسائل حل کرنے کی جانب دھیان نہیں دیا۔ مذہب کو اپنی ناکامی یا صفر کارکردگی کی ڈھال بنایا۔ منہ میں ریاست مدینہ اور ہاتھ میں تسبیح۔ اپنی پالیسی یا کارکردگی کا ذکر کرنے کی بجائے منبر سے درس سنائے۔

انہوں نے بھی بھرپور طریقے سے وہی روایتی مذہب کارڈ کھیلا اور تاحال کھیل رہے ہیں۔ ضد اور ہٹ دھرمی نے ملک کا ہی نقصان کیا۔ تبدیلی نہ نظام میں رتی برابر آئی نہ لوگوں کی معاشی و سماجی حالت میں۔ اب وہ رخصت کر دئیے جائیں گے۔ ان کی رخصتی بھی کوئی نیک شگون نہیں ہے۔ اس میں کوئی خوشی کی بات نہیں ہے۔ اس طرح حکومتیں بنانا اور گرانا سراسر مچھلی منڈی ہے۔ یہ ایک بنانا ریپبلک ہے جہاں لاٹھی والا جو چاہے سو کرے۔

بس اب یہ سوچتا ہوں کہ خان صاحب شاید اپوزیشن کے لئے بنے ہیں۔ یہ حریف کو سخت ٹائم دے سکتے ہیں۔ ضروری نہیں ہوتا کہ بہترین کھلاڑی بہترین کوچ بھی بن سکے۔ شاید اب عمران خان کے حریف روائیتی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ لاٹھی والے بھی ہوں۔ ہانکا لگانے والے بھی ہوں۔ مبہم سی اُمید تو بس یہ نظر آتی ہے کہ رخصت ہو کر خان صاحب اب شاید مگرمچھوں کے گلے پڑیں۔ وہی مگرمچھ جن کے جبڑوں میں یہ سارا نظام یرغمال ہے۔ شاید مزاحمتی تحریک شروع کر پائیں۔

یہ بھی “شاید” والی امید ہے۔ یہی خان صاحب خود فرما چکے کہ یو ٹرن تو اچھے ہوتے ہیں۔ اگر مستقبل میں کوئی یوٹرن نہ لیں اور لاٹھی والوں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہ کریں تو شاید مجھے لگتا ہے کہ اب نہیں تو دو سال بعد، تین سال بعد خان صاحب واپس اقتدار میں آ پائیں۔

بھائیو۔ طاقت کے اصل مرکز کے خلاف اگر مورچہ زن ہو تو یہ بتا دوں کہ یہ وہ راستہ ہوتا ہے جہاں اگلوں کے پاس دو ہی راہیں بچتی ہیں۔ یا خود کو سرنڈر کر کے سول بالادستی قبول کریں یا پھر چوں چاں کرنے والے کو بینظیر کے پاس بھجوا دیا جائے۔ اب کونسی راہ نکلے گی یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ یہ منحصر ہے خان صاحب کی اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد کی پالیسی پرجانا ان کا ٹھہر چکا ہے۔

انصافی بھائیوں سے معذرت مگر میں معاملات کو جذباتی عینک سے نہیں دیکھتا۔ مجھے ان کے بچنے کی راہیں انتہائی مسدود لگتی ہیں ۔ باقی آپ کو پورا حق ہے کہ آپ جیسے چاہیں خوش رہیں۔ خوش فہمی میں رہنا بھی دل بہلائے رکھنا ہے اور کبھی کبھی ذہنی کوفت سے نجات کا راستہ بھی۔اور میرے اپوزیشن کے نمائندہ دوست، فینز و احباب اگر ان کو یہ لگتا ہے کہ خان صاحب اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑے نہیں ہو سکتے تو مجھے آپ سے اختلاف ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خان صاحب جیسا ضدی انسان کچھ بھی کر سکتا ہے۔ کچھ بھی۔ وہ اگر “ان” کی گیم کے خلاف کھڑا ہو گیا تو پھر اسے کوئی مائی کا لعل نہیں ہٹا پائے گا۔ ہاں بشرطِ اسے بینظیر سے نہ ملوا دیا جائے۔ اور اگر خان صاحب اقتدار میں واپس آنے کو پھر کسی ڈیل میں یا سودے بازی میں پڑ گئے تو پھر میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ بس ابھی اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ خان صاحب اقتدار میں واپس آئیں گے۔ ہانکا لگانے والوں کو با امر مجبوری لانا پڑے یا وہ ہانکا لگانے والوں کو زیر کر کے پرزور عوامی حمایت کے ساتھ بزور بازو آئیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply