اکبر، پرنٹنگ پریس اور حقیقت

اکبر، پرنٹنگ پریس اور حقیقت
سالار کوکب
ہمارے ہاں مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کے حوالے سے ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس کے سامنے پرنٹنگ پریس کی تجویز رکھی گئی لیکن اس نے اسے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ اس سے ہمارے خوشنویس بے روزگار ہو جائیں گے۔ – اس سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ اگر اکبر پرنٹنگ پریس کو قبولیت بخش دیتا تو ہندوستان میں جدید علوم وسیع پیمانے پر پھیل جاتے –۔اس سلسلے میں عرض ہے کہ کچھ کتابوں میں بیان کیے گئے اس واقعے اور اس سے اخذ کردہ نتائج میں مندرجہ ذیل پس منظر بھی شامل کر لیا جائے اور اگر ممکن ہو تو اخذ کردہ نتائج پر نظر ثانی کر لی جائے –۔
یورپ میں پرنٹنگ پریس کے پھیلاؤ کی ابتدائی وجہ پریس پر بائبل کا چھپنا تھا – ہندوستان میں پہلی بار پرنٹنگ پریس جنوبی ہند میں عیسائی مشنری عیسائیت کے فروغ کے لیے لائے تھے – اکبر کو بھی پرنٹنگ پریس پر چھپی ہوئی بائبل پیش کی گئی تھی۔ – ہندوستانی پس منظر میں جہاں عیسائیت تاریخی طور بطور مذہب اپنا وجود نہیں رکھتی تھی اکبر کا بائبل کے ذریعے پرنٹنگ پریس کے لیے motivate نہ ہونا قدرتی محسوس ہوتا ہے –۔ہندوستان میں پرنٹنگ پریس کی آمد کے بعد ایک عرصے تک تمام پریس کیتھولک چرچ سے تعلق رکھنے والی سوسائٹی آف جیسس کے ارکان ہی چلاتے تھے –۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس وقت ہندوستان کی ثقافت میں خوش نویسی ایک اہم مقام رکھتی تھی۔ – ٹائپ کی چھپائی ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریر کا ایک گھٹیا متبادل تھی۔ – ہندوستان کے طو ل عرض میں خوش نویسوں کا جال پھیلا ہوا تھا جو کہ سرکاری اور دوسری ضروریات کو بخوبی پورا کر رہے تھے۔ – اتنے موثر نظام کی موجودگی میں پرنٹنگ پریس کو بطور متبادل متعارف کرانے کی کوئی اہم وجہ نہیں بنتی تھی – ہندوستانی بلاک پرنٹنگ کا فن عرصے سے جانتے تھے لیکن اس کو کتابوں کی چھپائی کے لیے کبھی استعمال نہیں کیا گیا – ہندوستان میں پرنٹنگ کے خلاف مزاحمت لیتھو گرافی کے آنے سے ختم ہوئی جب ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریر کا عکس چھاپنا ممکن ہوا – سن 1820 میں جب لیتھو پریس متعارف ہوا تو ہندوستان میں اس کا وسیع پیمانے پر استعمال شروع ہو گیا، – تحریر کے حوالے سے ثقافت کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1830تک پریس کی موجودگی میں بھی جنوبی ہند میں کچھ عیسائی مشنری بائبل کو پام کے پتوں پر لکھواتے رہے – ۔ایسٹ انڈیا کمپنی اپنا پہلا پرنٹنگ پریس اپنی کاروباری یا تعلیمی ضروریات کے لیے نہیں لائی تھی بلکہ پہلا پریس فرانسیسی فوج کے ساتھ برطانوی سپاہیوں کی جنگ کے دوران مدراس میں قبضہ میں لیا گیا تھا – ۔یہ ایک فرانسیسی پرنٹر کا پریس تھا جس کی نگرانی سوسایٹی فار پروموشن آف کرسچن نالج نامی تنظیم کی امداد سے کام کرنے والے دو مشنریوں کے سپرد تھی – سن 1755 تک ایسٹ کمپنی خود اپنے سرکلر اور نوٹس چھپوانے کی بجائے ہاتھ سے نقل کروا کر تقسیم کرتی رہی – ۔کلکتہ میں کمپنی نے وسیع پیمانے پر اشاعت کا کام 1770 کی دھائی کے آخری سالوں میں شروع کیا – ابتدائی سالوں میں ہندوستانی زبانوں کے لیے ٹائپ کے حروف بنانا ایک بڑا مسئلہ رہا -سن 1674 میں جب بھیم جی پاریکھ نے جب بمبئی میں ایک پرنٹنگ پریس قائم کیا تو متعلقہ کمپنی اسے ٹائپ کے حروف گھڑنے والا ماہر ہی فراہم نہیں کر سکی –۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply