لاوارث

لاوارث۔۔۔
بھاگتے بھاگتے وہ ایک پُرانی سی جیپ کے نیچے جا چُھپا۔اور اوندھے مُنہ لیٹ کر ادھر اُدھردیکھنے لگا۔ گھبراہٹ اور ٹھنڈ کی وجہ سے اُس پر کپکپی سی طاری تھی ۔ ابھی تک اُس کی سانسیں بحال نہیں ہو پائیں تھیں۔موسم اور حالات کے اثرات اُسکے چہرے پر نُمایاں تھے۔ ہونٹ خُشک اور جلد کھُردری سی ہوگئی تھی۔
وہ ایک پندرہ سولہ سال کا کم سن لڑکا تھا۔ جسے اُس کی معاشی مجبُوری یا شاید قسمت کی ٹھوکروں نے اس عُمر میں اپنے گاوں سے دور ایک بڑے شہر میں رہنے پر مجبُور کر دیا تھا۔کیونکہ اُس کے گاوں میں اُس کا ابا سارا دن ملک صاحب کے کھیت میں ہل چلا کر بھی ملک صاحب کے احسانات کا بدلا نہیں چُکا پاتا تھا۔ جو کہ اکثر قرضے کی شکل میں ہوتے۔ اور قرضے تھے کہ پاکستان کے قرضے کی طرح ختم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی جارہے تھے۔کیونکہ ملک صاحب اچھے خاصے سُود خور تھے۔ اور اپنی اسی خُوبی کی وجہ سے وہ تقریبا ًآدھے گاوں کے مالک بن بیٹھے تھے۔خیر۔ جب وہ یہاں اس بڑے شہر میں کام ڈھونڈھنے آیا تو سب سے پہلا مسئلہ تو رہائش کا تھا،کہ جس دوست کے آسرے پر وہ آیا تھا وہ خُود بے آسرا ہوگیا تھا۔ اور جس زیرتعمیر عمارت میں وہ دوست رہائش پذیر تھا اُس کی تعمیر مُکمل ہوگئی تھی۔
یہ کبھی کسی فُٹ پاتھ تو کبھی کسی ریڑی یا کسی پارک شُدہ ٹرک کے پچھلے حصے پر راتیں گُزارنے لگا، اور دن میں مارکیٹ وغیرہ میں سامان ریڑیوں پر لاد کر اور اُنہیں دھکے لگا کر گُزر بسر کرتا۔ اُس گُزر بسر میں اُس کی دو وقت کی روٹی کے علاوہ ایک دو چائے آجاتیں اور سو دوسو بچ بھی جاتے۔مگردو دن کی سرکاری چُھٹیاں اور پھراتوارکی ۔ لانگ ویک اینڈ۔ جو اشرافیہ کے لئے دُبئی وغیرہ گھوم آنے کا بہانہ لاتی ہے وہیں اس جیسے بے آسرا و لاوارث بد قسمتوں کی جیب خالی ہونے کی وجہ بھی بنتی ہے جس سے اکثر اُن کو کھانے کے لالے پڑ جاتے ہیں۔اُس پر سختیاں پہلے بھی آئیں تھیں مگر ایسی نہیں کہ دو وقت سے زیادہ کھانا نہ کھایا ہو۔دوسرے دن جب اُسے بھوک ستانے لگی تو وہ ایک چائے پراٹے والے ہوٹل کے ایک خالی بنچ پر بیٹھ کر لوگوں کو پراٹا کھاتے اور چائے کی چُسکیاں لیتے ایسے دیکھنے لگا جیسے کوئی عاشق اپنی محبُوبہ کو کسی اور کی ڈولی میں رُخصت ہوتے دیکھتا ہو۔مانا کہ عشق پر زور و کنٹرول نہیں ہوتا مگر وہ انسان کی ضرُورت نہیں ہوتا جبکہ پیٹ کا جہنم بھرنے کے لئے ایندھن فراہم کرنا انسان کی ضرُورت ہوتی ہے۔بلکہ مجبُوری۔
ہوٹل مالک نے اسے بہت دیر تک بغیر کُچھ آرڈر کئے بیٹھا پایا تو اس سے آرڈر لینا چاہا جس کا نفی میں جواب پا کر اسے بینچ خالی کرنے کا کہا۔ تب وہ سوچ رہا تھا کہ کاش یہ بینچ کسی کورٹ کا بینج ہوتا اور وہ اُس پر بیٹھا مُنصف ہوتا۔ پھر وہ دیکھتا کہ کیسے کوئی اُسے خالی کرنے کا کہتا۔اُس کا خیال تھا کہ ہوٹل میں بیٹھنے پر شاید ہوٹل مالک اُس کا حُلیہ دیکھ کراُسے مفت میں کوئی چائے وغیرہ پلا دے ۔ مگر ایسا ہو نہ سکا۔اب اُسے پیٹ کی فکر ستانے لگی کہ مارکیٹ تو کل کُھلے گی۔ تب تک وہ کیا کرے گا ۔ادھر اُدھر خاموش گُھومتے شام ہوگئی اور اس کی حالت خراب ہوتی گئی۔کہ اسے اچانک اس کا وہ دوست تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا اس کی طرف آتا دکھائی دیا۔جس کے آسرے پر وہ اس شہر آیا تھا۔
کیا ہوا یار۔کیوں ایسے چلے آ رہے ہو۔اس نے بات مُکمل بھی نہیں کی تھی کہ وہ اس کے قریب آکر ایک بیگ جو اُس کے ہاتھ میں تھا کو کھولتے ہوئے اُس میں سے کُچھ اسےتھماتے ہوئے بولا۔ یہ پکڑو۔ اور پیچھے مت دیکھنا۔بس میرے پیچھے آتے رہو۔ارے ارے یہ کیا۔کیا ہے اس میں۔وہ گھبرا کر اُس کے پیچھے چلتے ہوئے بولا۔بس خاموشی سے میرے پیچھے چلتے رہو ۔اور وہ اُس کے پیچھے چلنے لگا کہ،عقب سے کُچھ شور سا محسوس کر کے اُس نے گھبرا کر پیچھے دیکھا تو کُچھ لوگ بھاگتے ہوئے ان کی طرف آرہے تھے۔یہ منظر دیکھنا تھا کہ اس کا دوست چلایا۔بھاگ۔بھاگ۔اور کہیں بھی روکنا مت۔وہیں ملیں گے جہاں روز ملتے ہیں۔ اور خُود بیگ لئے ایک طرف کو بھاگا۔
تب سے ہاتھ میں تھامے وہ کاغذ میں لپٹی چیز کو لئے بھاگے جارہا تھا۔کہ موقعہ پاکر اس جیپ کے نیچے چُھپنے میں کامیاب ہوا۔پیچھا کرنے والے شاید دو گروپوں میں تقسیم ہوکر، کُچھ اس کے دوست کا اور بقایا اس کا پیچھا کر رہے تھے۔تھوڑی دیر وہیں رہنے کے بعد خاموشی سی چھاگئی اور پیچھا کرنے والے شاید ادھر اُدھر ہوگئے تھے۔وہ آہستہ سے جیپ کے نیچے سے نکلا اور اپنے کپڑے جھاڑے بغیر ایک طرف کو روانہ ہوا، کہ اُنہیں جھاڑ کرویسے بھی کوئی خاص فرق نہ پڑتا۔۔
کُچھ دیر چلنے کے بعد جب وہ خالی ٹرک کے پچھلے حصے میں پہنچا جہاں وہ رات بیتاتا تھا۔ اور یہ خیال کرتے ہوئے لیٹنے لگا کہ شاید پروردگار کی یہی مرضی ہو کہ آج بھی خالی پیٹ ہی سویا جائے۔کہ ۔تجسس سے مجبور ہو کر اس نے وہ کاغذ میں لپٹی چیز ٹٹولی۔ اوراُس کاغذ کو آہستہ سے کھولنا شُروع کیا۔ وہ نرم و مُلائم چیز اور کُچھ نہیں بلکہ روٹی میں لپٹی مچھلی تھی۔یہ دیکھ کر پہلے تو اُس کی آنکھیں نم ہوئیں۔ اور اُسے بُوسہ دیا ۔جیسے کوئی اپنی محبُوب چیز کو تکالیف برداشت کرنے کے بعد پاکر دیتا ہو۔اور بیقراری سے اُسے کھانے کے بعد۔جب لیٹنے لگا تو لیٹتے ہوئے اسے خیال آیا کہ۔یہ کیسا مُلک ہے ۔یہ کیسے لوگ ہیں۔ جہاں پر جتنا بڑا چور ہو وہ اُتنی ہی آسانی سے بچ نکلتا ہے اور معمُولی چوروں کو بھگا بھگا کر مار دیتے ہیں۔شاید اس لئے کہ یہ اس دُنیا میں میری ہی طرح کا ایک لاوارث مُلک ہے۔ جس میں یا جس کے ساتھ جتنی بھی بڑی نا انصافی ہوجائے کوئی پُوچھنے والا نہیں۔۔

Facebook Comments

جانی خان
تعریف اُس خدا کی جس نے جہاں بنایا۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply