جماعت اسلامی اور کراچی کی سیاست/عامر کاکازئی

جماعت اسلامی کا ٹریک ریکارڈ ہے کہ یہ ہمیشہ تاریخ کے اُلٹ کھڑے ہوتے ہیں۔

جب پاکستان بن رہا تھا تو مولانہ مودودی صاحب اس کے بننے کے مخالف تھے۔مولانہ مودودی “مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش” کی جلد سوم صفحہ ۳۷ میں لکھتے ہیں کہ “ افسوس کہ لیگ کے قائد اعظم سے لے کر چھوٹے مقتدیوں تک ایک بھی ایسا نہیں جو کہ اسلامی ذہنیت اور فکر رکھتا ہو۔
حتی کہ پاکستان بننے کےبعد بھی یہ اس ملک کے مخالف تھے۔

مولانا مودودی نے جماعت اسلامی (لاہور )کے اجتماع میں فرمایا۔ ”ہماری قوم نے اپنے لیڈروں کے انتخاب میں غلطی کی تھی اور اب یہ غلطی نمایاں ہو کر سامنے آگئی ہے۔ ہم چھ سال سے چیخ رہے تھے کہ محض نعروں کو نہ دیکھو بلکہ سیرت اور اخلاق کو بھی دیکھو۔ اس وقت لوگوں نے پروا نہ کی لیکن اب زمام کار ان لیڈروں کو سونپنے کے بعد ہر شخص پچھتا رہا ہے کہ واہگہ سے دہلی تک کا علاقہ اسلام کے نام سے خالی ہو چکا ہے“۔ (بحوالہ روز نامہ انقلاب 9 اپریل 1948 ء)

صفحہ ۷۰ میں لکھتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو محض اس لیے مسلمانوں کو قیادت دے دینا کہ وہ مغربی سیاست کے ماہر ہیں یا اپنی قوم کے عشق میں ڈوبے ہوئے ہیں، سراسر اسلام سے جہالت اور غیر اسلامی ذہنیت ہے۔

اکہتر میں انہوں نے دہشتگرد تنظیمیں بنا کر معصوم بنگالیوں کی جان اور عزت سے کھیلا،
ستّر اور اسّی کے عشرے میں ایک ڈیکٹیٹر جنرل ضیا کے ساتھ مل کر اس قوم کو ایک نا ختم ہونے والی مذہب کے نام پر دہشتگردی کی جنگ میں دھکیلا۔

پھر مشرف کے زمانےمیں سارے نامی گرامی دہشتگرد ان کے گھروں سے پکڑے گئے۔ 

یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت کبھی بھی سیاسی پارٹی نہیں بن سکتی ان کو سیاست کی الف ب  کا بھی نہیں پتہ۔ مشکل سے کچھ سیٹیس (ایم کیو ایم کے بائکاٹ کے بعد) ، ستر کے بعد نصیب سے ملی تھیں وہ بھی ضد میں گنوا دیں ،اگلے الیکشن میں مشکل ہے کہ یہ بھی مل سکیں۔

ان کا اتحاد پیپلز پارٹی سے ممکن تھا۔ ان سے کر کے یہ کم ازکم ڈپٹی کی سیٹ لے کر کراچی کے عوام کے لیے کچھ کر جاتے مگر یہ جا کر ایک ڈوبتی پارٹی جس کے دن اب کچھ ہی رہ گے ہیں اور جن کا لیڈر پیٹھ میں چُھرا گھونپنے کا ماہر ہے۔ اس سے اتحاد کر بیٹھے۔

انگلش کا مشہور proverb ہے کہ
If you can’t beat them, join them.

بقول وقاص بھائی کہ اب انہوں نے اپنی نالائقی تسلیم کرنے کی بجائے، رونا دھونا چیخنا شروع کر دینا ہے کہ معرکہ حق و باطل میں لوگوں نے “حق” کا ساتھ نہیں دیا۔ ڈپٹی کی سیٹ اس لیے نہ لی کہ انہیں ہمیشہ اپنی طاقت سے بڑھ کر حاصل کرنے کے خواب آتے رہتے ہیں اور پھر ناکامی کے بعد رونا بھی روتے ہیں۔

اب چار سال انہوں نے ہجڑوں کی طرح تالیاں ہی بجانی ہیں اور کچھ نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک بار پھر ولی بابا کی بات درست ثابت ہوئی۔

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply