کرشن چندر کا ناول ’’ایک عورت ہزار دیوانے‘‘ :ایک فکری نظر(دوم،آخری حصّہ)- یحییٰ تاثیر

کرش چندر کے ناول سماج میں عورت کے مقام اور حیثیت کے حوالے  سے شعور عطا کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنے ناولوں میں ایسی عورت کا روپ پیش کیا جو سماج کا ستایا ، روندھا اورکچلا ہواہے۔ اس پر سماج ہر حوالے  سے ظلم کررہا ہے۔ اس کی عزت و ناموس اور گھر بار محفوظ نہیں۔ گویا یہ دنیا مردوں نے عورتوں کےلیے ایک جیل خانہ بنا رکھا ہے۔ جس میں عورت  کا  ذاتی، معاشی، سماجی، جسمانی ہر حوالے سے استحصال ہورہا ہے۔ کرشن چندر نے لاچی کا کردار پیش کرکے یہ پیغام دیا ہے کہ اگر عورت نے اپنا مقام حاصل کرنا ہے تو اسے بیدار ہوکر اپنا حق چھیننا ہوگا۔لاچی کے  متعلق کرشن چندر کہتے ہیں :
’’قدرت نے اسے عورت بنایا تھا اور ماحول اور اتفاق نے اسے خانہ بدوش بنادیا تھا۔ اور یہ تینوں چیزیں ایسی ہیں کہ کبھی انسان سے انصاف نہیں کرتیں۔ قدرت، ماحول، اتفاق ان تینوں چیزوں کے زبردست ہاتھوں سے انصاف کو چھیننا پڑتا ہے۔‘‘ (۷)

اس ناول میں کرشن چندر نے خانہ بدوشوں کی زندگی کا پورا منظر نامہ پیش کیا ہے۔ ان کے رہن سہن کا انداز، رسوم و رواج، طور طریقے، مزاج اور عادات و اطوار وغیرہ سب کا بیان انھوں نے دل کش انداز میں کیا ہے۔ اس ناول کی کہانی انھوں نے بمبئی شہر کے مضافاتی ریلوے اسٹیشنوں سے اخذ کی ہے اور ایک ایسے قبیلے کی داستان رقم کی ہے جو آج اس بیسویں صدی میں بھی ہزاروں برس پرانی ڈگر پر چل رہا ہے۔کرشن چندر کے مطابق یہ دنیا مشکلات کی جگہ ہے اور بالخصوص خانہ بدوشوں کو یہاں زیادہ مشکلات درپیش ہیں۔ کیوں وہ اور لوگوں کی طرح کسی خاص خطے کے باسی نہیں ہیں۔ان کا تعلق کسی خاص قوم، مذہب، رنگ، نسل اور ملک سے نہیں یا شاید یہ لوگ سب کے ہیں اس لیے کسی کے نہیں۔کرشن چندر کہتے ہیں :
’’ان کے رنگ میں سب کا رنگ ہے، ان کے خون میں سب کا خون ہے۔ اور ان کی زبان میں سب کی زبانیں ہیں۔ یہ لوگ جو اپنا خیمہ، اپنی چٹائی، گھاس کے چند تنکے لیے گھومتے ہیں، کسی آشیانے کی تلاش میں ہیں۔ اپنی کاوش کا انجام انھیں خود معلوم نہیں۔‘‘ (۷)

کرشن چندر کے مطابق یہ مسافر لوگ نہایت متنوع ہیں۔ بہت سی تہذیبوں اور ثقافتوں کو انھوں نے اپنے اندر ضم کرلیا ہیں۔ان ہمہ جہت اور ست رنگے لوگوں کی صحیح عکاسی اس شعر سے بہ خوبی ہوتی ہے کہ:
؎ میں اس قبیلۂ وحشی سے ہوں کہ جس کا یہاں
قیام ہوتے ہوئے بھی سفر حوالہ ہے
(عباس تابؔش )

خانہ بدوشوں کے قبائل میں مرد سے زیادہ عورت کو پسند کیا جاتا ہے کیوں کہ عورت مرد سے زیادہ کماتی ہے۔ یہ عورتیں بناؤ سنگھار کرکے سڑکوں اور بیچ چوراہوں پر بیٹھ جاتی ہیں اور اپنی مسکراہٹ اور نگاہوں سے لوگوں  کو دعوت دیتی ہے۔ عینکیں، جڑی بوٹیاں، انگوٹھیاں، جھمکے، کانچ کے ہار اور نگینے وغیرہ بیچتی ہیں اور خوب کماتی ہیں۔ اس کے علاوہ اپنے جسموں کا سودا کرکے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی جیبوں کو بھی ٹٹولتی ہیں۔ اس کے بہ نسبت مرد حضرات ان عورتوں کی کمائی پر عیاشیاں کرتے ہیں اور اپنے پیٹ کا دوزخ بھرتے ہیں۔ جب لاچی کے والدین اسے دمارو کے ہاتھوں بیچ دیتے ہیں تو لاچی انکار کرتی ہے کیوں کہ وہ دوسرے خانہ بدوش لڑکیوں سے مختلف ہے۔ وہ اپنی عزت کو سب کچھ سمجھتی ہے۔لاچی کے انکار پر اس کی ماں کہتی ہے:’’عورت، گھوڑی اور زمین ہمیشہ بکتی ہے۔ دمارو نے تمھیں خرید لیا ہے۔‘‘(۹)

لاچی قبیلے کی صدیوں پرانی ریت سے انکار کرتی ہے۔ وہ اپنے جسم کا سودا نہیں چاہتی۔ ان کی نظر میں عورت اپنی عزت و ناموس سے عورت بنتی ہے اس لیے وہ ایک گھر کی خواہش ظاہر کرتی ہے جس میں وہ باعزت رہ سکے۔وہ کسی ایسے  مرد کی منتظر ہوتی ہے جو اس کے  جسم سے آگے روح کو سمجھ سکے جو اسے عزت دے سکے۔ لاچی جب آخر میں دمارو کو مار دیتی ہے تو گویا قبیلے میں انقلاب برپا ہوجاتا ہے۔ وہ عورتیں اور لڑکیاں جو اپنی عزت بیچنے پر مجبور تھیں وہ بغاوت پر اُتر آتی ہیں۔ سماج کے ظلم و جبر اور مرد مرکز معاشرے نے ان پر جو پابندیاں لگائی ہیں وہ ان کو نیست و نابود کردینے کا عزم کرتی ہے۔ کرشن چندر نے یہاں عورت کو یہ شعور دیا ہے کہ اگر سماج میں اپنا مقام بنانا ہے اور آزادی کے ساتھ زندگی گزارنی ہے تو لاچی کی طرح ڈٹ کر حالات کا مقابلہ کرنا ہوگا اور جس طرح لاچی کے توسط سے قبیلے میں انقلاب برپا ہوا اسی طرح کے جذبے کو مشعل راہ بنانا ہوگا تب کہیں جاکر   اس پدر شاہی نظام میں عورت خود کو منوا سکتی ہے۔ لاچی نے جو انقلاب برپا کیا تھا اس کا ذکر کرشن چندر یوں کرتے ہیں :
’’نوجوان عورتوں نے ایک ایک کرکے برے دھندے سے انکار کردیا۔ان کے شوہر خفا تھے قبیلے کا سردار خفا تھا۔ قبیلے کی بوڑھی عورتیں خفا تھیں لیکن لاچی کی دیرینہ مدافعت نے صدیوں کی زنجیریں توڑ ڈالی تھیں اور وہ طوفان جو ہر عورت کے سینے میں لہریں لیتا تھا سینہ توڑ کر باہر آگیا تھا۔ اور غم و غصہ سے بپھری ہوئی نوجوان خانہ بدوش عورتوں کے چہروں پر کھیل رہا تھا۔ اب وہ مرغی چرائیں یا کوئلہ چرائیں، ٹوکریاں بنیں یا چاندی کے چھلے بیچیں یا محنت مزدوری کا کوئی اور کام کریں لیکن وہ اپنی عزت بیچنے پر تیار نہ تھیں۔ اور اب وہ طعنے دے دے کر اپنے خاوندوں کو شرم دلانے لگیں کہ محنت کرنا سیکھیں۔ تین لڑکیاں تو قبیلے سے بھاگ گئی تھیں اور انھوں نے شہر کے غریب مگر محنتی نوجوانوں سے شادیاں کرلی تھیں۔‘‘(۱۰)

قبیلے کی بوڑھی عورتوں کالاچی کے لائے ہوئے انقلاب  پر خفا ہونا اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ سینہ در سینہ اس جسم فروشی کی روایت نے ان عورتوں کو یہ باور کرایا تھا کہ جس طرح ہم گھریلو کام کاج کرتے ہیں بالکل اسی طرح یہ بھی ہماری ذمہ داریوں کا ایک حصہ ہے۔ کرشن چندر نے اس قسم کی ذہنیت کو ختم کرنے کےلیے لاچی کے ذریعے ایک مغلوب اور پسے ہوئے طبقے کو حرکت اور عمل کا درس دیا ہے۔ ان کے ناولوں میں مظلوم عورت کا عکس ملتا ہے لیکن یہ عورت کم زور نہیں۔ ان کے تصورِ عورت میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ پدر شاہی نظام نے عورت کو جکڑ رکھا ہے اس کو حقوق سے محروم رکھا ہے اور یہ ظلم عورت بذات خود مٹا سکتی ہے۔ ناول “ایک عورت ہزار دیوانے” میں بھی ایک توانا اور نڈر عورت کا تصور ملتا ہے جو اپنے مقام کا خود تعین کرسکتی ہے اور دوسروں میں انقلاب کا جذبہ بھی بیدار کرسکتی ہے۔

ایک سلجھی ہوئی اور گھریلو عورت کی نفسیات اس ناول میں خوب صورت انداز میں بیان ہوئی ہے۔ لاچی ایک ایسا کردار ہے جو یہ خواہش رکھتی ہے کہ میرا اپنا ایک گھر ہو اور میرا مرد کام کاج کرکے میرے لیے پسینہ بہائے۔ وہ میرے لیے تھک جائے اور میرے لیے کما کے لائے۔ گھر آکر میں اس کی خوب خدمت کروں، اس سے محبت کروں۔ گھر، شوہر، خدمت، محبت ایک سلجھی ہوئی عورت کی نفسیات کا حصہ ہیں۔ کرشن چندر کی پیش کردہ عورت گھریلو ہے لیکن فعال اور آزاد رو ہے۔ اپنے فیصلوں میں خود مختار ہے۔ وہ سماج میں اپنا مقام خوب جانتی ہے اور ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کے مقام کا بھی پاس رکھتی ہے۔ اگر تانیثی تناظر میں اس عورت کا جائزہ لیا جائے تو یہ تانیثیت کی صحیح تعبیر کی امین ہے۔ کیوں کہ تانیثیت یہ نہیں کہ عورت اپنی نسوانیت سے انکار کرلے بل کہ تانیثیت بطور عورت اپنے بنیادی حقوق کی طلب اور معاشرے میں عورت کے بھرپور مگر جائز مقام کا تعین کرنا ہے۔ لاچی کا تصور جس میں گھر، محبت، خدمت، شوہر اور ایک قسم کی اجتماعیت کی جھلک نظر آتی ہے اس کے صحیح تانیثی شعور کی طرف اشارہ کرتا ہے۔مختصر یہ کہ کرشن چندر کی پیش کردہ عورت تانیثیت کا لبادہ اوڑھ کر اپنی فطرت کو مسخ نہیں کرتی بلکہ اپنا اصل مقام پانے کا مطالبہ کرتی ہے۔

نفسیاتی شعور کے حوالے سے یہ ناول کافی زرخیز ہے۔ عام لوگوں کی نفسیات سے لے کر خواص طبقے تک کی نفسیات کا بیان ناول “ایک عورت ہزار دیوانے” میں ہوا ہے۔ لاچی ایک مرتبہ بھیک مانگنے کے واسطے ایک اڈے میں جاتی ہے وہاں پر ایک اندھی اور بڈھی بھکارن کھڑی ہوتی ہے۔ لاچی اس سے کہتی ہے کہ اڈہ تو خالی ہے یہاں تجھے کون بھیک دے گا۔ اندھی بھکارن کو غصہ آجاتا ہے اور کہتی کہ تو کیوں یہاں کھڑی میری روزی تباہ کررہی ہے۔ لاچی حیران ہوکر کہتی ہے کہ میں نے کیا، کیا ہے۔ اس پر بھکارن کہتی ہے :
’’ تیرے ہوتے ہوئے مجھے کون بھیک دے گا۔ دھنیا(بھکارن) بہت افسردگی سے بولی۔ کیسا زمانہ آیا ہے۔ لوگ بھیک دیتے ہیں تو اچھی صورت دیکھ کر۔ غریب اندھی بڈھی کو کوئی نہیں پوچھتا۔‘‘(۱۱)

اور یہ سچ تھا۔ اگلے چار گھنٹوں میں لاچی نے معقول رقم اکٹھی کی تھی اور اندھی بھکارن ویسی ہی کھڑی تھی یا بہ مشکل ان کے ہاتھ کچھ پانچ، دس پیسے آئے ہوں گے کیوں کہ انسانیت اب بھی کہیں نہ کہیں موجود ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں بھیک دیتے وقت بھی ہمدردی کو نہیں بل کہ شکل و صورت کو دیکھا جاتا ہے کیوں کہ جسم اور صورت کے نظارے کا ہرجانہ لوگ ادا کرتے ہیں ورنہ بھیک تو دھنیا جیسی اندھی اور بڈھی کا حق بنتا ہے۔یہ ہمارے معاشرے کی مادہ پرستی کی واضح مثال ہے۔

اسی طرح جب لاچی پان والے کی دکان کا رخ کرتی ہے تو دکان پر اچانک لوگوں کی بھیڑ لگ جاتی ہے۔ دکان تو پہلے بھی موجود تھی لیکن حسن و جسم کا نظارہ نہیں تھا۔ گویا پان والے کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔ نظارہ لاچی کا کیا جاتا ہے اور پیسے پان والا بٹور لیتا ہے۔ جب لاچی پان کھاکر دکان دار کو پیسے دینے لگتی ہے تو پان والا کہتا ہے :
’’ جانی! تو بس ادھر میری دکان پر کبھی کبھار دو منٹ کےلیے کھڑی ہوجایا کر۔ اپنے تو پان کے پیسے یوں ہی وصول ہوجاتے ہیں‘‘(۱۲)

اسی طرح کی نفسیاتی گرہ کشائیوں سے ناول “ایک عورت ہزار دیوانے” بھرا پڑا ہے۔

سماج کے تلخ حقائق کے بیان سے یہ ناول بھرا پڑا ہے۔ بالخصوص ان سچائیوں کا ذکر کرشن چندر نے کیا ہے جو ایک عورت کے حوالے سے ہمارے سماج میں موجود ہیں۔ مصنف کے خیال میں ہمارا سماج اگر کسی غریب عورت کو سڑکوں، اسٹیشنوں، دکانوں یا کوچہ و بازار میں دیکھتا ہے تو اس کے ذہن میں یہی آتا ہے کہ یہ اخلاقی طور پر پست اور اپنے جسم کی سوداگر ہوگی۔ اس لیے یہ سماج اس کو ظلم و جبر کا نشانہ بناتا ہے۔ لاچی کو جب ساڑھے تین سو روپوں کی ضرورت ہوتی ہے تو پورا سماج اس کے خلاف کھڑا ہوجاتا ہے۔ اسے بھیک دینا اپنے شان کے خلاف سمجھتا ہے اور طعنے دے دے کر کہتا ہے کہ بہار کے بعد جتنا تو چاہے بھیک دیں گے۔ اس صورت حال کا اظہار ناول میں کچھ یوں ہوا ہے :
’’ایک پائے بھیک اسے نہ دیتے۔ یہ علاقے کی عزت کا سوال تھا اور عزت سب کی سانجھی ہوتی ہے۔ ہوتی ہے نا جی۔ آخر ایک گھر کی عورت میں اور گلی گلی بھیک مانگنے والی، ٹوکریاں بُن بُن کر بیچنے والی خانہ بدوش لڑکی کی عزت میں کچھ تو فرق ہونا چاہیے۔‘‘ (۱۳)

مصنف کے مطابق اگر سماج میں موجود ہر شخص دوسروں کی عزت کو اپنی عزت کی نظر سے دیکھے تو جنسی جرائم اور ظلم کا خاتمہ ممکن ہے۔

کرشن چندر نے اس ناول میں عورت کو سچی محبت کا وارث ٹھہرایا ہے۔ ان کی نظر میں اگر محبت کا مطلب اب تک کوئی سمجھ سکا ہے تو وہ صرف عورت ہی ہے۔ مرد کو انھوں نے ہوس پرست اور جنسی بیمار قرار دیا ہے۔ گویا ان کی نظر میں مرد محبت سے کوسوں دور اور اس کی روح سے یک سر ناآشنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں انھوں نے مردوں کے تقریباً تمام طبقے نشانہ زد بنائے ہیں۔ ناول کے مرکزی کردار کا بھی یہی خیال ہے کہ سب مرد ایک جیسے ہوتے ہیں۔ گل جب لاچی کی طرف محبت کا ہاتھ بڑھاتا ہے تو لاچی اس سے کہتی ہے کہ ایسی باتیں میں روز سنتی ہوں۔ سڑکوں پر، اسٹیشنوں پر،دکانوں پر، گلی کوچوں میں اظہار محبت کے یہ دکھاوے میں روز دیکھتی اور سنتی ہوں۔اس کے آگے گل اور لاچی میں مکالمہ کچھ یوں ہوتا ہے :
’’(گل) سبھی مرد ایک سے نہیں ہوتے۔
(لاچی) سبھی کتے ایک جیسے ہوتے ہیں۔
گل نے لاچی کا بازو زور سے پکڑ لیا۔ اس کا چہرہ کانوں تک سرخ ہوگیا۔ وہ لاچی کے بازو کو اپنی انگلیوں کے زور سے مسلتے ہوئے بولا۔
خدا کی قسم بہت خبیث عورت ہو،خبیث اور جاہل۔مجھے تم سےنفرت ہے،نفرت ہے،نفرت ہے۔‘‘(۱۴)

جس طرح لاچی کا شک بجا ہوتا ہے کیوں کہ اسے زندگی میں ایسے ہی مرد ملے اسی طرح گل کا غصہ بھی بجا ہوتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ نہ تمام مرد اور نہ ہر سماج ایک جیسا ہوتا ہے۔ انسانیت اب بھی زندہ ہے اس کی مثال ہمیں اسی ناول سے ہی مل جاتی ہے کہ جب اسٹیشن میں موجود لوگ لاچی کی مدد کرتے ہیں تو وہ محبت ہی کا ایک پہلو ہے۔ وہ لوگ انسانیت کے اعلیٰ  منصب پر فائز ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ سب مرد ہی ہیں۔ مدعا یہ کہ کرشن چندر کا یہ تصور کہ محبت صرف عورت کی میراث ہے اور صرف عورت ہی اس کی روح کو پہچانتی ہے ایک ذاتی تصور ہے اور اس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔

ہمارے سماج کا صاحب اقتدار طبقہ نچلے طبقے کو اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک اس کے مفادات کا دارومدار نچلے طبقے پر ہو۔ لاچی کو دیکھ کر جب قبیلے میں انقلاب برپا ہوجاتا ہے اور جوان لڑکیاں دھندہ کرنے سے انکار کر دیتی ہے تو گویا قبیلے پر قیامت آجاتی ہے۔ راتوں رات تمام خیموں کو آگ لگا دی جاتی ہے جس میں بہت سے لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں اور کچھ وہاں سے بھاگ جاتے ہیں۔ جب تک اشرافیہ طبقے کی جنسی آگ تھم جانے کے ذرائع قبیلے میں موجود تھے تو ان لوگوں کو کوئی تکلیف نہیں تھی لیکن جنسی بھوک اور پیاس نے انھیں خانہ بدوشوں کو جلانے اور ختم کرنے پر مجبور کردیا۔کیوں کہ یہ لوگ مزید غلامی برداشت کرنے کےلیے تیار نہیں تھے۔ یہی اشرافیہ طبقے کا جاگیردارنہ نظام ہے اور یہی اس کی جاگیرداریت:
؎ تاحدِ نظر شعلے ہی شعلے ہیں چمن میں
پھولوں کے نگہبان سے کچھ بھول ہوئی ہے
(ساغر صدیقی)

کرشن چندر نے سامراجیت اور سرماداریت کی روح کو بھانپ لیا تھا۔ ان کی نظر میں اشرافیہ طبقہ پردے کے پیچھے اپنے عزائم جاری رکھتا ہے اور جب یہ عزائم لوگوں پر عیاں ہوجاتے ہیں تو سماج میں موجود نچلے طبقے کو ذمہ دار ٹھہرا کر خود کو دودھ کے دُھلے ثابت کرتے ہیں۔ تاریخ عالم میں قربانی کے ایسے بکرے بیش بہا موجود ہیں جن کے لہو سے سرمایہ داروں نے اپنے گناہ اور مظالم مٹائے ہیں۔ اس کا ذکر ناول نگار نے یوں کیا ہے :

’’ ہر سماج اپنے گناہ چھپانے کےلیے کسی باہر والے کو قُربانی کا بکرا بناتا ہے۔۔ اس بکرے کی ضرورت ہر سوسائٹی میں یکساں ہے اور اس بکرے کے بغیر کوئی سوسائٹی یا سماج چاہے وہ پسماندہ سے پسماندہ یا ترقی یافتہ ہو چل نہیں سکتا۔ خاص خاص بحرانی کیفیتوں میں اس بکرے کی ضرورت ہمیشہ پیش آتی ہے۔ اس بکرے کی جان لے کر اس کا لہو پی کر ہر سماج ایک طرح سے اپنی تجدیدِ حیات کا سامان بہم پہنچاتا ہے۔ انسانی تاریخ اگر ایک طرف شہیدوں کے خون سے روشن ہے تو دوسری طرف بکروں کے لہو سے بھرپور سرخ ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ شہیدوں کا ذکر لوگ فخر سے کرتے ہیں لیکن بکروں کا کوئی ذکر نہیں کرتا۔ اور کبھی بکروں کا ذکر ناگزیر ہوجائے تو شرم سے سر جھکا کر سرگوشیوں میں کیا جاتا ہے۔ یہ وجہ کہ لوگ اپنے شہیدوں کے نام تو جانتے ہیں لیکن اپنے بکروں کے نہیں۔‘‘(۱۵)

سماج میں موجود ایسے ہزاروں بکرے قربان ہوئے اور ان کے لہو سے جابروں کی عمارتوں کو تقویت ملی۔ المیہ یہ ہے کہ ان بکروں کو پہلے تو کوئی یاد نہیں کرتا اور اگر یاد بھی کرتا ہے تو بزدل، قاتل، ڈرپوک اور ڈاکو کے ناموں سے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اصل ہیروز ہیں جنھوں نے اپنی زندگیاں داؤ پر لگا کر اپنے سماج اور ملک و قوم کے کام آئے۔ اصل میں ان جان بازوں کو پسِ پشت رکھنے والے بھی یہی سرمایہ دار لوگ ہیں۔

کرشن چندر کا یہ ناول سماج میں موجود بہت سے حقائق کی پردہ کشائی کرتا ہے۔ جہاں اس ناول میں گل اور لاچی کی ایک رومانوی کہانی بیان ہوئی ہے وہاں اس میں سماج کا دوغلہ پن، ظلم و جبر، عورت کے راستے میں حائل رکاوٹیں، پدر سری نظام کی پابندیاں، سیاست کی منافقت، جاگیردارنہ نظام،ظلم کے خلاف بغاوت کے جذبات، روایات و رسوم کا غلط استعمال، عورت اور نچلے طبقے کا استحصال، جنسی بے راہ روی و کج روی اور نفسیات کا گہرا شعور ملتا ہے۔
حوالاجات
۱ ) ابولاعجاز حفیظ صدیقی، کشاف تنقیدی اصطلاحات،ادارہ فروغ قومی زبان، اسلام آباد، پاکستان، طبع دوم ۲۰۱۸ء، ص ۲۵۹
۲ ) کرشن چندر، ایک عورت ہزار دیوانے،ایشیا پبلشر، نئی دہلی، ۱۹۹۷ء، ص ۱۰
۳ ) ایضاً، ص ۰۷
۴ ) ایضاً، ص۷۵
۵ ) ایضاً، ص ۱۲۲
۶ ) ایضاً، ص ۱۳۶
۷ ) ایضاً، ص ۲۵
۸ ) ایضاً، ص ۰۹
۹ ) ایضاً، ص ۱۹
۱۰ ) ایضاً، ص ۱۹۹، ۱۰۰
۱۱ ) ایضاً، ص ۳۷
۱۲ ) ایضاً، ص ۳۸
۱۳ ) ایضاً، ص ۴۹
۱۴ ) ایضاً، ص ۴۶
۱۵ ) ایضاً، ص ۱۰۲

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply