تقسیم سے تقسیم تک،آزاد منزل۔۔تبصرہ:ربیعہ سلیم مرزا

کچھ کتابیں ایک جلد اور چند صفحات تک محدود نہیں ہوتیں ۔ان کے اندر کسی زمانے کی کہانی ہوتی ہے اور اس ایک کہانی کے ساتھ ماضی حال اور مستقبل سے وابستہ ہزار داستانیں ہوتی ہیں ۔
یہ الف لیلہ ۔ مجھے احمد امتیاز بھائی نے بھیجی ،وہ نہ بھیجتے تو میں ناہید سلطانہ اختر کو کبھی نہ جان پاتی اور یہ بھی نہ جان پاتی کہ ہر شئے اپنی زبان میں گفتگو کرتی ہے  ۔آسمان میں موجود تارے،یہ ہواِپانی۔۔زمین اور اس کی مٹی بھی ۔
دن کے ہر سمے ہر وقت کی بھی اپنی زبان ہے
اور اس گفتگو کو سننے کی صلاحیت صرف خاموشی ہے ۔

اپنے محور پہ گھومتے ۔۔صدیوں کے دکھ جب تھک جاتے ہیں ،تو انسانی آبادیوں پہ اُتر آتے ہیں،لمحوں میں حساب برابر کرکے،پھر سے محور میں لوٹ جاتے ہیں  ۔

ایسے کئی لمحے،وباؤں، قدرتی آفات اور جنگوں کی صورت نازل ہوئے لیکن پتہ نہیں قدرت نے انسان میں کیسی پوشیدہ طاقت رکھی ہے کہ تباہ و  برباد ہونے کے بعد بھی دوبارہ آباد ہو جاتے ہیں ۔
آزاد منزل
تقسیم سے تقسیم تک
ایک عہد ہے،1857 سے لے کر 1947 تک  اور میں سوچ رہی ہوں کہ   سازشیں صرف وہی تو نہیں ہوتیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جوگھروں کے درو دیوار آنگن اور دریچے تک بانٹ دیتی ہیں،چہرہ مہرہ،رنگ روپ،دونوں اطراف کا ایک ہی ہے ۔ نفرت حسد مکاری چالاکی جو جڑوں تک اُترتی ہے ۔
صدیوں کی منصوبہ بندی،صدیوں تک نفرت کا زہر پھیلاتی ہے ۔ہماری اگلی نسلیں اس نفرت سے ہو سکتا ہے واقفیت نہ رکھتی ہوں لیکن یہ کتاب انہیں بڑی حد تک آگہی دے جائے گی۔
روشنی اور محبت وہ خود ڈھونڈھ لیں گے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply