یہ کتابوں کی آخری صدی نہیں ہے۔ درختوں کی چھال سے ای بک تک کے سفر میں کتاب ہمیشہ زندہ رہی ہے۔ اس سارے عرصہ میں لکھنے، پڑھنے اور سننے کا کام زیادہ ہوا ہے البتہ روایتی کتب کی مارکیٹ تباہ ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔ اکثر پبلشرز اور غیر لکھاری مافیا نے اپنے مفادات کے لیے اس مارکیٹ کو تباہ کیا لیکن اس کے باوجود اس حبس زدہ موسم میں کچھ کتابیں آج بھی ایسی ہیں جو نہ صرف خرید کر پڑھی جاتی ہیں بلکہ ریفرنس بک کے طور پر بھی استعمال ہوتی ہیں۔
اسی طرح بہت سے ایسے پبلشر بھی موجود ہیں جنہوں نے کتاب کی اہمیت کو برقرار رکھا اور حقیقی معنوں میں ادیب، کتاب اور قاری کو جوڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہی میں علامہ عبدالستار عاصم کا ادارہ قلم فاؤنڈیشن قابل ذکر ہے، جہلم بک کارنر بھی لازوال کتب شائع کر رہا ہے۔ لاہور کی مارکیٹ میں علم و عرفان پبلشرز اور دعا پبلیکشن کی کتب بھی شاندار ہیں۔ اسی طرح القریش پبلشرز بھی ناول چھاپنے کے حوالے سے منفرد پہچان کا حامل ادارہ ہے۔ ایسے ہی کچھ اور پبلشرز بھی ہیں جنہوں نے کتاب کو محض کاروبار نہیں سمجھا بلکہ اس کاروبار کے ساتھ لکھنے والوں کو منسلک رکھا۔
گزشتہ دنوں علامہ عبدالستار عاصم کے قلم فاؤنڈیشن کے زیراہتمام ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کی ایک شاندار کتاب “اردو مزاح کی تاریخ” شائع ہوئی۔ اس سے پہلے میں نے مزاح کی ایسی کتاب بھی پڑھی جسے پڑھنے کے بعد اس کے پبلشر کو باقاعدہ فون کرکے پوچھا: “بھائی یہ کیا مزاق ہے “۔ ڈاکٹر اشفاق احمد ورک پاکستان کے ایسے محقق ہیں جنہوں نے 2003 میں”اردو نثر میں طنز و مزاح” موضوع پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ کر ڈگری حاصل کی تھی۔ انہیں پاکستان کے چوٹی کے مزاح نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے لیکن چوٹی کے مزاح نگار ہونے کے باوجود اخبارات، ویب سائٹس اور اردو بازار میں ان کے “فٹ پرنٹ” ملتے ہیں۔
آج کل میرے زیر مطالعہ جو چند کتابیں ہیں ان میں”اردو مزاح کی تاریخ” بھی شامل ہے۔ میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر آپ اچھا مزاح پڑھنے کا شغف رکھتے ہیں اور آپ کی اہلیہ بچوں سمیت اپنے میکے گئی ہوئی ہیں تو دفتر سے گھر جاتے ہی یہ کتاب دیکھ کر آپ کی دن بھر کی تھکاوٹ اسی طرح دور ہو جائے گی جیسے بچوں کو دیکھ کر ہوتی ہے۔ سونے پہ سہاگہ آپ چند منٹوں بعد باس کی جلی کٹی بھی بھول جائیں گے۔ اگر آپ کی اہلیہ جھگڑالو ہیں تو ہر جھگڑے کے بعد اس کتاب کا مطالعہ یتیم خانہ والے کسی بھی حکیم سے زیادہ بہتر ٹانک ثابت ہوگا اور آپ جلی کٹی سنتے ہوئے زیر لب مسکراتے رہیں گے البتہ اس کھی کھی کے نتیجے میں ٹوٹنے والی ہڈیوں کی گارنٹی نہیں ہے۔
بہر حال میں سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب بذات خود ایم فل کی سطح کا تحقیقی مقالہ ہے اور اگر اشفاق احمد ورک پی ایچ ڈی ڈاکٹر نہ ہوتے تو اس کتاب کی بنیاد پر ایم فل کی ڈگری حاصل کر سکتے تھے شاید انہیں افسوس ہو کہ یہ کتاب انہوں نے پہلے کیوں نہیں لکھی ورنہ وہ ایک بار پھر ایم فل کی ڈگری حاصل کر لیتے ہیں۔ اس کتاب میں اردو مزاح کی بنیاد رکھنے والے جعفرز ٹلی کے حوالوں سے لے کر آج کی جدید مزاح نگاروں تک ایسی بہت سی مثالیں اور انتخاب موجود ہے جسے دیکھ کر اردو مزاح کی ایک مکمل تاریخ ہمارے سامنے آتی ہے اور ہمیں قدیم اور جدید مزاح نگار ایک جگہ پر میسر ہوتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کتاب محض ایسی تحقیق پر مشتمل نہیں جو قاری کو تحقیق کی وادیوں میں گھماتے ہوئے عدم دلچسپی کا شکار کرے بلکہ ایک عام شخص بھی اس سے اتنا ہی لطف حاصل کرتا ہے جتنا کوئی محقق کر سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر اشفاق احمد ورک نے اردو مزاح کی تاریخ لکھ کر اردو ادب سے منسلک لوگوں پر ایک احسان کیا ہے اور میں پر امید ہوں کہ قلم فاؤنڈیشن اسی طرح معیاری کتب کی اشاعت کو یقینی بناتے ہوئے کتاب کلچر کی تباہی کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرتی رہے گی۔
ہمارے ایک اور دوست بابر الیاس بھی کتاب کلچر کو فروغ دینے کے لیے باقاعدہ مشن پر ہیں۔ یہ شخص چیچہ وطنی میں بیٹھ کر سیرت النبیﷺ، اسلامی تاریخ اور سیرت اصحابؓ نبیﷺ پر بے پناہ کام کر رہا ہے اور خاص طور پر انہوں نے نوجوان لکھنے والوں کو اس راستے پر گامزن کیا، مقابلے کرائے، انعامات دیے اور اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے۔ گزشتہ دنوں ان کی ایک کتاب “ذکر اہل بیتؓ” موصول ہوئی۔
اس کتاب میں 93 لکھاریوں کی تخلیقات موجود ہیں۔ یہ ایک بڑا کام ہے جس کے تحت بابر الیاس نے پاکستان بھر سے 93 لوگوں کو اہل بیتؓ کی سیرت پر تحقیق کرنے کا مشن سونپا اور پھر ان کی تحریروں کو کتابی شکل میں ہمارے سامنے پیش کر دیا۔ بابر الیاس ایسا کام کر رہے ہیں جس میں ہماری نوجوان نسل کو خاص طور پر اس بات پر آمادہ کیا جاتا ہے کہ وہ سیرت النبیﷺ، سیرت اہل بیتؓ اور اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں اور اس کی بنیاد پر مضامین لکھیں اور پھر منتخب مضامین کو کتابی شکل میں شائع کیا جاتا ہے۔
اردو ادب اور خصوصاً تنقید کے حوالے سے حسین مجروح بھی ایک بڑا نام ہے جو باقاعدگی سے سہ ماہی سائبان شائع کرتے ہیں۔ سائبان اس وقت اردو ادب کا انتہائی معیاری جریدہ مانا جا رہا ہے جس کا پانچواں ایڈیشن آ چکا ہے۔ یقینا یہ ایک مشکل کام ہے لیکن حسین مجروح ایک مشن کے طور پر ایسی علمی ادبی خدمات سر انجام دے رہے ہیں جس نے احمد ندیم قاسمی مرحوم سمیت دیگر سینئر کی یاد تازہ کر رکھی ہے۔
اس سے پہلے کراچی سے دنیا ادب شائع ہوتا تھا جسے اوج کمال نے انتہائی خوبصورتی سے ادبی دنیا کا پسندیدہ جریدہ بنا رکھا تھا۔ بعض وجوہات کی بنا پر اوج کمال کو دنیا ادب ڈیجیٹل میڈیم پر منتقل کرنا پڑا جس کے بعد حسین مجروح نے لاہور سے سہ ماہی صاحبان کی اشاعت کا اغاز کیا اور ایک ادبی معمار کی طرح اس قلعہ کی تعمیر کی۔ بلاشبہ بہت کم عرصے میں سہ ماہی سائبان نے نہ صرف اپنا مقام اور معیار قائم کیا بلکہ اب اس کی آمد کا شدت سے انتظار کیا جاتا ہے۔
جس طرح اوج کمال کا یہ کہنا تھا کہ جو کچھ ادب میں ہے وہ دنیائے ادب میں ہے، میں سمجھتا ہوں کہ حسین مجروح کے سائبان کے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے کہ جو کچھ ادب میں ہے وہ سائبان تلے ہے۔ یہ ادبی دنیا کا ایک سائبان ہے جس نے ان تمام ادیبوں کو سائبان مہیا کیا جو اس وقت خالصتاً ادبی جریدے کے منتظر تھے اور اس کی تلاش میں تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ مشکل کام ہے اسے ہم منافع بخش نہیں کہہ سکتے لیکن انسانوں کی تربیت، نسلوں کی آبیاری اور فکری سوچ کو پروان چڑھانے کے لیے یہ سب بہت ضرورت ہے جس کی حکومتی سطح پر بھی سرپرستی ہونی چاہیے۔
آج سوشل میڈیا پر ہم جس گالم گلوچ کلچر کا مقابلہ کر رہے ہیں اور جس طرح سے نوجوانوں میں ٹینشن، ڈپریشن اور غصہ پروان چڑھ رہا ہے اس کا حل مثبت اور معیاری ادب ہی ہے۔ ہمیں نوجوانوں کو اس کتاب کلچر سے جوڑنا ہوگا جو انہیں تحمل مزاجی کی جانب مائل کرے، جو اس ملک کو کامیابی کی طرف لے کر جائے اور جو ترقی کی نئی شاہراہیں کھولنے میں ہمارا معاون ہو۔ اس کے لیے نہ صرف ہمیں لائبریریز کو پروان چڑھانا ہوگا بلکہ ایسی کتب اور ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی جو فکری دنیا کے اس سموگ زدہ معاشرے میں بارش کی بوندوں کی طرح برس رہے ہیں۔
بشکریہ 92 نیوز
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں