• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • بھارت میں تیزی سے بڑھتا اسلامو فوبیا۔۔جاوید عباس رضوی

بھارت میں تیزی سے بڑھتا اسلامو فوبیا۔۔جاوید عباس رضوی

بھارت میں فرقہ وارانہ سیاست کے سبب اسلاموفوبیا بہت تیزی سے بڑھنے لگا ہے۔ بی جے پی، ہندو مہا سبھا اور آر ایس ایس نے ہر سطح پر مسلمانوں کو دشمن کی شکل میں دکھانا شروع کر دیا ہے۔ عالمی سطح پر اسلاموفوبیا کے عروج سے کافی پہلے بھارت میں یہ موجود تھا۔ بابری مسجد کو منہدم کیا گیا۔ گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ ہجومی تشدد کو عام کیا گیا۔ شاہ بانو معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کو پلٹنے سے مسلمانوں میں مذہبی اصلاح کے عمل کو بڑا جھٹکا لگا۔ اب نئے سرے سے ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے پورے بھارت میں اور خصوصاً کرناٹک میں نفرت بھری تقاریر ہو رہی ہیں۔ حجاب کے خلاف قانون بنایا گیا۔ مسلم تاجروں کے ساتھ بائیکاٹ کی اپیلیں ہو رہی ہیں، عوامی مقامات پر نماز ادا کرنے کی مخالفت ہو رہی ہے اور مسجدوں سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ حکومتی سطح پر مسلمانوں کے خلاف نفرت کو فروغ دیا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو ’گولی مارو‘ کا نعرہ دینے والے انوراگ ٹھاکر کو ترقی دے کر کابینہ وزیر بنایا گیا۔ ڈاسنا دیوی مندر کے پجاری یتی نرسنہانند کی زبان سے زہریلی باتیں لگاتار جاری ہیں اور وہ مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی بات کرتے ہیں۔ ہریدوار میں دھرم سنسد (ہندوؤں کے مذہبی اجتماع) نے مسلمانوں کے قتل عام کا اعلان کیا۔

حال ہی میں دہلی میں منعقدہ ایک ہندوؤں کے مہاپنچایت میں مسلم مخالف نعرے لگائے گئے اور یتی نرسنہانند نے یہاں بھی دہرایا کہ ہندوؤں کو اب مسلمانوں کے خلاف اسلحہ اٹھانا چاہیئے اور یہ بھی کہا کہ اگر کوئی مسلمان بھارت کا وزیراعظم بن گیا تو اس سے مذہب تبدیلی کا خطرہ بڑھے گا۔ ہندوتوا تنظیموں نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ ہندو مندروں کے آس پاس اور ہندو مذہبی میلوں میں مسلم تاجروں کو اپنی دکانیں وغیرہ نہیں لگانے دی جائے گی۔ مسلم طبقہ کی معیشت کو تباہ کرنے کے لئے کئی طریقے تلاش کئے جا رہے ہیں۔ الگ الگ بہانوں سے مسلم کاروباریوں کا بائیکاٹ کرنے کی اپیلیں کی جا رہی ہیں۔ ہندو مسلم فسادات میں ملوث ’بجرنگ دل‘ کے پانچ کارکنوں کو آسانی سے ضمانت مل گئی لیکن امن و مساوات کی بات کرنے والے فادر اسٹین سوامی کو ضمانت نہیں ملی اور نہ ہی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء یونین کے لیڈر عمر خالد کو۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے مساجد سے لاؤڈ اسپیکر پر اذان دی جاتی رہی ہے لیکن مہاراشٹر میں راج ٹھاکرے نے اسے نفرت کا ایک اور تنازعہ بنا لیا ہے انہوں نے کہا کہ اگر 3 مئی تک مساجد سے لاؤڈ اسپیکر نہیں ہٹائے گئے تو ہر مسجد کے باہر ’ہندومان چالیسہ‘ گایا جائے گا۔

جمعیۃ علماء ہند کے ذریعہ شائع کردہ اعداد و شمار کے مطابق ہندو انتہا پسند لیڈروں کی جانب سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جولائی 2021ء سے لے کر دسمبر 2021ء تک نفرت پھیلانے والی 59 تقاریر ہوئی ہیں، ہجومی تشدد سمیت بربریت کی 38 وارداتیں پیش آئی ہیں۔ 21 مذہبی مقامات پر حملے ہوئے، 2 مسلم نوجوان پولیس حراست میں مارے گئے اور پولیس کے ذریعہ مظالم و سماجی تفریق کے بالترتیب 9 اور 6 معاملے سامنے آئے۔ ادھر آر ایس ایس کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلمان غدار ہیں، ہندوؤں کے دشمن ہیں، ہندوؤں کو اس لعنت سے لڑنے کے لئے متحد ہونا چاہیئے۔ آر ایس ایس کی سالانہ رپورٹ کے شائع ہونے کے اگلے ہی دن ایک اور خبر شائع ہوئی جس نے اس مضحکہ خیز دعوے پر زور دیا کہ مسلمان حکمرانی کے اداروں میں برے ارادے سے گھس رہے ہیں جو ہندوؤں کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔

کرناٹک ہائی کورٹ کے 15 مارچ کو حجاب کے بارے میں طویل انتظار کے بعد اعلان کیا کہ حجاب پہننا اسلام میں ضروری نہیں ہے اور اس لئے کلاس رومز میں اس پر پابندی ہے۔ ہندوتوا آئیڈیالوجی نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کی تعریف کی۔ انہوں نے اب اس بنیاد پر اسکولی بچوں کو ہندو مذہبی تعلیمات کے تابع کرنے کا جواز پیش کیا ہے۔ یہ جان کر کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کے ماحول کا نتیجہ ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ آج کا بھارت اب ایک اکثریتی ریاست میں تبدیل ہو چکا ہے جو اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے لئے ایک محفوظ پناہ گاہ نہیں رہا ہے۔

مسلمانوں پر ہونے والے ان ہمہ جہتی حملوں میں ہمیشہ کی طرح بالی ووڈ بھی پیش پیش رہا اور اب ’’کشمیر فائلز‘‘ بنا ڈالی جو بھارت میں اسلاموفوبیا کی واضح دلیل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نوے کی دہائی میں کشمیری مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہاں کے پنڈتوں نے بہت زیادہ اذیتیں برداشت کیں، لیکن تصویر کا ایک رخ دکھا کر پوری امت مسلمہ کو بدنام کرنے سے بالی ووڈ مزید بے نقاب ہوگیا۔ کشمیر کے اس ہولناک دور کو تناظر میں رکھتے ہوئے اپنے ایک حالیہ انٹرویو کے دوران RAW کے سابق چیف اے ایس دولت نے کہا کہ اس عرصے کے دوران کشمیر میں دہشتگردوں کے ہاتھوں مارے گئے 1724 افراد میں سے 89 کشمیری پنڈت تھے اور پنڈتوں کی بڑی تعداد کو کشمیر سے ہجرت کرنی پڑی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اے ایس دولت نے مزید کہا ’’اس اعداد و شمار کو نقل کرنے کا مقصد پنڈتوں کی بے جا تکالیف کو کم شمار کرنا نہیں ہے بلکہ اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ اس گھڑی میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی ماری گئی‘‘۔ اس پروپیگنڈہ فلم میں دکھایا گیا کہ تمام مسلمان دہشتگرد ہیں، اس فلم میں امام خمینی (رہ) کے ساتھ ساتھ کشمیر کے صوفیاء و اولیاء کرام کو بھی دہشتگردوں کے سرغنہ کے طور پر دکھایا گیا۔ فلم کا پروپیگنڈہ ہے کہ ہندوؤں نے کشمیر کی بنیاد رکھی اور مسلمان ظالموں نے اس کو اُجاڑ دیا۔ درحقیقت یہ فلم نہیں بلکہ آر ایس ایس و بی جے پی کا مسلمانوں کے خلاف ایک اہم منصوبہ ہے۔ یہ فلم ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف متحد کرنے کے لئے ایک جنگی فریاد ہے۔ یہ فلم بدترین قسم کا نفرت انگیز پروپیگنڈہ ہے جس کی بھارت کے ہر ذمہ دار رہنما کو مذمت کرنی چاہیئے تھی۔ اس کے برعکس بھارت کے وزیراعظم اور انکی پارٹی اس فلم کے لیڈ پبلسٹ (سب سے بڑے اشتہاری) کے طور پر میدان میں نظر آئے۔بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply