سیمنٹ اتنا مہنگا کیسے ہوا؟۔۔آصف محمود

جب پٹرول کی قیمت میں 8 روپے اضافہ ہوا تو سیمنٹ کی بوری کی قیمت 10 روپے بڑھ گئی اور اب جب پٹرول 10 روپے سستا ہوا ہے تو سیمنٹ کی بوری کی قیمت میں 190 روپے اضافہ ہو گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مارکیٹ کی اس اندھیر نگری کی کوئی تشریح اور کوئی جواز ہے؟ ایک ماہ پہلے سیمنٹ کی قیمت 720 روپے فی بوری تھی۔ پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہواتو یہ بڑھ کر 730 روپے ہو گئی۔ ایک ڈیڑھ ہفتے کے اندر اس کی قیمت 910 روپے ہو چکی ہے۔ یہ ریٹ بھی چند دن پہلے کا ہے۔ کیا معلوم اب اس سے بھی مہنگا ہو چکا ہو ۔مارکیٹ کا یہ رجحان سمجھ سے باہر ہے۔ کوئی ہے جو یہ بتا سکے کہ یہ کون ہے جو لوٹ مار کر رہا ہے اور اس بے تابی سے کر رہا ہے کہ کل کس نے دیکھا ، جو مال بنانا ہے جلد از جلد بنانا ہے۔اتنی جلدی کس کو ہے؟ کون ہے جو تیزی سے مال بنانے کے چکر میں بائولا ہو چکا ہے؟ پٹرول کے مہنگا ہونے سے چیزوں کا مہنگا ہو جانا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن دس بارہ دنوں میں جب پٹرول بھی دس روپے فی لٹر سستا ہو چکا ہو سیمنٹ کی ایک بوری کی قیمت میں قریب 200 روپے کا اضافہ کوئی معمولی واردات نہیں۔کوئی تو ہے جس نے ایک ہی لمحے میں اپنی تجوریاں بھر لی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون ہے؟ کیا اس کا کوئی چہرہ ہے؟ کوئی نام ہے؟ وہ حکومت کا دوست ہے یا دشمن ؟ وزرائے کرام صبح شام واٹس ایپ کرتے ہیں جن میں صرف ایک ہی پیغام ہوتا ہے کہ یہ دیکھیے ہم حزب اختلاف کو کیسے لعن طعن کر رہے ہیں۔ مجال ہے کہ کسی وزیر کا کوئی واٹس ایپ آیا ہو کہ میری وزارت کی یہ کارکردگی ہے۔اب آدمی کس سے پوچھے کہ مارکیٹ اتنی شتر بے مہار کیسے ہو گئی؟ حکومت بے بس ہو چکی ہے یا حکومت یرغمال ہو چکی ہے؟ مارکیٹ میں یہ واردات کون کر رہا ہے ، یہ کسی کا موضوع ہی نہیں۔ سب مزے میں ہیں۔ عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ عوام الناس سے کٹے ہوئے ہیں۔ محض نیک نیتی سے حکومتیں نہیں چلتیں اگر آپ زمینی حقائق سے ہی لاتعلق اور بے خبر ہوں ۔ عمران ایک ہیرو تھے۔ عام آدمی کے مسائل سے نہ انہیں کوئی واسطہ رہا نہ کوئی واسطہ ہے۔چنانچہ ان کی ٹیم کے لیے بہت آسان ہے انہیں دھوکے میں رکھے۔ اس ٹیم نے انہیں ایسے ایسے اعدادوشمار میں الجھا رکھا ہے کہ انہیں ہر طرف اپنی کامیابیاں ہی نظر آتی ہیں۔انہیں شاید علم ہی نہ ہو کہ سیمنٹ کی قیمتوں میں اتنا اضافہ ہو چکا ہے۔ ہائوسنگ سیکٹر میں عمران نے ایک پالیسی دی۔ اس پالیسی کو یوں برباد کیا گیاکہ حیرت ہوتی ہے۔ ایمنسٹی سکیم اسی سیکٹر میں آئی۔سستے گھر اسی منصوبے کا حصہ تھے۔لیکن ہوا کیاْ سریے کی قیمتوں میں راتوں رات اضافہ ہو گیا۔اب بنا لیجیے گھر۔ تعمیراتی لاگت اتنی زیادہ ہو گئی کہ متعلقہ اداروں نے ہاتھ کھڑے کر دیے کہ سستے گھر اب اپنی تخمینہ شدہ لاگت میں مکمل نہیں ہوسکتے۔عمران خان تک کسی طریقے سے بات پہنچ گئی کہ سریا جان بوجھ کر مہنگا کر دیا گیا ہے اور اس کا مارکیٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ فی ٹن سریا کم ا ز کم پچاس ہزار روپے ناجائز منافع کے ساتھ بیچا جا رہا ہے۔ عمران خان نے اس پر سخت ایکشن لیا۔حکم دیا کہ سریا فی الفور سستا کیا جائے۔ برادر مکرم سہیل اقبال بھٹی نے خبر دی کہ وزیر اعظم کے حکم پر سریا بیس پچیس ہزار روپے ٹن سستا ہونے جا رہا ہے۔ جس وقت میں نے یہ خبر پڑھی ، میں انڈسٹریل ایریا میں سریے کے ایک گودام میں چند دوستوں کے ساتھ بیٹھا چائے پی رہاتھا۔ہم وہاں ایک دوست کے گھر کی تعمیر کے لیے سریا خریدنے آئے تھے ۔ سہیل بھٹی صاحب کی خبر پڑھی تو میں نے دوست سے کہا آج نہ خریدو ، سریا سستا ہونے جا رہا ہے۔ گودام کے ڈیلر نے بتایا کہ سریا سستا نہیں ہو گا اور آج کے ریٹ پرکل سریانہ ملا تو اس کی ذمہ داری آپ کی ہو گی ہماری نہیں۔ڈیلر صاحب کو ذرا کریدا تو انہوں نے بتایا وزیر اعظم کی میٹنگ کے بعد ان ہی کی پارٹی کے ایک رہنما نے جو سریے کا کاروبار کرتے ہیں ، اپنے واٹس ایپ میں سب سے کہا ہے کہ سریے کی قیمتیں بڑھا دو۔میرے لیے یہ خبر حیرت ناک تھی۔ اس کا یقین کرنا مشکل تھا۔ہم سریا لیے بغیر آگئے۔ہمیں یقین تھا یہ سستا ہو جائے گا کیونکہ وزیر اعظم نے نوٹس لے لیا ہے۔بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ و زیر اعظم کے واضح احکامات کے بعد قیمتیں کم نہ ہوتیں؟ لیکن ہوا کیا؟ وہ مہنگا ہو گیا۔ اس دن سے جب وزیر اعظم نے نوٹس لیا اب تک سریے کی قیمت میں فی ٹن قریب 30 ہزار روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔مارکیٹ پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ کچھ عناصر کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے کہ کم وقت میں جتنا کما سکتے ہو کما لو۔ یہ عناصر کون ہیں؟ معلوم نہیں۔لیکن ایک بات بڑی واضح ہے۔بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں جب تک سرمایہ داروں کی دولت کی محتاج ہوں گی اور وہ اپنی سرگرمیوں اور جلسوں کے لیے کارکنان سے فنڈریزنگ کا کلچر فروغ نہیں دیں گی تب تک سرمایہ دار اقتدار کے ایام میں سود سمیت وصولیاں کرتا رہے گا۔ حکومتیں یا پھر بے بس ہو جائیں گی یالاتعلق ہو جائیں گی جیسے ہوا ہی کچھ نہ ہو۔ مارکیٹ کو حکومت نے خود مذاق بنا یا۔ ہر پندرہ دن بعد پٹرول کی قیمتون کے تعین کا فارمولا جس نے بھی وضع کیا اس نے عوام اور کنزیومر کا بیڑا غرق کر دیا۔ ایک ایسی غیر یقینی اور افراتفری کا ماحول بنا کہ مارکیٹ ادھڑ کر رہ گئی۔ ہر پندرہ دن پٹرول کے ساتھ ساتھ ہر چیز مہنگی ہونے لگی۔ ایک مذاق بن گیا۔ بلکہ مذاق نہیںاسے لوٹ مار کہنا چاہیے۔ اہل سیاست اس ساری واردات سے لاتعلق ہیں۔ ان میں سے ، سراج الحق صاحب جیسی چند شخصیات کے علاوہ، شاید ہی کوئی ایسا ہو جسے معلوم ہو غم روزگار کیا ہوتا ہے۔ یہاں اسلامی نظام کے علمبرداروں کے اسلام آباد کے محلات کا سوال ہو تو جواب آتا ہے تمہیں کیا تکلیف ہے ، یہ ہمیں تحفے میں ملا ہے۔سب کے یہاں اپنے اپنے اے ٹی ایم ہیں اور یہ اے ٹی ایم کیا ان اہل سیاست کے خرچے فی سبیل اللہ اٹھاتے ہیں کہ اس سے اللہ خوش ہو گا اور انہیں اجر ملے گا؟یہ جو ہر قائد محترم کے ساتھ ایک تجوری چل رہی ہوتی ہے یہ بندوبست کیا مفت میں ہوتا ہے؟ عوام کی بات کون کرے جب وزیر اعظم فرما رہے ہوں کہ وہ ٹماٹر وغیرہ کی قیمتوں کو دیکھنے نہیں آئے۔یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں ان پر توجہ دینا حکمرانوں کے شایان شان نہیں ہے۔ وہ بین الاقوامی معاملات حل کر رہے ہیں اور ان کی سوچ گلوبل ہے۔ یہ مقامی قسم کے غریب ’ غربے‘ اسگلوبل سوچ کو گہنا کر مقامی کرنا چاہتے ہیں۔ان سب کی مزاج پرسی کے لیے کوئی دندان شکن قسم کا آرڈی ننس آنا چاہیے۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply