زبیدہ آپا کی یاد میں۔۔ سلیم مرزا

میری شلوار  قمیض   سے کبھی  بنی  نہیں ۔ بیگم گوجرانوالہ کی خالص، بٹنی اور قومی لباس کی شیدا۔ مگر ہماری خوش لباسی جینز،شرٹ، سے آگے نہ بڑھی ۔ اور تو اور ناڑا باندھنا بھی نہیں  آتا، لہذا  ٹراؤزر کے ساتھ بھی جو ڈوری سی لٹکائی ہوتی ہے ۔ ہمارے دیگرران کے ساتھ وہ بھی ہمیشہ لٹکتی پائی گئی ۔ قصہ دروغ بر گردن قاری کہ ایک روز حکم ہوا کہ فلاں درزی سے معاملات قطع و برید و سلائی کڑھائی طے پا چکے ہیں ۔لہذا وہاں حاضری دیں ۔اور لباس فاخرہ ناپ وغیرہ دیں۔

درزی کے اپنے مسائل اس کی حرکتوں سے عیاں تھے۔ دوران ناپ جو کچھ اس نے تولا ۔میں زندگی میں تیسری بار شرمایا۔ان ان جگہوں سے ہو گزرا جہاں تاریخ میں کہیں بھی مردانہ رسائی نہیں تھی ۔ تیرہ، گھیرا ،موری جیسے لفظوں سے آشنائی ہوئی   اور پٹی، کالر شلوار کی لمبائی اونچائی کے بارے میں ایک ہی تبصرہ بار بار گردان رہا تھا۔ ” باجی بتا  کر گئی ہیں، کہ آپ کو کچھ پتہ نہیں ” اگر اس کی حرکات زنانہ نہ ہوتیں تو مجھے بیگم پہ شک ہوتے ہوتے رہ گیا۔

درزی کی دکان سے باہر آکر اپنے تما م اعضائے رئیسہ و خبیثہ کا ازسرنو جائزہ لیا  اور بھاگ نکلا۔ ایک ہفتہ بعد وہ سب سل کر آگیا جس کے لیے مجھے ناپا  گیا، تھا۔ بیگم نے بڑے لاڈ  سے پہنایا۔ جیسے پہلے دن بچے کو  سکول کے لیے تیار کیا جاتا ہے اور ہم عازم بازار ہو ئے ۔ گھر سے دو فرلانگ دوری پہ ایک جھٹکا، داہنی جانب لگا ۔اور ہم ایک موٹر سائیکل کے ہینڈ ل میں لگے لیور میں جیب پھنسا کر پھٹوا  چکے تھے ۔ اب ادھڑی جیب  نرگس کی طرح سائیڈ سے قمیص کھولے گھر آ  گئے۔ اب دوسرے سوٹ کی باری تھی ۔  وہ پہنا۔۔ اب بیگم کو کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ کیسا لگ رہا  ہوں۔ کبھی پیٹ پہ ناڑا  ٹائیٹ ہو جاتا تو کبھی ڈھیلا ہو جاتا کہ لگتا اب گئی کہ گئی۔ خاتون خانہ نے الاسٹک کا حل نکالا۔ اب میں حیران کہ دن میں نو بار تو چھوٹا  بیٹا  پینٹ کھینچ کر فرمائش کرتا ہے ۔ کہیں اس کی زو  دیکھنے کی خواہش بنا مانگے نہ پوری ہو جائے ۔ الاسٹک پہننے سے ایک عجیب طر ح کا غرور اور تمکنت پیدا ہو  گئی کہ زیادہ گھلنے  ملنے سے  ۔۔”نجانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے”۔

سب سے عجیب حادثہ یہ ہوا کہ پان کھاتے کھاتے گاڑی مرمت کروانے چلا گیا۔ مکینک کو ایک دم کچھ بتانے لگا تو پوری پچکاری گلے سے لے کر گھیرے تک ہولی کھیل گئی ۔ فورا گھر بھا گا  مگر تبدیلی آ چکی تھی ۔۔۔ دنیا جہان کے غیر ذمہ داروں کا میں  سرغنہ تھا۔ نوازشریف کےاقامہ کے پیچھے میرا ہاتھ تھا۔۔اور سب سے اہم انکشاف اپنی بیوی کے منہ سے سن کر تو میں سن ہی ہو گیا کہ میں بڈھا ہو گیا ہوں۔

قمیض اتاری۔۔شلوار بنیان میں کمرے میں شرمسار سا جا بیٹھا ۔ موبائل پہ فیس بک کھولی تو ایک خیال آیا ۔ فوراً  یو ٹیوب پہ پان کے داغ نکالنے کا طریقہ پوچھا کئی طرح کےطریقے سامنے آگئے ۔ زبیدہ آپا بھی تھیں۔ مستند تھیں۔ فورا ویڈیو چلائی تو سرکے سے داغ دھونے  کا ٹوٹکا تھا، مردانہ وار کمرے سے نکلا ۔کچن سے سرکے کی بوتل اٹھائی ۔ بیگم سے قمیص چھینی ایک طرف سے بیٹے کو پکڑائی داغ میری آنکھوں کے سامنے غائب ہو گئے۔

فاتحانہ مسکراہٹ سے ہکی بکی بیگم کو دیکھا  اور   آج وہ بہت یاد آئی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

دل کے داغ کا طریقہ پوچھناتھا۔ زبیدہ آپا بِنا بتائے نکل لی۔۔ داغ مزید بڑھ گیا!!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply