پچیس سال اور دو ملاقاتیں/عاصم کلیار

پچیس سال اور دو ملاقاتیں ا  س وقت تک میں ”مجموعہ” سے “گرد مہتاب”کو قوس قز ح بنانے والے سے بے خبر تھا جبکہ “اورق خزانی” کو ترتیب پانے میں کچھ برس درکار تھے۔
شہر،شہر اور ملک ملک سے آنے والے اہل ِ کتاب زاہد ڈار کی طلب میں ٹی ہاؤس ضرورت جھانکتے جبکہ احمد مشتاق کے قہقے اور ہنگامہ خیز فقرے تو ٹی ہاؤس کی تاریخ کا حصّہ ہیں۔
پاک ٹی ہاؤس کا قدیم مسافر ہونے کے باوجود جب وہ سن 2000 ءکی ایک خنک  شام کو پاک ٹی ہاؤس میں داخل ہوۓ تو اس روز ٹویڈ کا کورٹ اور گلابی رنگ کی ٹائی باندھے خود کو اجنبی محسوس کر رہے تھے۔
اتنے برس بعد وہ خیال کے آتش دان سے گئے دنوں کی راکھ جھٹکنے کی کوشش میں مگن زاہد ڈار کی میز پر ایک لمحے کو رُکے اور پھر کرسی سنبھالتے ہوۓ اس پر بیٹھ گئے ، انہوں نے ہکلاتے ہوۓ زاہد ڈار سے پوچھا!
ہو ہو ہور کیہہ حال اے؟
پرانے دوست سے ملتے وقت نہ جذبات میں تلاطم تھا اور نہ ہی زاہد ڈار کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، انہوں نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا بھی تو صرف اتنا کہا!
بس ٹھیک۔

پھر میری طرف دیکھتے ہوۓ بولے یہ بہت اچھے شاعر احمد مشتاق ہیں جو اب ایک مدت سے امریکہ میں ہوتے ہیں۔میں جاہل اس وقت تک احمد مشتاق کے نام سے بھی نا آشنا تھا۔

ان دنوں کئی ادیب اور پڑھنے لکھنے والے این جی اوز سے وابستہ تھے احمد مشتاق نے ایک لفافہ نما ماچس کے اندر سے تیلی نکال کر سگریٹ سلگاتے ہوۓ کہا ،این جی او ادیبوں کو کھا گئی۔میں گفتگو سے یکسر غافل کسی اجڈ کی طرح منفرد ماچس گھورنے میں مگن رہا۔گفتگو میں ممتاز مفتی کے ذکر پر احمد مشتاق نے علی پور کا ایلی کے بارے ناپسندیدگی کا اظہار کیا، جسے سن کر میں نے ماتھے پر تیوری چڑھاتے ہوۓ ان سے سگریٹ سلگا نے کے لیے دوسری بار ماچس طلب کی۔
ماچس دیتے ہوۓ انہوں نے مجھ سے کہا ،یار اےےے توں ں ہی رکھ لے۔

وقت کے سمندر میں بے پتوار ڈوبتا تیرتا میں پتھر سے خاک ہوا۔ احمد مشتاق تو یاد سے محو ہو گئے ، مگر وہ منفرد شکل کی ماچس ایک دہائی کا وقفہ گزرنے کے بعد بھی حافظے میں محفوظ رہی۔احمد مشتاق سے ملاقات کے دس برس بعد جب عزیز دوست محمود الحسن نے اپنے موبائل پر ان کی تصویر دکھائی تو میں نے ماچس کی جزئیات سمیت احمد مشتاق سے اپنی ملاقات کا احوال اس سے بیان کیا۔

اس دوران احمد مشتاق کے ایک مجموعے سمیت ان کی کلیات کے دو ایڈیشن سنگ میل سے شائع ہوۓ۔ وبا کے دنوں میں پیارے دوست احتشام علی نے”دروازوں کے باہر چاندنی” کے ذریعے ہم سب کو احمد مشتاق کی شاعری سے متعارف کروایا۔عہد حاضر کے معتبر فکشن نگار اکرام اللہ  اورمحمد سلیم الرحمٰن جیسے باکمال بزرگوں نے احتشام کی کتاب پر مضامین بھی لکھے۔

وقت کا دریا بہتا رہا، زندگی کی بساط پر تیز چلنے کے باوجود کتاب ہمیشہ میری دوست رہی۔احمد مشتاق سے پہلی ملاقات کو بیس اوپر تین برس ہو چکے تھے۔میں موٹر وے پر ڈرائیو کرتے ہوۓ گاؤں جا رہا تھا موبائل فون کی گھنٹی نے گاڑی کی رفتار کم کرنے پر مجبور کیا۔دوسری طرف فون پر محمود الحسن کہہ رہا تھا ،اچھا سنو !احمد مشتاق پاکستان آۓ ہوۓ ہیں کچھ روز تک اسلام آباد سے لاہور پہنچ جائیں گے ان سے وقت طے کر کے دوستوں کی ملاقات کا اہتمام کروں گا۔

میرے کرم فرما اور سنگ میل کے کرتا دھرتا افضال احمد نے جب اپنے شو روم پر احمد مشتاق سے احباب کی ملاقات کے لیے ایک تقریب کا بندوبست کیا تو میں دعوت کے باوجود نجی مصروفیات کی وجہ سے نہ جا سکا۔

دوسرے روزمحمود الحسن نے فون پر دوپہر کے کھانے کی دعوت دیتے ہوۓ کہا ضرور پہنچ جانا، احمد مشتاق بھی آ رہے ہیں۔میں محمود کے گھر پہنچنے ہی والا تھا کہ اس نے دوبارہ فون کر کے قہقہہ  لگاتے ہوۓ کہا یار بیس سال پہلے تمھارے اور احمد مشتاق کے درمیان ماچس تھی اب کی بار لائٹر ہے وہ لائٹر گھر بھول آۓ ہیں تم کسی دوکان سے لیتے آؤ۔

میں محمود الحسن کے گھر پہنچا تو بھابھی دسترخوان پر انواع و اقسام کے کھانے سجانے میں مگن تھیں ندیم بیگ کا ہمشکل نوجوان وجاہت بیگ مسلسل احمد مشتاق کو دیکھنے میں مصروف تھا، عبداللہ اقبال چہرے پر دائمی مسکراہٹ سجاۓ بولنے سے گریزاں سننے میں دلچسپی رکھتا تھا۔وائس آف امریکہ کی اردو سروس سے وابستہ رانا آصف کراچی سے بطور خاص احمد مشتاق سے ملنے آیا ہوا تھا۔حسین نقی صاحب اور احمد مشتاق میں سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے بھٹو صاحب کے کردار پر جب گفتگو طول پکڑنے کے بعد بحث میں بدلنے لگی تو محمود کے اشارے پر میں نے زاہد ڈار اور فراز کا ایک آدھ لطیفہ سنایا۔

احمد مشتاق کا دیدار ہوا، کھانا کھایا۔تاریخ کے اوراق سے نقی صاحب نے چند ایسے واقعات بیان کیے ، جن کے وہ خود چشم دید گواہ تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

دوستوں سے ملاقات کے بعد جب میں نے محمود سے رخصت چاہی تو سوچ رہا تھا کہ وقت کے دریا میں چند برسوں کی اہمیت ہی کیا ہے۔کیا پتا کہ احمد مشتاق سے اگلی ملاقات پر بات ماچس اور لائیٹر سے ہوتے ہوۓ سگریٹ تک جا پہنچے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply