بیس اوپر ایک سال پہلے میں نے سالم علی کا تذکرہ قرۃ العین حیدر کی کتاب شاہراہ حریر میں پڑھا تھا۔ “ڈون ویلی کا گمنام طائر وہ ایک بہت ہی خوش آواز پرند ہ ہے جو وادی دہرہ دون کے← مزید پڑھیے
بڑے دن کی شام سے ایک رات پہلے اپنے بستر پر نیم دراز صوفیہ لورین کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔برسوں پرانی نسل در نسل خدمتگار نے کافی کی پیالی میز پر رکھتے ہوۓ مادام صوفیہ کو شب بخیر← مزید پڑھیے
خداۓ سخن میرصاحب نے رات کو جوانی سے تعبیر کیا تھا۔ رات بہت تھے جاگے۔۔۔۔ رات یعنی جوانی ہنگاموں،یارانوں اور میخانوں میں بسر ہوئی۔ مگر رات نجانے کیوں پلک جھپکتے ہی گزر جاتی ہے اور نمود سحر کے ساتھ بدن← مزید پڑھیے
زندگی کی لذتوں سے آشنا ایک خوبرو نوجوان نے نیم بیہوشی کے عالم میں سوچا وہ ایک روشن اور زندگی سے بھر پور صبح تھی۔ اور اب۔ ۔ برقعے کے اندر اپنی ہی قے کی بُو سے مجھے سانس لینے← مزید پڑھیے
دوسری عالمی جنگ کے دوران بھی پیرس کے کیفے سرگوشیوں میں ہونے والی گفتگو،گلاسوں کی کھنک اور قہقوں کی گونج سے آباد تھے ۔فروری 1943 کی وہ دوپہر، نرم دھوپ کی کثافت لیے بدن میں عجب سی ہلچل برپا کر← مزید پڑھیے
آئی۔سی۔ایس افسر کے گھر پیدا ہونے والی سلمیٰ احمد نے نگر نگر کی خاک بھی چھانی مگر طرفہ تماشا یہ کہ ہر قدم کے بعد گھر کا راستہ بھولنے میں بھی ماہر تھیں۔ مری کانونٹ سے تعلیم حاصل کرنے والی← مزید پڑھیے
پتی بھگت بانو آپا لاہور شہر میں”داستان سراۓ”کے نام سے کچھ عرصہ پہلے تک ایک گھر موجود تھا مجھ جیسے تازہ واردانِ بساط ادب ایک زمانے میں اس کے سامنے سے گزرتے ہوۓ کن اکھیوں سے آدھ کھلے گیٹ کے← مزید پڑھیے
احمد بشیر ایک ہنگامہ خیز شخصیت کے مالک تھے حکمران وقت سے لے کر عالم ِ دین تک کے ساتھ وہ چونچیں لڑا کر خوش ہوتے ،ان کو متنازع بننے کا تو ہرگز کوئی شوق نہیں تھا مگر وہ اپنے← مزید پڑھیے