تحریک انصاف کی ٹکٹیں اور کارکن ۔۔۔ سہیل خان

پاکستان تحریکِ انصاف کی ٹکٹوں کی  تقسیم کو لے کر کچھ پرانے لوگ اتنے جذباتی ہوئے ہیں کہ لگتا ہے کہ شاید فوت ہی ہو جائیں۔ چند باتیں ہیں، اگر تو آپ میں یا آپ کے پسندیدہ پرانے امیدوار میں وہ خوبیاں ہیں تو پھر واقعی جذباتی ہونا اور احتجاج کرنا بنتا ہے۔ لیکن، اگر آپ صرف اس وجہ سے خود کو ٹکٹ کا اہل سمجھتے ہیں کہ آپ چار پانچ سال سے لوکل گیدرنگز میں آ جا رہے ہیں، عمران خان یا ٹاپ لیڈر شپ کے ساتھ کچھ تصویریں اور چند سلفیاں اپنی فیسبک پر اپلوڈ کر چکے ہیں اور آپ کے فیسبک سٹیٹس پر سینکڑوں لائکس اور چند کومنٹس آ جاتے ہیں، تو آپ سے بڑا احمق شاید ہی کوئی اور ہو۔

وہ خوبیاں یا زمینی حقائق کیا ہیں، اب ان کو بھی دیکھ لیتے ہیں۔

1۔ اگر آپ کا پسندیدہ امیدوار پچھلے الیکشنز میں جیت ہی نہیں سکا اور ٹھیک ٹھاک ہزاروں کے مارجن سے ہار گیا تو اب کی بار اس نے ایسا کیا کر لیا ہے اپنے حلقے میں کہ پچھلی بار سے ڈبل ووٹ اس بار لے  گا؟

یہ بات یاد رکھیں کہ 2013 میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کی اکثریت بالکل نئی تھی، اور جو ووٹ کاسٹ ہوا وہ صرف اور صرف پی ٹی آئی اور عمران خان کو کاسٹ ہوا نہ کہ آپ کے پسندیدہ امیدوار کو۔ اگر اس بار آپ کے حلقے سے کوئی مضبوط سیاسی انٹری پی ٹی آئی میں ہوئی ہے تو یقیناً اس کے ساتھ ہزاروں ووٹر بھی خاموشی سے پی ٹی آئی میں آ گئے ہیں جو کبھی بھی آپ کے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ نہیں دیں گے بلکہ اس سیاسی شخصیت کو دیں گے جس کے پاس اب پی ٹی آئی کا ٹکٹ ہے۔ اور ظاہر ہے پی ٹی آئی کا جینوئن کارکن بلے کے  نشان پر ہی ووٹ کاسٹ کرے گا، اس لیے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر اس میں زنانیوں کی طرح بین کرنے کی بجائے میدان میں آئیں اور الیکشن کمپین شروع کریں۔ آپ کو ٹکٹ دے کر ہارنے کی بجائے ایک نووارد کو ٹکٹ دے کر سیٹ ، عزت اور حکومت بنانا بالکل بھی گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔

2۔ پرانے اور نئے کارکن کی اصطلاح پی ٹی آئی میں اتنی عام ہو گئی ہے کہ شاید نئے آنے والے یا تو انسان نہیں ہیں یا پھر پارٹی پر پرانے لوگوں کی اتنی اجارہ داری ہے کہ نئے آنے والوں کو ایک شودر کی طرح ٹریٹ کرنا ہے، یہ بات آپ بھول جاتے ہیں کہ آپ پیدائشی یوتھیے  نہیں تھے، آپ بھی کسی دن پارٹی میں نئے آۓ تھے۔

3۔پرانے کارکنوں کے احتجاج سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نئے آنے والے چاہے سیاسی حیثیت میں آپ سے کتنے ہی بہترکیوں نہ ہوں لیکن رہنا ان کو ہمیشہ آپ سے کمتر عہدوں پر ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھیں کہ تحریک انصاف ایک سیاسی پارٹی ہے، اس میں کوئی بھی کبھی بھی آ بھی سکتا ہے اور جا بھی سکتا ہے۔ نئے آنے والے امیدوار کی سیاسی حیثیت اور اسکی پاکستان میں مضبوط جمہوریت کے لیے  کی گئی ورکنگ اور قربانی دیکھی جائے گی، نا کہ پی ٹی آئی کے لیے۔ اس لیے آپ پی ٹی آئی کو سیاسی جماعت ہی رہنے دیں اس کو اپنے محلے کی کسی خاص مسلک کی مسجد کمیٹی نہ  بنائیں۔ ورنہ آپ تو جہاں ہیں وہیں رہیں گے لیکن پارٹی آپ کی خوشی کی قیمت پر مزید پانچ سال انتظار نہیں کر سکتی۔

Advertisements
julia rana solicitors

4۔ یہ بات بجا ہے کہ آپ پارٹی کے ساتھ اس وقت سے کھڑے ہیں جب اس پر آج سا عروج نہیں تھا، لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ آپ کی سیاسی سٹرگل میں آ جا کر دو دھرنے ہی ہیں، آپ پی پی پی اور مسلم لیگ نواز کے کارکنان کے ساتھ الجھے ضرور ہیں لیکن آپ نے نہ تو انکی طرح(اتنی تعداد میں) جیلیں دیکھیں ہیں اور نہ ہی اتنی ماریں کھائیں ہیں۔ اس لیے اگر حالات و واقعات نے آپ کی پارٹی کو یہ موقع دیا ہے کہ صرف عرصہ سات سال میں وہ ملک پر حکومت کرنے جا رہی  ہے تو اس بات پر اللہ کا شکر ادا کریں۔ اس بار ہمارا مقصد جیسے تیسے الیکشن جیتنا ہے جو کہ آپ کے بس کی بات نہیں۔ اگر ہم الیکشن جیت جاتے ہیں تو صرف یہی فرق پڑے گا کہ آپ ایم پی اے یا ایم این اے نہیں ہوں گے، باقی یقین مانیں حکومت آپ ہی کی ہو گی۔ اس لیے اپنے پارٹی امیدوار کی جڑیں کاٹنے کی بجائے اس کے ہاتھ مضبوط کریں۔ تاکہ جس مقصد کے لیے آپ آج تک پٹواری خانے سے لڑتے ہیں وہ پورا ہو، نہیں تو پھر فیس بک کا وزیراعظم تو عمران خان ہے ہی!

Facebook Comments

سہیل خان
میں پیشہ ور مصنف نہیں ہوں. امید ہے کہ آپ میری تحریر پسند آئے گی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply