امبیڈکر/عامر حسینی

وہ صدر میں کتابوں کے لگے اتوار بازار سے ایک اسٹال پر امبیدکر کی تصویر والے سر ورق کے ساتھ کتاب کو دیکھ کر اتنا پُرجوش ہوا کہ کتاب کا نام دیکھنا بھول گیا، اس نے نہ مصنف کا نام دیکھا اور نہ ہی سودے بازی کی،جتنے پیسے مانگے گئے، فوری کھیسے سے نکالے اور دے دیے۔
جب وہ ہوٹل میں اپنے کمرے میں پہنچا اور اب اس نے اطمینان سے سرورق پر کتاب کا نام پڑھا تو ایک دم اسے جیسے جھٹکا لگ گیا تھا:
Worshipping False Gods
Ambedkar , and the facts which have been erased
پہلے پہل تو اسے یقین نہ آیا۔ اسے اپنی آنکھوں کے دیکھے پر شبہ ہوا، اس نے آنکھیں مل مل کر دیکھا ، عنوان وہی تھا جو اس کی آنکھیں اسے پڑھا رہی تھیں۔

اس نے کتاب کو میز پر رکھ دیا اور العقد الفرید کی تلخیص پر مبنی کتاب کی ورق گردانی کرنے لگا ۔ لیکن ایک بے چینی سی لگی تھی ، نظریں بار بار اس کتاب کے سرورق کی طرف پلٹ جاتی تھیں، اس نے العقد الفرید کی تلخیص ایک طرف کی اور ارون شوری کی کتاب کو کھول کر پڑھنا شروع کردی:
“ایک قوم جو اپنے تخیلات میں دیوی دیوتاؤں کی تصاویر بناتی، اپنے مقدس ادب میں ان کی تصویر کشی کرتی اور پتھروں اور لکڑیوں پر انھیں کندہ کرتی ہے، وہ شکلیں جو اِن کو وہ دیتی ہے، قوتیں جو یہ رکھتی ہے ان کو ان میں مجسم کرتی ہے ، وہ خوبیاں جن سے یہ بہرہ ور ہے یہ ان دیوی دیوتاؤں کے نام کرتی ہے اور یہ سب دیوی دیوتا اس قوم کے اجتماعی تجربے کی جھلک دکھاتے ہیں ، اس قوم کے دیکھنے والوں کی بصیرتوں کا عکس ہوتے ہیں ۔جب اس قوم کو جسمانی طور پر مغلوب کرلیا جاتا ہے ،جب اس کی روحانیت اور دانشوری غائب ہوجاتی ہے تو اسے بدلنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور بزور یہ اصل میں عوامی مقامات سے ان دیوی دیوتاؤں کو ہٹاکر نجی رہائش گاہوں کے کیبنوں میں رکھ دیے جاتے ہیں ، اور وہاں سے ان کو الماریوں میں بند کردیا جاتا ہے۔ جلد ہی اسے ان دیوی دیوتاؤں پر شرمندہ ہونے کا احساس دلایا جاتا ہے، اور بتدریج یہ اپنے دیوی دیوتاؤں، اپنی روایات ،اس کی خود اپنی تاریخ اور تجربے کی نفی کرنے  لگتی ہے اور پھر فاتحین کے دیوتاؤں کو پوجنے لگتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ سلسلہ شمالی ہندوستان میں چودھویں، پندرہویں صدی میں پورے جوبن پر تھا، اور یہ عمل اپنی تکمیل کو پہنچ جاتا اگر بھگتی تحریک ملک کو بچا نہ لیتی ۔ 19ویں صدی میں اس عمل نے پھر زور پکڑنا شروع کردیا تھا۔ مسیحی مشنریاں، میکالے سب اس عمل کے پیش رو تھے  ۔۔ دھرتی ماں کو سوامی دیانند، رام کرشنا،پرمہمسا، سوامی وویکانند ، سری اربندو،نارائن گرو ،بنکم چیٹر جی اور دیگر نے ڈوبنے سے بچایا۔۔۔۔۔  گاندھی ہر روز کٹہرے میں کھڑے ہوتے ہیں اور امبیدکر جیسے یہاں دیوتا بنا دیے گئے ہیں ۔۔  حقیقت میں ان دنوں کسی کی اتنی عظمت بیان نہیں کی جاتی جتنی امبیدکر کی کی جاتی ہے،  پارلیمنٹ کے کمپلیکس میں یہ بڑا مجسمہ امبیدکر کا نصب ہے۔ پارلیمنٹ کے مرکزی ہال میں ایک  دیوار پر بڑا سا پورٹریٹ ٹنگا ہوا ہے” ۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply