شیطان۔۔سیّد محمد زاہد

شیطان/دادی اور پوتی، دونوں نے عمرو کا استقبال بھرپور طریقے سے کیا۔ ہدایت کے عین مطابق وہ سیدھا ادھر ہی آیا تھا۔ بڑھیا اپنے رشتہ داروں سے چھپانا چاہتی تھی کہ اس نے کسی بہادر جوان کو مدد کے لیے بلایا ہے۔ اسی لیے وہ شام کی ٹرین سے آیا۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی۔ بادلوں سے گرتی دھند نے ہر منظر نگل لیا تھا۔ سر شام اندھیرا ہر چیز پرچھا گیا تھا۔ شمالی برف پوش پہاڑوں کی ٹھر سے لدی ہواؤں نے لوگوں کو کمروں تک محدود کر دیا تھا۔ سردی ہڈیوں کو چیر کر پار گزرتی جا رہی تھی۔ وہ اوورکوٹ پہنے سر جھکائے سنسان گلیوں کو تیز تیز پار کرتا یہاں پہنچا تھا۔

پستہ قد، زرد رو، گول مول بڑھیا اور جواں سالہ پوتی اسے اپنے بیچ پا کر بہت خوش تھیں۔ بڑھیا نے مشکلات سے آگاہ کیا۔ عمرو نے تمام باتیں غور سے سنیں اور انہیں اطمینان دلایا کہ وہ دشمنوں سے نمٹ لے گا۔ بولا ”اب خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ آپ آرام کریں صبح کام کا آغاز کریں گے۔“

”میں نہیں چاہتی کہ کسی کو تمہاری یہاں موجودگی کا پتا چلے۔ تمہیں سارے کام رات میں ہی مکمل کرنا ہوں گے ۔ مجھ میں ہمت نہیں، صدف تمہاری مدد کرے گی۔“ بڑھیا یہ کہتے ہوئے کمرے سے باہر چلی گئی۔ صدف سر جھکائے کھڑی تھی۔ وہ دوشیزگی اور نسائیت کی درمیانی منزل طے کرتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں اس دراز قد ہینڈسم مرد کو دیکھ کر چمک پیدا ہو گئی تھی۔ بڑھیا کے نکلتے ہی وہ اس کی طرف دیکھ کر بولی۔

”آؤ، میں تمہیں کام سمجھاتی ہوں۔“

تہہ خانے میں اندھیرا تھا۔ وہ مشعل اٹھائے آگے چل رہی تھی۔ سیڑھیاں اترتے ہوئے اس کی لچکیلی کمر کی نرم خمیدگی ریشمی کپڑوں کے اندر سے نمائش کر رہی تھی۔ عمرو نے ہاتھ اپنے اوورکوٹ کے لمبی جیب کے اندر گھسیڑ لیا۔ ادھر ادھر دیکھا ایک سایہ سا اس کے ساتھ چل رہا تھا جسے دیکھ کر اس کے بدن میں برقی رو کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اس نے جیب سے ہاتھ باہر نکال لیا۔

تہہ خانے میں بہت سی الماریاں اور تجوریاں پڑی ہوئی تھیں۔

وہ کہنے لگی ”نوادرات اور حساب کتاب ان الماریوں میں ہے۔ تجوریوں کی چابی دادی اماں کے پاس ہے ان کے بارے میں وہی بتائیں گی۔“

عمرو ایک ایک کر کے الماریاں کھولنے لگا۔ انتہائی قیمتی نوادرات دیکھ کر اس کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔

صدف بولی ”تمہاری بہادری اور ایمانداری کی بہت تعریفیں سنی ہیں۔ ہمارا خاندانی محافظ بھی تمہارے بارے میں مثبت خیالات رکھتا ہے۔ ہم اس خزانے کو محفوظ کر لینا چاہتے ہیں۔ کافی نقصان ہو چکا ہے۔ مزید برداشت نہیں کر سکتے۔“

عمرو بولا ”مگر اس میں جلدی کون سی ہے؟ ہم کھڑے کیوں ہیں؟ یہاں تو بیٹھنے والی جگہ بھی نہیں۔“ اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ دور ایک کرسی پڑی ہوئی تھی۔ وہ اٹھا کر لے آیا۔ ”تم ادھر بیٹھ جاؤ اور مجھے اپنے بارے میں کچھ بتاؤ۔ ہم ایک دوسرے کے بارے میں باتیں کرتے ہیں۔ اس خزانے کو چھوڑو، اپنا ذکر کرو۔ میرے بارے میں پوچھو۔ ہم اپنے راز کھول دیں۔ شاید ہم دوست بن جائیں۔“

صدف تجوریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی ”ہم ان کے بارے میں زیادہ متفکر ہیں۔ تم کام شروع کرو۔ دادی اماں کچھ دیر آرام کر لیں تو میں انہیں لے کر نیچے آ جاؤں گی۔“

یہ کہہ کر واپس چل پڑی۔

وہ مڑی تو عمرو نے گہرا سانس لے کر ہاتھ اوورکوٹ کی جیب میں ڈال لیا۔ اس کے چہرے پر عجیب قسم کے جذبات کا جمگھٹا نظر آ رہا تھا۔ صدف نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا ہی تھا کہ عمرو ہاتھ جیب سے نکال کر اس کی طرف لپکا۔ خنجر ہوا میں چمکا اور اس کی نرم و نازک کمر میں پیوست ہو گیا۔

وہ لڑکھڑا کر گری۔ کچھ دیر تڑپتی رہی پھر ٹھنڈی ہو گئی۔

لاش سامنے پڑی تھی۔ کمرے میں مکمل خاموشی تھی۔ وہ سیڑھیوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ شور ہوا تھا لیکن بادلوں کی گرج اور بارش کی آواز میں دب گیا تھا۔ وہ سیڑھیاں پھلانگتا ہوا اوپر آیا۔ بڑھیا اپنے کمرے میں سو رہی تھی۔ اس نے وہی خنجر اس کے سینے میں بھی گھونپ دیا۔

کچھ دیر وہیں بیٹھا رہا پھر کمرے کو الٹ پلٹ کرنا شروع کر دیا۔ وہ دن چڑھنے سے پہلے یہ گھر چھوڑ دینا چاہتا تھا۔ تجوریوں کی چابیاں نہیں مل رہی تھیں۔ جوں جوں رات ڈھل رہی تھی خوفناک خیالات دماغ میں بسیرا کر رہے تھے۔ صبح ہوتے ہی ملازمین نے حویلی میں آنا شروع کر دینا تھا۔ سب سے پہلے اسی خاندانی چوکیدار نے آنا تھا جس نے اس کا تعارف کروایا تھا۔ وہ اس سے پہلے ہی واپس جانا چاہتا تھا۔

وہ جدھر بھی جاتا ایک سایہ اس کے ساتھ چلتا جا رہا تھا۔ وہ اس سے خوف زدہ بھی نہیں تھا۔ یہ اس کا وہم تھا جو ہمیشہ ہی اس کے ساتھ رہا تھا۔ بارش تیز ہو گئی۔ اس کا شور اتنا زیادہ تھا کہ عمرو کو اس میں سے مختلف آوازیں سنائی دینے لگیں۔ قدموں کی چاپ، لوگوں کی بھنبھناہٹ، یوں محسوس ہو رہا تھا کہ گھر میں کچھ اور لوگ بھی موجود ہیں۔ وہ جدھر جاتا لوگ اس کے دائیں بائیں آگے پیچھے چل رہے ہوتے۔ اوپر والی منزل سے بھی لوگوں کے چلنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ بھاری بوٹوں کی آوازیں جیسے سپاہی قدم سے قدم ملا کر چل رہے ہوں۔ زنجیروں کی جھنجھناہٹ، بندوقوں کے کھڑکنے اور گولیوں کی چلنے کی آواز۔ پھر یوں لگا جیسے کوئی اس کا نام پکار رہا ہے۔

”عمرو! حاضر ہو۔“

اندیشے اور وسوسے اس پر قبضہ جما رہے تھے۔ اس کا سر گردن کے اوپر ہر طرف گھوم رہا تھا۔ آنکھیں ہر سمت پھر رہی تھیں۔ کچھ بھی نہیں تھا۔ سب اس کا وہم تھا۔ جیب سے چٹکی بھر سفید پوڈر نکالا اور سونگھنا شروع کر دیا۔ سر جھٹکا اور چابیاں تلاش کرنے لگا۔ ایک گچھا ملا تو بھاگ کر تہہ خانے میں پہنچ گیا۔ لاش کے گرد خون جم چکا تھا۔ مشعل کی روشنی کم پڑ چکی تھی۔ کمرے میں ہر چیز پر سرخی چھائی ہوئی تھی، خون کی سرخی۔ لاش کو پھلانگنا مشکل تھا۔

سیڑھیوں کی گرل کو پھاند کر نیچے اترا۔ تجوریوں میں ایک ایک کر کے کنجیاں لگانی شروع کیں۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا اور کوئی تجوری نہیں کھل رہی تھی۔ یہ تکلیف دہ امر تھا۔ پریشانی سے اس کے ہاتھ سے گچھا چھوٹ گیا۔ اٹھانے لگا تو سیڑھیوں پر قدموں کی چاپ سنائی دی۔ خوف زدہ ہو کر ادھر دیکھا تو کوئی بھی نہیں تھا۔ وہی سایہ تھا جو اور زیادہ واضح ہوتا جا رہا تھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ رگوں میں خون جم گیا۔

سائے نے بولنا بھی شروع کر دیا۔ ”عمرو، عمرو! تمہیں میری مدد چاہیے۔“
”کون ہو تم؟“ عمرو چلایا۔
اس نے سوال کا جواب دینے کی بجائے اپنی بات جاری رکھی۔
”دن کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ ملازم آئیں گے اور پھر لوگ جمع ہو جائیں گے۔ تم پکڑے جاؤ گے۔“
عمرو نے پھر پوچھا ”تم کون ہو اور کیا مجھے جانتے ہو؟“

”ہاں، ہاں! تمہیں کون نہیں جانتا؟ اور میں، میں تو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہا ہوں۔ تمہاری کامیابیاں میری ہی مرہون منت ہیں۔“

عمرو کھڑا ہو گیا۔ تعجب آمیز انداز میں اسے دیکھنے لگا۔ شاید یہ فریب نظر تھا اور کان بھی اسے دھوکا دے رہے تھے۔ مگر نہیں، وہ پوری جسامت سے اس کے سامنے کھڑا تھا۔ پھر اسے شک ہونے لگا کہ وہ سایہ ہے یا پیکر، ہیولا ہے یا کوئی بھوت پریت۔ دوسرے ہی لمحے وہ عام انسان کی طرح نظر آ رہا تھا۔ وہ بالکل عام انسانوں کی طرح پوچھ رہا تھا۔

”تم دولت ڈھونڈ رہے ہو؟ نوادرات اور قیمتی اشیا چرانا چاہتے ہو؟ میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں۔“

عمرو خوفزدہ ہو گیا۔ بولا ”مجھے تمہاری مدد کی ضرورت نہیں۔ میں اب جا رہا ہوں۔ سب کچھ ادھر ہی چھوڑ کر اور تمہیں بھی۔ ان قتلوں کا الزام تم پر آئے گا۔ خدا کا شکر ہے کہ تم مجھے نہیں جانتے۔ پکڑے جانے کی صورت میں تم میرا نام نہیں لے سکو گے۔“

وہ بولا، ”یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔ میں ان معصوم انسانوں کی طرح نہیں جو تمہیں نہیں پہچانتے۔ میں تمہیں باطن تک جانتا ہوں۔“

عمرو پریشان ہو کر واپس مڑا ”تم مجھے کیسے جانتے ہو؟ میری زندگی مجھ پر عیاں نہیں۔ میں نے تو ہمیشہ خود کو بھی خود سے چھپایا ہے۔ میں زندگی کے ہر دور میں رنگ بدلتا رہا ہوں۔ میں جا رہا ہوں۔ تمہیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں۔ مجھے تمہاری کسی مدد کی ضرورت نہیں۔“

یہ سن کر وہ ہنسنے لگا۔ عمرو اس کی دیکھتے جا رہا تھا۔ پھر چلا کر کہنے لگا ”تم مجھے شیطان لگتے ہو۔ تم نے ہی مجھے بہکا کر یہ قتل کروائے ہیں لیکن میرے اس جرم کی کوئی شہادت موجود نہیں۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ یہ ٹھوس دیواریں زندہ جاوید ہو کر اس جرم کو فاش کر دیں۔ میرے یہاں آنے کی کسی کو خبر نہیں۔ کسی کو مجھ پر شک بھی نہیں ہو گا۔ میں اپنے خدا سے معافی مانگ لوں گا۔ میں توبہ کر لوں گا۔“

یہ کہہ کر عمرو تہہ خانے سے باہر آ گیا۔ صبح کاذب کا اندھیرا نور کے تڑکے میں بدل رہا تھا۔ آہستہ آہستہ ہر طرف سرخ روشنی پھیل رہی تھی۔ وہ بھی عمرو کے پیچھے آ گیا۔ عمرو باہر جانے لگا تو اسے دروازے پر کھٹ کھٹ کی آواز سنائی دی۔ چوکیدار آ گیا تھا۔ وہ واپس کمرے میں آ گیا۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ وہ خاموشی سے سوچنے لگا۔ ادھر ادھر دیکھا روشنی کے پھیلتے ہی ہیولے کی ہیئت بھی تبدیل ہونے لگی تھی۔ نقوش مدھم پڑنا شروع ہو گئے اور وہ غائب ہو گیا۔ اس کا خوف ختم ہو گیا۔ دستک دوبارہ ہوئی اور کچھ دیر کے بعد قدموں کی چاپ سے چوکیدار واپس جاتا محسوس ہوا۔ کھڑکی سے باہر جھانکنے لگا۔ چوکیدار بیرونی گیٹ کے پاس جا کر زمین پر بیٹھ گیا تھا۔ بارش تھم چکی تھی۔ سورج طلوع ہونے میں ابھی وقت تھا۔ دور دور تک کوئی بندہ بشر نظر نہیں آ رہا تھا۔

وہ بھی ایک کرسی پر بیٹھ کر سوچنے لگا۔ کچھ دیر کے بعد اٹھا۔ پچھلی کھڑکی کھول کر دیکھا۔ پائیں باغ میں ابھی اندھیرا ہی تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ادھر سے بھاگ جائے کہ دروازے پر پھر دستک ہوئی۔ اب وہ بالکل خوفزدہ نہیں تھا۔

اس نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔
محافظ اندر داخل ہو کر پوچھنے لگا کہ تم کب آئے؟

اسے پکا یقین ہو گیا کہ بڑھیا اور اس کی پوتی نے کسی سے اس کا ذکر نہیں کیا۔ محافظ کمروں کی طرف چل پڑا۔ جونہی پشت عمرو کی طرف ہوئی اس نے خنجر نکال کر حملہ کر دیا۔ وہ ڈھیر ہوا تو وہی جھولتا ہوا سایہ اس کے سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا۔

وہ بھی مسکرانے لگا۔
سایہ بولا ”تم صحیح کہہ رہے تھے، اب تمہیں میری کوئی ضرورت نہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

(ماخذ)

Facebook Comments

Syed Mohammad Zahid
Dr Syed Mohammad Zahid is an Urdu columnist, blogger, and fiction writer. Most of his work focuses on current issues, the politics of religion, sex, and power. He is a practicing medical doctor.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply