شادی اور ون ڈش کی پابندی/سیّد محمد زاہد

آج کل پاکستان میں شادیوں کا سیزن چل رہا ہے۔ خاندانوں کی زندگی میں شادی سب سے اہم موقع ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں شادی صرف دو افراد کے نکاح کا نام نہیں بلکہ دو خاندانوں کے لٰیے مسرت کا وہ موقع ہے جس کا انہوں نے شاید سالوں انتظار کیا ہو۔ شادی کی تیاری میں سال ہا سال لگتے ہیں۔ رشتہ دار اور دوست احباب مہینوں اس کا اہتمام کرتے ہیں۔ رشتہ ڈھونڈنے سے لے کر دلہن کے پیا گھر سدھارنے تک بے شمار رسومات ادا کی جاتی ہیں اور ان میں سینکڑوں لوگ حصہ لیتے ہیں۔ شادی کی بڑی تقریبات مہندی، بارات اور ولیمہ ہوتی ہیں۔ یہ تقریبات شہروں میں زیادہ تر رات کے وقت ہوتی ہیں۔ رات کی شادی کاروا ج بہت پرانا ہے۔

زمانہ قدیم کے یونانی سردیوں کی رات میں شادی کرنا پسند کرتے تھے۔ جنوری کا مہینہ ان کا پسندیدہ تھا۔ یہ ہیرا دیوی اور زیوس کی شادی کی وجہ سے متبرک گنا جاتا تھا۔ یونانی پورے چاند کی راتوں کو شادی کرنا زیادہ اچھا سمجھتے تھے۔ ان کی شادیاں دیر تک چلتی تھیں۔ رات کی شادی میں سب سے بڑا مسئلہ وقت کا زیادہ ہو جانا ہوتا ہے ۔ ہمارے ہاں باراتیں اکثر لیٹ ہوجاتی ہیں۔
ہماری حکومت نے وقت رات دس بجے تک مقرر کر رکھا ہے۔

بارات اکثر آٹھ بجے کے بعد آتی ہے، ابھی نکاح یا کھانا جاری ہوتا ہے کہ حکومتی نمائندے یا شادی ہال والے باہر کا راستہ دکھانا شروع کر دیتے ہیں۔ رخصتی خاندانوں کے لیے جذباتی موقع ہوتا ہے اور اس وقت لوگ لڑکی والوں کی عزت افزائی اور حوصلہ افزائی کے اقدامات کرتے ہیں۔
شہزادہ سلیم جب راجہ بھگوان داس کی بیٹی کو بیاہنے گیا تو عظیم مغل شہنشاہ اکبر اور دلہا خود ڈولی ا ٹھا کر لائے۔

ہماری شادیوں میں اکثر دیر ہوجانے کی وجہ سے یہ رسم بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ شادی کا مطلب صرف نکاح یا رخصتی نہیں ، ہمارے لیے یہ سالوں بعد ملی خوشی منانے کا موقع اور ماں باپ کے سال ہا سال سے دیکھے خوابوں کی تعبیر کا وقت ہوتا ہے۔ یہ حکومتی حکم نہ صرف ہماری خوشیوں کے رنگ میں بھنگ ڈال دیتا ہے بلکہ ماں باپ کے خوابوں کوبھی چکنا چور کر رہا ہے۔

یونانیوں کی شادی کی تقریبات تین دن چلتی تھی۔ وارث شاہ نے لکھا ہے کہ ہیر کی بارات کئی دن ٹھہری تھی۔ باراتیوں کی خوشی کے لیے ان دنوں میں مختلف قسم کے پروگرام ہوتے تھے جو دونوں خاندانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں مدد گار ہوتے۔ قدیم یونان میں بھی دلہے والے دلہن کے لیے بہت سے تحائف لاتے تھے اور گانے ڈانس اور کھیلوں میں مقابلہ کر کے لڑکی والوں کا دل جیتتے تھے۔ ان کے کھانے بہت بڑے بڑے ہوتے جن میں گوشت، دودھ، سبزیاں، شراب، مچھلی سب شامل ہوتا تھا۔

مسلمانوں کے ابتدائی دور میں ولیمہ کی بڑی دعوتوں کا ذکر ملتا ہے۔ حضرت عبدالرحمان بن عوف کے ولیمہ میں مختلف قسم کے کھانے پیش کیے گئے۔ خلیفہ مامون الرشید کی بوران (یا خدیجہ) بنت الحسن گورنر ایران سے شادی عباسی دور کی اہم شادی گنی جاتی ہے۔ ابن خلدون کے مطابق مامون الرشید نے اس کو ایک ہزار قیمتی پتھر ‘روبی’ تحفہ میں دیے۔ اس شادی پر دلہن کے باپ کے ایک سو چالیس خچر پورا سال دن میں تین بار لکڑی جنگل سے لے کر آتے رہے یہ تمام لکڑی صرف ایک دن کا بارات کا کھانا پکانے کے کام آئی۔

وارث شاہ نے پنجاب کی باراتوں کے کھانے سینکڑوں کی تعداد میں لکھے ہیں۔ جس میں طرح طرح کی مٹھائیاں، گوشت، دودھ، دالیں، چاول، پھل شامل تھے۔ شادی کی دعوت کے ان کھانوں کی ایک خصوصی اہمیت ہے اور ان کے متعلق بھی صدیوں سے لکھا جا رہا ہے۔

آٹھ سو سال قبل مسیح کا لکھاری ہیسویڈ ایک اچھے کھانا کا بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے۔ اس میں دہی، بکریوں کا دودھ، ایسی بچھیا کا گوشت جو کہ جنگلات میں پلی ہو اور جس نے کبھی بچہ نہ جنا ہو، اور مجھے صاف چمکدار شراب بھی دو۔ اور ایسا بکرا جو ماں نے پہلی بار جنا ہو۔

قدیم یونانی مصنف پلوٹارک اپنی تحریر ٹیبل ٹاک میں سوال پوچھتا ہے کہ لوگ دوسری دعوتوں کی نسبت شادیوں میں زیادہ مہمان کیوں بلاتے ہیں؟ وہ لکھتا ہے کہ اس کے بیٹے کی شادی میں ایک مہمان کیرونیا نے یہ سوال اٹھایا۔ وہ کہتا ہے، “حالانکہ یہ سچ ہے کہ شاہانہ خرچوں کے خلاف مہم چلانے والے قانون ساز مہمانوں کی تعداد پر پابندی لگانے کی بات کرتے ہیں۔”

دوسرا مہمان سینیسو جواب دیتا ہے، “فلاسفر ہیکاٹیس کا خیال ہے کہ یہ لوگ جم غفیر اس لیے اکٹھا کرتے ہیں کہ بہت سے لوگ یہ گواہی دیں کہ میزبان خود بہت اچھے انسان ہیں اور دلہا دلہن اچھی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔”
وہ مزید لکھتا ہے,،
“جب ہم دیوتاؤں کے حضور قربانی دیتے ہیں، مہمانوں کو رخصت کرنے کی دعوت کرتے ہیں یا پھر باہر سے آنے والے مہمانوں کو کھانا کھلاتے ہیں ممکن ہے ہمارے بہت سے ہمسایوں اور رشتہ داروں کو خبر بھی نہ ہو۔ لیکن شادی کی دعوت میں شہنائیوں، روشنیوں اور شور و دھوم دھماکے کے ساتھ اعلیٰ ضیافت سے کوئی بھی بے خبر نہیں رہتا۔ ان دعوتوں میں ہم دور دراز کے رشتہ داروں واقف کاروں اور تعلق داروں کو بھی ضرور بلاتے ہیں۔”

تمام سننے والے اس کے جواب کو پسند کرتے ہیں۔ تھیون آخری کلمات ادا کرتا ہے،
“یہ بھی اضافہ کر لیں کہ یہ ضیافتیں صرف دوستانہ تفریح نہیں بلکہ اہم خاندانی مواقع ہیں۔ جب نئے لوگ خاندان میں شامل ہو رہے ہوتے ہیں، دو گھروں کا نیا اتحاد بن رہا ہوتا ہے تو ہر سسر یہ اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے کہ دوسرے کے دوستوں اور رشتہ داروں کو احترام دے اور ان کی اچھی طرح خدمت کرے۔”
پوری دنیا میں ہمیشہ سے شادی کے یہ کھانے خاندانوں کے لیے باعث عزت جانے جاتے ہیں۔ پنجابی کی کہاوت ہے،
“سب سے عزت دار وہ ہے جس کا دسترخوان بڑا ہے۔”
ہیروڈس لوگوں کی پہچان کرنے میں ان کی دعوتوں اور کھانوں کو بھی زیر نظر رکھتا تھا۔

یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ شادی کی سب سے اہم رسم مہمانوں کا کھانا ہے۔ صدیوں سے تمام اقوام میں اس کا روا ج رہا ہے۔ اس کو بڑھا چڑھا کر سجاوٹ سے پیش کیا جاتا رہا ہے۔ شادی کی دعوت میں ہمیشہ سے کھانے کے کورس چلتے رہے ہیں اور یہ کئی کئی گھنٹوں تک جاری رہتے تھے۔ سو شادی کی دعوت کسی بھی خاندان کے لیے تمام تقریبات میں سب سے اہم ہوتی ہے۔
ہمارے ملک میں کچھ عرصہ سے اس پر طرح طرح کی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ کرایسیپس کو بقول بہترین کھانا وہ ہے جو آزادی سے کھایا جائے۔ ان پابندیوں کی آڑ میں حکومتی اہلکار میزبانوں کو مقدمہ، جرمانہ، گرفتاری اور سزا سے ڈرا کر ان کے ارمانوں کا خون کر رہے ہیں۔

تمام قسم کی تفریحات اس ملک میں ختم یا ناجائز۔ سینما، کھیل کے میدان، میلہ جات، بسنت، گھوڑ دوڑ، کشتی، کبڈی، جانوروں کے مقابلے؛ سب ختم۔ ایک شادی کی رونق بچی تھی اس پربھی طرح طرح کی مشکلات کا سامنا۔ شادی ایکٹ اور ون ڈش کی پابندی نے عوام الناس کی خوشیوں میں مجبوری، پابندی اور بے عزتی شامل کر دی ہے۔ وہ شادی کا موقع جس میں تمام رشتہ دار، محلے دار، برادری، دوست احباب کھلے دل سے خوشیاں مناتے تھے اب بھاگ بھاگ کر پاگل ہو جاتے ہیں کہ اگر ذرا سی بھی بارات لیٹ ہوگئی یا کھانے میں کمی بیشی ہو گئی تو عزت کی بجائے رشتہ داروں اور مہمانوں کے سامنے رسوا ہونا پڑے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ بھی واضح رہے کہ ون ڈش کی پابندی صرف عوام کے لیے ہے۔ بڑے بڑے لوگ اس قانون کا جو حال کر رہے ہیں وہ ان کی کسی بھی شادی میں دیکھا جا سکتا ہے۔

Facebook Comments

Syed Mohammad Zahid
Dr Syed Mohammad Zahid is an Urdu columnist, blogger, and fiction writer. Most of his work focuses on current issues, the politics of religion, sex, and power. He is a practicing medical doctor.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply