وارث اور مُلا کی تکرار -قسط1/کاشف حسین

وارث اپنے کلام میں جب رانجھے کے گھر چھوڑنے کے بعد اسکی ملا سے تکرار کرواتے ہیں تو ملا کے سماج میں کردار کو کئی پہلوؤں سے سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں رانجھا مسجد میں پہلی رات قیام کے دوران بانسری بجاتا ھے اور عوام اسکی بانسری سے مسحور ھو کر مسجد کے گرد اکٹھی ھو جاتی ہے وارث شاہ نے سماج کی نچلی سطح پہ رہنے والوں کو عام طور پہ رانجھے کا حامی دکھایا ھے عوام رانجھے کے مسجد میں بانسری بجانے پہ کوئی اعتراض نہیں کرتی بلکہ سننے کے لیے مسجد کے گرد اکٹھ کر لیتی ھے مسجد میں بانسری آجکے حساب سے روایت شکن شے معلوم ھوتی ھے عوام اس سے خوش ھوتی ھے لیکن ملا حسبِ تربیت اعتراض کرتا ھے ملا کو سب سے پہلے تو رانجھے کے حلیے پہ اعتراض ھوتا ھے اسکے خیال سے خوبصورت بال رکھنا آوارگی کی نشانی ھے اسکے بعد ملا ایک ایک کر کے ان کتابوں کے نام بتا کر اپنی علمی بزرگی ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اس نے اپنے طالبعلمی کے دور میں پڑھ رکھی تھیں یہاں سے وارث شاہ ملا کی منافقت اور دل میں موجود تکبر کو آشکار کرنا شروع کرتے ہیں کتابوں کے نام لینے کے بعد ملا خود کو شرع کی محافظت کی آڑ میں سماج کا ٹھیکیدار ظاہر کرتا ھے اور کہتا ھے کہ میں شریعت پہ عمل نہ کرنے والوں کو درے مارنے کا اختیار رکھتا ھوں اس ایکٹ سے آپکو آجکے طالبان یاد آئے ھونگے اسکے بعد ملا سرکاری ریکارڈ و خط و کتابت کے لیے اپنی خدمات کو ظاہر کرتا ھے ملا کے مدرسے میں وہ کامے تیار کیے جاتے تھے جو ریکارڈ نویس پیدا کرتے تھے یہاں ملا کی بات کا مقصد سرکار دربار سے اپنی قربت ظاہر کرنا ھے وارث جب ملا کے مونہہ سے اسکی خصلتیں بیان کرواتے ہیں تو اسکے بعد اب رانجھے کی باری آتی ھے لیکن رانجھے کا خطاب شروع کرنے سے پہلے ایک چیز بتانا ضروری ھے کہ وارث شاہ ملا کے خطاب میں عام خلقت کے لیے چھپی حقارت کو یوں ظاہر کرتے ہیں کہ ملا ہمیں رانجھے کو ہر بات کے آخر میں اوئے سے مخاطب کرتا نظر آتا ھے
اب رانجھے کی گفتگو شروع ھوتی ھے رانجھا کہتا ھے کہ تم وہ لوگ ھو جو قرآن کو شکار گھیرنے کے لیے استعمال کرتے ھو لوگوں کو پاکی پلیتی میں الجھاتے ھو حالانکہ تم جیسے ناپاک کام کرتے ھو شکر کرو رب تمہیں فوراََ نہیں پکڑتا وگرنہ تم لوگ مساجد کے حجروں میں بچے بازی تک سے باز نہیں آتے
وارث شاہ وچ حجریاں فعل کردے ملاں جوترے لاندے واہیاں نوں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply