مثل برگ آوارہ/ثقافتی عدم ہم آہنگی -12/ڈاکٹر مجاہد مرزا

میں نہار منہ شراب کو منہ لگانے کا تصور نہیں کر سکتا تھا لیکن مہمان ہونے کی اخلاقیات کے تحت بوڑھی جاندار نانی کے ساتھ “پیات دیست گرام” یعنی پچاس ملی لیٹر ہریلکا، خوش آمدی کے ضمن میں مجھے حلق سے اتارنا ہی پڑی تھی اور پھر مزید پچاس ملی لٹر اور بھی۔ بھوک تو ویسے ہی لگی ہوئی تھی، ہریلکا ظالم نے مزید بھڑکا دی تھی۔ اسی اثناء میں نتاشا کی والدہ جو سادہ اور دہہاتی قسم کی خاتون تھیں، بھی دیہات سے آ گئی تھیں۔ وہ اپنے دوست کے ہمراہ شہر سے باہر دیہات میں رہتی تھیں۔ کھانے کی احتیاج کا ذکر سنتے ہی ہمارے لیے آلو گوشت کے سالن کا بڑا سا ڈونگا لا کر میز پر رکھ دیا گیا تھا۔ گرم گرم سالن سے اٹھتی ہوئی بھاپ بھوک کو چمکا رہی تھی۔
مظہر نے نتاشا سے پوچھا تھا کہ اس سالن میں گوشت کونسا ہے، اس کا جواب تھا کہ وہ تو ہمارے ساتھ آئی تھی اسے کیا معلوم۔ نتاشا کی ماں بھی ابھی ابھی دیہات سے آئی تھیں۔ اس لیے بے خبر تھیں۔ نانی ویسے ہی سو گرام کے خمار میں تھیں۔ انہوں نے بتایا تھا کہ گوشت لائی بھی ان کی سہیلی تھی اور پکایا بھی اس ہی نے تھا۔ میں نے کہا تھا،”ٹھہرو مظہر میں بتاتا ہوں” پھر چمچ سے گوشت کی ایک دو بوٹیاں نکال کر دیکھتے ہوئے کہا تھا،” اللہ کی قسم گائے کا گوشت ہے، چلو یار کھاتے ہیں”۔ ہم دونوں سالن پلیٹوں میں ڈال کر اس پر ٹوٹ پڑے تھے۔ جب میں اپنی تھالی میں دوبارہ سالن ڈالنے کو تھا تو مظہر نے اپنی پلیٹ سےنظریں اٹھائے بغیر بلند آواز میں کہا تھا،” اللہ معاف کرے، کھا تو رہے ہیں لیکن مجھے شک ہے”۔ میں بضد تھا کہ خواہ مخواہ ضد کر رہے ہو۔ اتنے میں ایک اور بوڑھی خاتون گھر میں داخل ہوئی تھیں اور اپنی زبان میں سلام کہا تھا۔ نانی اسے دیکھتے ہی بولی تھیں، ” لو یہ آ گئی ہے۔ یہی بتا سکتی ہے کہ گوشت کس جانور کا ہے؟” بوڑھی معمر خاتون نے چھوٹتے ہی کہا تھا،” کیا فرق پڑتا ہے اگر خنزیر کا ہے تو”۔ میں اور مظہر دونوں اکٹھے غسل خانے کی طرف دوڑے تھے اور کلیاں و غرارے کرنے شروع کر دیے تھے مگر قے کرنے سے گریزاں رہے تھے اس لیے کہ سور کا گوشت نگلنا تو مشکل ہے ہی مگر اسے اگلنا کہیں زیادہ مشکل۔ بڑی کوفت سے دوچار ہوئے تھے پر برداشت کر گئے تھے۔
تھوڑا سا آرام کیا تھا، پھر میں اور مظہر شہر دیکھنے نکل گئے تھے۔ شہر تھا تو چھوٹا مگر بھلا لگتا تھا۔ پرانے زمانے کی عمارات خاصی زیادہ تھیں اور ہریالی بھی بہت تھی۔ لوگ ملنسار تھے۔ ہم دونوں واپسی پر سڑک کے کنارے بنی بار کے باہر کھڑے ہو کر بڑے بڑے مگوں میں ڈرم سے ” انڈیلی گئی بیئر” پینے لگے تھے۔ ڈیڑھ ڈیڑھ لٹر پینے کے بعد آپس میں بحثنے لگے تھے۔ نانی کے گھر تک پہنچتے پہنچتے مظہر طیش میں آ چکا تھا جس کی چبھتی ہوئی باتوں کا جواب میں اس سے بھی زیادہ چبھتی ہوئی باتوں سے دے رہا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا تھا،”مجھے مارو” مزید اونچے لہجے میں پھر کہا تھا،”مجھے مارو”۔ یہ انگیخت تھی کہ میں اسے ماروں تو وہ مجھ سے الجھ پڑے۔ پھر یہی ہوا تھا، ہم دونوں ایک بار پھر دست و گریبان ہو گئے تھے مدہوشی میں ہونے والی یہ باہمی لڑائیاں ایک تو ہمارے دبے ہوئے کمپلیکسز کا اظہار تھیں دوسرے میری ثقافتی عدم ہم آہنگی کا پرتو بھی جس سے مظہر کو چڑ ہونے لگی تھی کیونکہ وہ یہاں کے ماحول میں رچ بس چکا تھا۔ نتاشا نے بالکونی سے ہمیں لڑتے دیکھ لیا تھا اور وہ وہیں سے ” مظخر، مظخر ” ( یہ لوگ ہ کو خ بولتے ہیں) چیخنے لگی تھی۔ اس کی چیخ و پکار سنتے ہی ہم دونوں ہاتھ جھاڑتے ہوئے شیر و شکر گھر لوٹ آئے تھے۔
شام کو ہمیں نتاشا کی ماں کے ہمراہ دیہات جانا تھا۔ تب تک ہمارا نشہ اتر چکا تھا اور ہم اس خاتون کے ہمراہ مضافاتی ریل گاڑی میں بیٹھ کر ایک دور کے دیہاتی سٹیشن پر اتر کر خاصی دیرتک پگڈنڈیوں پر پیدل چلنے کے بعد ایک گھر میں پہنچے تھے۔ یہ گھر قدیم طرز کا ، لکڑی سے بنا ہوا گھر تھا، جس میں ایک ہال اور دو کمرے تھے۔ نتاشا کی ماں کا نام رایا یعنی رئیسہ تھا۔ عام شکل و صورت کی اڑتیس چالیس برس کی خاتون تھیں۔ رات کو کھانے پینے کا سلسلہ خاصی دیر تک چلتا رہا تھا پھر مجھے سونے کے لیے ایک کمرے میں بھیج دیا گیا تھا۔ میں اس لیے بھی جلدی اٹھ کر چلا گیا تھا کہ باقی لوگ آپس میں رشتے دار تھے، انہیں علیحدگی میں بھی اپنی باتیں کرنی تھیں۔
سونے سے پہلے مجھے رفع حاضت کی خاطر ارد گرد بکھرے گھنے جنگل میں جانا پڑا تھا۔ زمین پر اکڑوں بیٹھنے کے دوران کوئی چیز میرے برہنہ سرین سے مس ہوئی تھی۔ مجھے یک لخت شدید چبھن کا احساس ہوا تھا پھر اندر کے گوشت میں خاصی جلن ہونے لگی تھی۔ اندھیرا تو نہیں تھا لیکن ملگجا پن خاصا گہرا تھا۔ چبھن سے میں ڈر گیا تھا کہ کہیں سانپ نے ہی نہ ڈس لیا ہو مگر جب جلن ہوئی تو مجھے لگا تھا کہ شاید کوئی کیڑا تھا جس کے کاٹنے یا مس ہونے سے الرجی کی وجہ سے جلن ہو رہی تھی۔ جب گھر آ کر میں نے اس خدشے کا ذکر کیا تھا تو وہ سب ہنس دیے تھے تھے۔ نتاشا کی والدہ نے کہا تھا جس کا حسب معمول مظہر نے ترجمہ کیا تھا کہ مجھے “کرا پیوا” کے پتے لگ گئے تھے۔ چوڑے پتوں والا یہ خود رو پودا ہر جگہ ہوتا ہے جس سے بدن کے کسی کھلے حصے کے مس ہوتے ہی شدید جلن کا احساس ہوتا ہے جو چند منٹوں میں خود بخود رفع ہو جاتی ہے۔
رات کو کسی وقت میری آنکھ کھلی تو دیکھا کہ اس کمرے مین ایک دوسرے بستر پر نتاشا کی ماں سوئی ہوئی تھیں۔ ایک تو رات کی شراب کا خمار، دوسرے سوویت یونین کی خواتین کے بارے میں ابتدائی اور غلط تصور کہ ان میں سے کوئی بھی دست درازی کا جواب اثبات میں ہی دے گی، میں نے بھی اس نوع کی حرکت کرنے کی غلطی کی تھی جس پر اس خاتون نے بڑے رساؤ سے میرے بستر کی جانب اشارہ کرتےے ہوئے مجھے وہاں واپس جا کر سو رہنے کو کہا تھا اور میں بھی کسی خجالت میں مبتلا ہوئے بغیر جا کر سو گیا تھا۔
صبح، ناشتہ کرنے کے بعد جب سب اکٹھے بیٹھے ہ تو غالبا” نتاشا نے یا شاید مظہر نے کہا تھا کہ رات آپ نے رایا کے ساتھ دست درازی تو نہیں کی؟ جس سے ظاہر ہے میں نے انکار کیا تھا جبکہ نتالیا کی ماں کے کانوں کی لویں تھوڑی سی سرخ ہو گئی تھیں۔ سامنے رکھے ہوئے کسے گئے ترش کھیروں کے مرتبان کا ڈھکن ، اندر پیدا ہونے والی گیس کے زور پر ٹھک کی آواز کے ساتھ کھلا تھا جس پر کسی نے کہا تھا کہ دیکھا ہماری بات درست تھی، تم نے دست درازی
ضرور کی ہوگی تبھی تو قدرت نے تائید کر دی ہے۔
اس پر سب قہقہہ مار کر ہنس دیے تھے
شام کو ہم نانی کے ہاں شہر لوٹ آئے تھے۔ ایک بار پھر نانی کی تیار کردہ ہریلکا آگ لگانے کے لیے استعمال ہوئی تھی۔ نانی پہلے تو اپنی زندگی کی داستانیں سناتی رہی تھیں جن میں یہ کہانی بھی شامل تھی کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنوں نے کس طرح ان کے گاؤں میں قتل عام کیا تھا اور اسے بھی مرے ہوئے لوگوں کے ڈھیر میں مردہ جان کر چھوڑ گئے تھے، پھر کس طرح وہ لاشوں کے نیچے سے نکل کر بھاگی تھیں۔ یک دم ہریلکا کی آگ نے نانی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔
انہوں نے دوسرے کمرے میں جا کر کپڑے اتار پھینکے تھے اور یوکرینی زبان میں بلند آواز میں مرد کی خواہش کے بین ڈالنے لگی تھیں۔ نتاشا انہیں زبردستی کپڑے پہنانے کی کوشش کر رہی تھی ساتھ ہی قہقہے بھی لگا رہی تھی جن میں بعض اوقات جھلا کر چلانے کی آوازیں بھی سنائی دیتی تھیں۔
اگلے روز ہمیں نتالیا کی نانی کے بھائی کی دعوت پر نزدیک کے ایک گاؤں جانا تھا۔ میہائیل گاؤں کا معتبر شخص تھا اور گاؤں میں اس کا بھرا پرا گھر تھا۔ جب ہم وہاں جا رہے تھے تو مظہر نے مجھ سے کئی بار کہا تھا کہ جناب میری عزت کا پاس رکھنا۔ میں نے ان لوگوں سے، جن کے ہاں ہم جا رہے ہیں آپ کا تعارف اپنے بڑے بھائی کے طور پر کرایا ہوا ہے۔ بار بار پوچھنے پر بھی مظہر نے اس فقرے کے اسرار سے پردہ نہیں اٹھایا تھا بس اتنا کہا تھا کہ آپ وہاں جا کر خود جان لیں گے کہ میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں۔
جب ہم میزبان کے گھر پہنچے تو پہلے ہی ایک بڑی سی میز پر سامان خورد و نوش بمع طرح طرح کی شراب کی بوتلوں کے سجایا جا چکا تھا۔ ابتدائی تعارف کے بعد میں اور مظہر ان کے چند نوجوانوں کے ہمراہ ان کی “لادا” کار میں سوار ہو کر تھوڑی دور ایک کھیت میں گئے تھے جہاں وہ لوگ کچھ تعمیر کر رہے تھے۔ میں نے سوشلزم کا حامی ہونے کے جذبے کے تحت تعمیر کے کام میں ان کا ہاتھ بٹانا چاہا تھا۔ میں نے علامتی طور پر پہلے سے لگائے گئے اینٹوں کے ایک ردے پر بچھائے گئے گیلے سیمنٹ پر اپنے ہاتھ سے کچھ اینٹیں چن دی تھیں جس پر وہ لوگ بہت شاد ہوئے تھے۔ اس خوشی کو منانے کی خاطر انہوں نے جھٹ سے وادکا کی بوتل کھول لی تھی اور ایک اخبار بچھا کر اس پر کھیرے ٹماٹر کاٹ کر رکھ دیے تھے جن کے ساتھ برفی نما شے کے کچھ ٹکڑے بھی تھے۔ ستو گرام یعنی ایک سو ملی لٹر وادکا چڑھانے کے بعد، منہ کی کڑواہٹ دور کرنے کی خاطر میں نے “یوکرینی برفی” منہ میں رکھنا چاہی تھی۔ مظہر آنکھوں کے اشارے سے مجھے روکنے کی کوشش کر رہا تھا مگر میں اس کی آنکھوں کی زبان سمجھنے سے قاصر رہا تھا اور ہاتھ میں اٹھایا ٹکڑا منہ میں ڈال لیا تھا۔ ٹکڑے کو دانتوں سے دباتے ہی مجھے سمجھ آ گئی تھی کہ یہ برفی نہیں بلکہ سور کی چربی ہے، جسے “سالا” کہا جاتا ہے۔یوکرینیوں میں وادکا کے ساتھ اس شے کا استعمال بے حد مرغوب ہے۔ میں نے اسے فورا” تھوک دیا تھا اور پھر تھوکتا ہی رہا تھا۔ وہاں موجود نوجوان میری بنی ہوئی شکل دیکھ کر ہنس ہنس کر دہرے ہو رہے تھے۔ میں نے سوچا تھا کہ ہم جیسے نام نہاد مسلمان شراب تو بڑے آرام سے پی لیتے ہیں کیونکہ وہ جلدی سے حلق سے نیچے اتر جاتی ہے لیکن سور کا گوشت اور چربی چبانے اور نگلنے کا کام ہم سے اکثر نام نہاد مسلمان بھی نہیں کر سکتے۔
بعد میں ہم میہائیل کے گھر میں کھانے کی میز کے گرد جمع ہوئے تھے۔ اس کے بیٹے بیٹیوں، دامادوں، بہووں کو ملا کر میز کے گرد کوئی تیرہ افراد تھے۔ باری باری سب نے میرے نام کا ٹوسٹ بولنا شروع کیا تھا۔ پانچ چھ جام چڑھانے کے بعد مجھے، مظہر کا کہا “عزت کا پاس رکھنا” والا فقرہ سمجھ آ گیا تھا۔ وہ میری بے تحاشا تعظیم کر رہے تھے چنانچہ مجھے شراب نوشی میں “مردانگی” کا مظاہرہ کرنا تھا۔ ہر بار بولے گئے ٹوسٹ کے بعد کھڑے ہو کر ایک ہی گھونٹ میں جام چڑھانا پڑ رہا تھا۔ نویں جام کے بعد ہی میں نے مظہر سے منت کرنا شروع کر دی تھی کہ یار بچاؤ لیکن وہ میرا ہاتھ دبا کر چپکے سے مجھے برداشت کرنے کی تلقین کر دیتا تھا۔ چودھواں ٹوسٹ مجھے ان لوگوں کی تعظیم و تشکر کے ضمن میں خود بولنا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں نے وہ ٹوسٹ کس طرح بولا تھا اور پھر کس طرح اپنے پاؤں پر چلتا ہوا کار تک پہنچا تھا اور کار میں ڈھیر ہو گیا تھا۔
شراب ان لوگوں کی زندگی کے ہر انگ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ کوئی پیدا ہوا ہے شراب پی جائے گی۔ کوئی مر گیا ہے، شراب پی جائے گی۔ کوئی خوشی ہے تو شراب، کوئی دکھ ہے تو شراب۔ آپ بیمار ہیں تو صحت یاب ہونے کی خاطر شراب پییں اور اگر صحت یاب ہو گئے ہیں تو اس کی خوشی منانے کے لیے شراب پییں۔ نزلہ زکام ہو گیا ہے تو علاج کے لیے شراب، تھک گئے ہیں تو تھکاوٹ دور کرنے کے لیے شراب، غرض ہر عمل وادکا سے مربوط ہے۔ اس بارے میں ایک لطیفہ بھی ہے کہ ایک جگہ ایک امریکی، ایک برطانوی اور ایک روسی بیٹھے کام کے دنوں کی تعداد بارے بات کر رہے تھے۔ امریکی نے کہا ہم ہفتے میں پانچ روز کام کرتے ہیں ، برطانوی بولا بھئی ہم تو چھ روز بھی کام کر لیتے ہیں، روسی نے انکشاف کیا کہ ان کے ہاں صرف بدھ کے روز کام ہوتا ہے۔ امریکی اور برطانوی حیران ہو کر اس سے پوچھتے ہیں،”وہ کیسے؟”۔ روسی کہتا ہے: جمعرات کو ہم اس احساس سے پی لیتے ہیں کہ کل سے ویک اینڈ شروع ہوگا۔ جمعہ کو چونکہ ہفتہ اتوار کو پینے کی خاطر شراب خریدتے ہیں اس لیے پی بھی لیتے ہیں۔ ہفتہ اتوار تو چھٹی ہوتی ہے چنانچہ ہم پیتے رہتے ہیں۔ بہت پی لینے کی وجہ سے چونکہ سوموار کے روز طبیعت خراب ہوئی ہوتی ہے اس لیے چڑھی شراب اتارنے کے لیے پی لیتے ہیں۔ منگل کو اس غم میں پی لیتے ہیں کہ کل کام کرنا پڑے گا البتہ بدھ کو کام بہر طور کرنا پڑتا ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply