پاکستانی پہاڑوں کیساتھ مذاق مت کریں ۔۔عمران حیدر تھہیم

اِس کُرّہء اَرض پر کُل 14 پہاڑ ایسے ہیں جن کی بلندی سطح سمندر سے 8000 میٹر سے زیادہ ہے۔ میڈیکل سائنس کے مختلف تجربات کی رُو یہ بات ثابت ہو چُکی ہے کہ سطح سمندر سے بلندی کو جھیلنے کی انسانی جسم کی حد بھی 8000 میٹر ہی ہے۔ یعنی 8000 میٹر سے زیادہ بلندی پر انسانی جسم آکسیجن کی کم مقدار کیساتھ اعضاء کو ایڈجسٹ کرنے کی قدرتی صلاحیت جسے انگریزی میں acclimatization کہتے ہیں کھو دیتا ہے اور اِس بلندی پر کسی بھی وقت اچانک موت (sudden death) ہو سکتی ہے۔ اس لیے پہاڑوں پر ہر 8000 میٹر سے زیادہ بلند مقام کو “ڈیتھ زون” کہا جاتا ہے۔

دُنیا کے تمام 8000 میٹر سے بلند  14 پہاڑوں پر کوہ پیمائی انسانی جسم کی صلاحیت آزمانے کا حتمی امتحان ہے۔ اس امتحان سے گُزرنے کےلیے اور بلندی کے ساتھ جُڑے مظاہرِ قدرت کو تسخیر کرنے کےلیے کوہ پیمائی کے کھیل سے وابستہ ماضی و حال کے مشاہیر اور ماہرین نے تربیت کے مُختلف مراحل وضع کر رکھے ہیں جن سے گُزر کر ہی ایک کوہ پیما بُلندی کے انسانی جسم پر ہونے والے بُرے اثرات پر قابو پا سکتا ہے۔ اِن میں سب سے اوّلین مرحلہ اپنے جسم کو بُلندی سے ہم آہنگ کرنا اور موافق بنانا ہے۔ اس عمل کو میڈیکل سائنس نے acclimatization کا نام دے رکھّا ہے۔ انسانی جسم 2400 میٹر سے کم بُلندی پر رہنے کےلیے بنا ہے۔ اِس سے زیادہ بُلندی پر جانے کےلیے acclimatization کے بغیر کوہ پیمائی کرنا تقریباً خُود کُشی کے مترادف ہے۔ 2400 میٹر سے زیادہ بُلندی پر جانے کےلیے انسانی جسم کو کم از کم 6 گھنٹے کی acclimatization درکار ہوتی ہے۔ کوہ پیمائی کے بُنیادی اُصولوں میں Climb High, Sleep Low کا اُصول سب سے اوّلین ہے۔ ہر کوہ پیما دن بھر میں جتنی بھی بُلندی پر چلا جائے جب تک اُس بُلندی سے 300 میٹر نیچے آ کر رات نہیں گُزارے گا اُسکا جسم acclimatization حاصل نہیں کر سکتا۔ لہٰذا بڑے پہاڑوں پر ہر کوہ پیما ایک سے زیادہ بار اور بار بار پہلے سے زیادہ بُلندی پر جاتا اور واپس آتا رہتا ہے اس عمل کو acclimatization rotation کہتے ہیں۔ تمام آٹھ ہزاری (8000er) پہاڑوں پر کوہ پیمائی کےلیے multiple acclimatization rotations کی ضرورت ہوتی ہے۔ اِس اُصول سے انکار یا انحراف کا نتیجہ کوہ پیما کی ناکامی، جان لیوا بیماری HAPE اور HACE یا خُدانخواستہ اچانک موت ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تمام 8000er پہاڑوں پر کوہ پیماؤں کو مُکمّل acclimatization کےلیے کم از کم 3 سے 4 ہفتے درکار ہوتے ہیں۔ اِس کا دارومدار کوہ پیما کی ذاتی جسمانی فٹنس پر ہے۔ فٹنس نہ ہونے کی صُورت میں اِس سے زیادہ عرصہ بھی لگ سکتا ہے۔ تاہم یاد رہے کہ مُندرجہ بالا بیان کردہ acclimatization صرف انسانی جسم کی ضرورت ہے جبکہ کوہ پیمائی کےلیے پیشہ وارانہ مہارت اور تربیت ایک الگ مرحلہ ہے۔ یعنی اگر آپ اپنے جسم کو مُندرجہ بالا اُصولوں کے مُطابق acclimatize کر لیں گے تو یہ محض ایک ابتدائی مرحلہ ہے۔ کوہ پیمائی کےلیے اِس سے اگلے درجے کی طاقت، مہارت اور تربیت چاہیے ہوتی ہے۔

اب آتے ہیں پاکستانی آٹھ ہزاری چوٹیوں کی طرف۔
جیسا کہ آپ لوگ جانتے ہی ہیں کہ دُنیا کے کُل 14 آٹھ ہزاری 8000er پہاڑوں میں سے 5 پہاڑ پاکستان میں واقع ہیں۔
1. کے۔ٹو (8611m)
2. نانگا پربت (8126m)
3. گیشربروم ون (8080m)
4. براڈ پِیک (8047m)
5. گیشربروم ٹو (8035m)
پاکستان کے پہاڑ اس لحاظ سے مُنفرد ہیں کہ اِن پر کوہ پیمائی کےلیے محض نان ٹینکیکل ٹریکنگ کام نہیں آ سکتی۔ اِن پہاڑوں کو سر کرنے کےلیے راک کلائمبنگ، آئس کلائمبنگ، مِکس آئس اینڈ راک کلائمبنگ اور ماؤنٹینیئرنگ کی بہترین درجے کی تربیت اور مہارت درکار ہے۔ کے۔ٹو ایسا پہاڑ ہے جس کی چوٹی کو سر کرنا کوہ پیمائی کا آخری امتحان کہلاتا ہے۔ یعنی دُوسرے لفظوں میں آپ اِسے کوہ پیمائی کی معراج کہہ سکتے ہیں۔ سالہا سال کی تربیت اور عُمر بھر کی مہارت کے بعد بھی چند ایک انسان ہی اسے تسخیر کر پائے۔ آج تک کی کوہ پیمائی کی انسانی تاریخ میں محض 400 کے قریب کوہ پیما کو کامیابی نصیب ہوئی اور تقریباً 90 کے قریب کوہ پیما جان سے گئے۔ اسی طرح براڈ پِیک کی کوہ پیمائی بھی اپنی نوعیت کے مختلف چیلنجز سے عبارت ہے۔

مَیں گُزشتہ ایک دہائی سے کوہ پیمائی پر تحقیق کرنے کے شوق سے وابستہ ہوں۔ اِس عرصہ کے دوران پاکستان میں کوہ پیمائی کو بہت تیزی کے ساتھ فروغ مِلا ہے۔ پاکستان میں کوہ پیمائی کا کھیل سالہا سال سے پہاڑوں پر رہنے والے گلگت۔بلتستان پر مشتمل پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے لوگوں کا مشغلہ رہا ہے اور اشرف امان سے لیکر ساجد علی سدپارہ تک پاکستان کے تقریباً تمام بڑے کوہ پیما اِنہی پہاڑی علاقوں کے باشندے تھے جبکہ 2019 تک پاکستان کے میدانی علاقوں کے قابلِ ذکر کوہ پیماؤں میں صرف ڈاکٹر کرنل عبدالجبار بھٹّی صاحب کا نام تھا جو آٹھ ہزاری چوٹیاں سر کر چُکے ہیں۔ اور پھر 2019 میں لاہور سے تعلق رکھنے والے 17 سالہ نوجوان شہروز کاشف نے براڈ پِیک سر کرکے تاریخ رقم کر دی وہ براڈ پیک سر کرنے والا کم عُمر ترین اور میدانی علاقے سے تعلّق رکھنے والا پہلا پاکستانی کوہ پیما کہلایا۔ پھر آج سے ٹھیک 2 ماہ قبل اُس نے 11 مئی کو نیپال میں موجود دُنیا کی بُلند ترین چُوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والے کُم عُمر ترین پاکستانی کا اعزاز بھی حاصل کر لیا۔ گُزشتہ چند سالوں میں عموماً اور اِس سال موسمِ سرما میں پاکستان میں کوہ پیمائی کے کھیل کو مقبولیت کی اِنتہا پر پہنچانے کا سہرا بِلا شُبہ شُہرہء آفاق پاکستانی کوہ پیما مُحمّد علی سدپارہ کے سر جاتا ہے جو کے۔ٹو کو موسمِ سرما میں سر کرنے کی لازوال اور ایک تاریخی کوشش میں اپنے دو ساتھی کوہ پیماؤں کے ساتھ کے۔ٹو کے ڈیتھ زون میں لاپتہ ہو گئے جبکہ اُنکے فرزند اور کے۔ٹو کو سر کرنے والے دُنیا کے کم عُمر ترین کوہ پیما ساجد علی سدپارہ جرآت اور بہادری کی داستان رقم کرکے کے۔ٹو کے ڈیتھ زون سے زندہ و سلامت نیچے بحفاظت اُتر آئے۔ دُنیا بھر کی کوہ پیما کمیونٹی اس عظیم سانحے پر آج بھی مغموم اور دل گرفتہ ہے۔

مُحمّد علی سدپارہ کے کے۔ٹو پر لاپتہ ہو جانے کے بعد پاکستان میں سیاحت و کوہ پیمائی کے میدان میں انقلاب آگیا۔ اور آج پاکستان کا بچّہ بچّہ مُحمّد علی سدپارہ کو اپنا قومی ہیرو گردانتا ہے۔ گو کہ علی سدپارہ کی لاش ابھی تک کے۔ٹو کی بُلندیوں میں کہیں گُم ہے جسے تلاش کرنے کےلیے اُنکا بیٹا ساجد سدپارہ کینیڈین کوہ پیما فوٹوگرافر اور اپنے دیگر پاکستانی کوہ پیما ساتھیوں کے ہمراہ سرچ مشن پر ہے اور تادمِ تحریر اُنکی پیش قدمی مثبت ہے۔ پاکستان سمیت دُنیا بھر کی کلائمبنگ کمیونٹی اس سرچ مشن کےلیے دن رات دُعاگو ہے۔ اُمید ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں اُمید کی کوئی کرن ضرور نظر آئے گی اور ساجد سدپارہ اپنی ٹیم سمیت تینوں لاپتہ کوہ پیماؤں کی ڈیڈ باڈیز ڈُھونڈ پائے گا (اِن شاء اللہ).

اِس ساری تمہید کے بعد اب مَیں آتا ہوں اپنے اصل موضوع کی طرف۔ اور وہ یہ کہ پاکستان میں سیاحت اور کوہ پیمائی کے کھیل کے فروغ کی کوششوں کو اِس لمحہء موجود میں پاکستانی خُود ہی سبوتاژ کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ پاکستان میں گُزشتہ چند سالوں سے کوہ پیمائی کے کھیل کی تربیت اور مہارت حاصل کرنے کی بجائے سوشل میڈیائی ستائش اور ذاتی تشہیر کا رُحجان شروع ہو چُکا ہے۔ پیشہ ورانہ مہارت حاصل کرنے کی بجائے سب سے پہلے، سب سے جلدی، سب سے کم عُمر اور سب سے بڑا کہلوانے کی ایک دوڑ کا آغاز ہو چُکا ہے۔

اگر اس موسمِ گرما کے پاکستانی کلائمبنگ سیزن کی ہی بات کی جائے تو اس وقت پاکستانی 8000er پہاڑوں پر تمام جُزوقتی، شوقیہ اور نان ٹیکنیکل نام نہاد مُہم جُو قسمت آزمائی کرنے پہنچے ہوئے ہیں۔ جنکا مطمعِ نظر یہی ہے کہ کسی طرح کوئی غیرمُلکی گوروں کی ٹیم، کسی نیپالی شرپاؤں کا کوئی گروپ کسی بھی طرح سے اپنی کمرشل مُہم جُوئی کےلیے پہاڑ کے کلائمبنگ رُوٹ پر فکسڈ لائن نصب کردے اور وہ بس کسی غیبی امداد کے ذریعے پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر یہ “کلائمبنگ میراتھن” جیت کر نیچے بحفاظت اُتر آئیں اور پھر اس summit glory کو حاصل کر کے خُودساختہ ہیرو کہلانے لگ جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ “پاکستانی ہیروز اور ہیروئنز” کوہ پیمائی کےلیے درکار مہارت تو درکنار میڈیکل سائنس کے acclimatization کے اُصولوں کو بھی بالائے طاق رکھتے ہوئے کچھ پاکستانی 8000ers کے بیس کیمپس پر پہنچے ہوئے ہیں اور کچھ پہنچنے والے ہیں۔ حالانکہ اگر اعداد و شُمار کو مدّ ِ نظر رکھا جائے تو آج تک موسمِ گرما کے کلائمبنگ سیزن میں تاریخ میں پاکستانی 8000ers چوٹیاں 31 جولائی کے بعد بہت کم سر ہوئیں۔ 2008 میں کے۔ٹو پر 1 اور 2 اگست کو summits ہوئی تھیں اور اُسی روز کے۔ٹو کی تاریخ کا سب سے بدترین حادثہ بھی ہوگیا تھا جس میں 11 کوہ پیما جان سے گئے۔ اگر تکنیکی اعتبار سے دیکھا جائے تو 25 جون سے قبل پاکستانی 8000ers کے بیس کیمپس تک پہنچنے والی ٹیمز ہی مُسلّمہ اُصولوں کے مطابق acclimatization کے مرحلوں سے کامیابی سے گُزر پائیں گی۔ میری رائے کے مطابق یکم جولائی کے بعد پہنچنے والے کوہ پیما غیر حقیقت پسند، جذباتی، اوور ہیروازم اور فیک گلوری حاصل کرنے کی بےمقصد خواہش کا شکار ہیں۔ اب جو کوہ پیما یا جو ٹیم 10 جولائی براڈ پِیک بیس کیمپ پہنچی ہو یا 10 جولائی کو سکردو سے کے۔ٹو بیس کیمپ کی طرف روانہ ہوئے ہوں تو وہ 15 جولائی کو مُہم کا آغاز کرکے کیسے 31 جولائی تک مُہم کا کامیاب اختتام کر سکتے ہیں۔ یہ ایک خواب نہیں بھیانک حقیقت کی طرف پیش قدمی ہے۔ مُجھے حیرانی اس بات پر ہے کہ پاکستان کا کلائمبنگ کو ریگولیٹ کرنے والا ادارہ الپائن کلب آف پاکستان بھی ان غیر حقیقت پسندانہ مُہمات کے بارے میں مُکمّل خاموش ہے۔ پاکستان کے خطرناک ترین پہاڑوں پر کوہ پیمائی کےلیے جذباتی لوگ پہنچے ہوئے ہیں اور سب نے چُپ سادھی ہوئی ہے۔ یہ بہت افسوسناک اور اُس سے بھی زیادہ ایک تشویش ناک بات ہے۔ ٹھیک ہے کورونا کی وجہ سے پاکستان میں کوہ پیمائی اور سیاحت کی انڈسٹری مُشکلات کا شکار ہے لیکن کیا اسکا یہ مطلب ہے کہ سنجیدہ ترین کھیل کےلیے غیر سنجیدہ اور جذباتی لوگوں کو کُھلی اجازت دے دی جائے؟

جس طرح کے۔ٹو بیس کیمپ پر سائیکل یا موٹر سائیکل پر جانے کا اعلان کرنے والے قابلِ مُذمّت ہیں اُسی طرح ایسی مُہمات بھی پہاڑ کے ساتھ بدتمیزی ہیں جن میں محض ذاتی تشہیر کارفرما ہو۔ پہاڑوں اور اُن پر رُونما ہونے والے مظاہرِ فطرت کے ساتھ اس طرح کے مذاق اور کھلواڑ سے بچنا چاہییے۔ کسی بھی کھیل کے فروغ کےلیے ضروری ہے کہ درست مہارت اور تربیت کے ساتھ ساتھ اُس کھیل کے ساتھ جُڑے مُسلّمہ اُصولوں کی بھی پاسداری کی جائے۔

مُجھے ذاتی طور پر اِس بات میں ذرا برابر بھی ابہام نہیں کہ یہ غیر سنجیدہ کوہ پیمائی کی مُہمات محض ذاتی تشہیر ہیں اور اِنکا کوہ پیمائی کے فروغ کے ساتھ کوئی تعلّق نہیں۔ مزید کسی بھی ناخُوشگوار واقعے سے بچنے کےلیے گلگت۔بلتستان حکومت کو ایک قدم آگے آکر اِن تمام غیر سنجیدہ مُہمات کو وہاں سے واپس بھیج دینا چاہییے۔ الپائن کلب آف پاکستان کو چاہییے کہ ایسی کلائمبنگ پالیسی وضع کرے جس میں موسمِ گرما کی 8000ers کی کلائمبنگ کےلیے 20 جون سے پہلے پہلے بیس کیمپس تک پہنچنا لازمی قراردیا جائے تاکہ سنجیدہ لوگ آگے آئیں اور کوہ پیمائی کے اوّلین رہنما اُصول کے مطابق مناسب acclimatization حاصل کرکے ہی پہاڑ سر کرنے کی کوشش کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors

میری پیشین گوئی ہے کہ آئندہ چند دنوں میں ان تمام غیر سنجیدہ کوہ پیماؤں کی مختلف حیلے بہانوں مثلاً ناسازئ طبعیت یا موسم کی خرابی کے باعث واپسی ہو جائے گی۔ تاہم میری اللہ ربّ العزت سے یہ دُعا ہے کہ اللہ پاک اِن پر رحم فرمانا، انہیں ناگہانی آفت سے بچانا اور اِنکی نادانی کو درگُزر فرما کر اِنکی بحفاظت واپسی کو ممکن بنانا۔ (آمین)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply