جدا ہونے سے پہلے/شہزاد ملک

یہ1970 کا مون سونی موسم تھا بارشیں تو ادھر مغربی پاکستان میں بھی بہت ہورہی تھیں مگر ملک کے مشرقی بازو کو تو بر کھارت نے مفلوج ہی کرکے رکھ دیا تھا پانیوں کی سرزمین پر اوپر آسمان سے بے تحاشا پانی برس رہا تھا تو نیچے بے شمار ندی نالے اور دریا بپھرے ہوئے عفریتوں کی شکل میں دھاڑتے چنگھاڑتے ہوئے بستیاں اجاڑ رہے تھے ہزاروں انسان مال مویشی اور کھڑی فصلیں برباد ہوئیں تو لاکھوں انسان بے گھر اور بے سرو سامان ہوئے۔
اخبارات اور ریڈیو مشرقی پاکستان میں برپا ہونے والی اس قیامت کی خبریں سنا رہے تھے جنہیں سن کر مغربی پاکستانیوں کے دل دُکھی ہورہے تھے حکومت کیا اور عوام کیا اپنے بنگالی بھائیوں کی مصیبت میں ان کے کام آنے کے لئے بے تاب تھے حکومت کی طرف سے امدادی فنڈ کا اعلان ہوا تو لوگوں نے دل کھول کر عطیات دئیے نقد رقوم کے علاوہ فیصلہ ہوا کہ بے گھر ہوجانے والوں کے لئے کپڑے خوراک اور دوسری ضروریات زندگی بھی بھیجی جائیں ہمارا کالج میں یہ آخری سال تھا کالج انتظامیہ نے بھی اس کار خیر میں حصہ بقدر جثہ ڈالنے کا فیصلہ کیا پرنسپل مس کچلو کی سربراہی میں اساتذہ کی ایکشن کمیٹی بنی جس نے چندے کی اپیل کی تو تین چار دنوں میں ہی کافی رقم جمع ہوگئی طے یہ ہوا کہ اس رقم سے کپڑا خرید کر لباس سلا کر بھیجے جائیں چنانچہ مردوں کے لئے کرتے اور دھوتیاں اور خواتین کے لئے ململ کی ساڑھیاں اور کاٹن کے بلاؤز بنائے جائیں گے کپڑے کی خریداری میں تاجر حضرات نے نہ صرف بڑی مدد کی بلکہ اپنی طرف سے بھی کپڑا عطیہ کیا اب مرحلہ تھا سلائی کا ایکشن کمیٹی نے سلائی جاننے والی طالبات کی فہرست بنائی ان دنوں سلائی کڑھائی لڑکیوں کی تربیت کا لازمی جزو تھا اس لئے بہت سی لڑکیوں نے اپنی خدمات پیش کر دیں ان سے کہا گیا کہ وہ اپنی سلائی مشینیں کالج لے آئیں گوجرانوالہ کی درزی گلی سے دو تین ماسٹر صاحبان مردانہ کرتوں کی کٹائی کے لئے اجرت پر بلائے گئے پڑھائی کے وقت کا حرج کئے بغیر چھٹی کے بعد کام شروع کیا جاتا اللہ اللہ کیا جذبہ تھا تیس چالیس کے قریب سلائی مشینوں کی گھڑ گھڑ کے ساتھ یہ لاؤ وہ پکڑاؤ قینچی کہاں ہے فیتہ دینا دھاگوں والی ٹوکری کدھر ہے ان آوازوں نے ایک ہلچل مچائی ہوتی ایک گروپ کاج کر رہا ہے تو دوسرا بٹن لگانے میں مصروف ہے تیسرا مکمل شدہ کپڑوں کی تہیں لگارہا ہوتا ماسٹر صاحبان کٹائی کر کے دیتے ایک پورا ایمرجنسی کیمپ کا ماحول تھا جس میں ہر شخص ایک انوکھے جذبے سے کام کر رہا تھا طالبات کے والدین نے اتنا تعاون کیا کہ دیر تک انہیں کالج میں رکنے کی اجازت دئیے رکھی اور دس بجے کے بعد ان کو لینے آتے اس دوران لڑکیوں کے ایک گروپ نے رضاکارانہ طور پر آس پاس کے گھروں اور اپنے اپنے محلوں سے بسکٹوں کے پیکٹ ٹوتھ برش اور پیسٹ صابن کے پیکٹ اور استعمال کی دوسری چیزوں کی اچھی خاصی مقدار اکٹھی کرلی دو ہفتے کی محنت کے بعد سب کچھ تیار ہوگیا ایکشن کمیٹی کے اساتذہ اور پرنسپل نے اپنی نگرانی میں سامان پیک کرایا ڈی سی صاحب کو بلا کر ان کے حوالے کیا گیا انہوں نے باقی سامان کے ساتھ ٹرکوں میں لدواکر بھیج دیا
اس وقت کسے خبر تھی کہ صرف ایک سال بعد ہی حالات اس نہج پر آجائیں گے کہ ملک کے دونوں حصوں کے درمیان نفرت کی ناقابل عبور خلیج حائل ہوجائے گی دیکھتے ہی دیکھتے حالات بد سے بدتر ہوتے گئے اور بالآخر ایک ملک دو ملکوں میں بدل گیا مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply