• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مثالیت پسندی اور حقیقت پسندی کی جنگ: عمران خان اور پیروکار۔۔عرفان شہزاد

مثالیت پسندی اور حقیقت پسندی کی جنگ: عمران خان اور پیروکار۔۔عرفان شہزاد

ہر شخص میں مثالیت پسندی اور حقیقت پسندی دونوں رجحانات کسی نہ کسی درجے میں ایک تناسب سے موجود ہوتے ہیں۔ کسی ایک رجحان کا غلبہ انسان کو مثالیت پسند یا حقیقت پسند بنا دیتا ہے۔
مثالیت پسندی دستیاب ذرائع سے آگے بڑھ کر تبدیلی چاہتی ہے جب کہ حقیقت پسندی دستیاب ذرائع اور ممکنات کے دائرے میں حکمت عملی سے کارکردگی دکھانے سے عبارت ہے۔
مثالیت پسندی نے جہاں معیار زندگی بہتر بنانے میں کردار ادا کیا وہاں اسی نے غیر حقیقی اور مضر آدرش دے کر فرد اور سماج کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار بھی کیا۔
سائنس دان بھی مثالیت پسند ہیں جنھوں نے زندگی کو آسان بنایا اور ہٹلر اور مسولینی بھی مثالیت پسند تھے جنھوں غیر حقیقی آدرشوں کی سان پر انسانیت کو قربان کیا۔
فرد کے فکر اور عمل میں مثالیت پسندی اور حقیقت پسندی کا تناسب اگر متوازن ہوتو فرد کسی تضاد یا کسی بڑے تضاد کا شکار ہوئے بغیر مثالیت پسند یا حقیقت پسند کہلاتا اور سمجھا جا سکتا ہے، لیکن فکر اور عمل میں اگر یہ غیر متوازن ہو تو یہ فرد کے لیے بڑے تضادات کا سبب بنتا ہے۔ ایسا فرد مثلاً اپنے فکر و خیال اور قول میں خالص مثالیت پسند واقع ہو سکتا ہے جب کہ عملاً وہ ایک حقیقت پسند شخص ہوگا۔ ایسی تضاد بھری شخصیات کی کئی مثالیں دورحاضر اور دور ماضی کی ہمارے سامنے موجود ہیں۔
مثالیت پسند رجحان رکھنے والے عوامی طبقات مثالیت پسند لیڈر کا انتخاب کرتے ہیں جب کہ حقیقت پسند رجحان کے حامل حقیقت پسند لیڈر کو چنتے ہیں۔ یہ ان کا فطری انتخاب ہے۔
اعلی شاعری مثالیت پسندی کی شاعری سمجھی گئی ہے۔ مثالیت پسند شاعری کا درجہ تخیل کی بلندی اور جذبات کی گہرائی اور تاثیر کے لحاظ سے حقیقت پسند شاعری سے وقیع و بلیغ تر سمجھا جاتا ہے۔ مثالیت پسند شاعر اپنے تخیل کی رزم گاہ میں بڑے معرکے سرانجام دے آتے ہیں جب کہ حقیقت میں ممکن ہے وہ ناک سے مکھی بھی نہ ہٹاتے ہوں۔ غالب اپنی شاعری میں در کعبہ نہ کھلنے پر الٹے قدموں واپس لوٹ آتا ہے، مگر اپنی حقیر سی پنشن کی خاطر کمشنر کے دفتر کے چکر پر چکر کاٹتا ہے۔
شاعری اور ادب میں ایسی مثالیت پسندی محظوظ کرتی ہیں مگر ایسی تضاد بھری شخصیت اگر زندگی کے عملی میدان میں آ جائےتو حادثات اور المیوں کو جنم دیتی ہے۔ انفرادی سطح سے بڑھ کر، ایسے فرد کا دائرہ اثر جتنا وسیع ہوگا نقصان بھی اتنا ہی ہمہ گیر ہوگا۔ یہ اگر رہنما کے منصب پر فائز ہو جائے تو یہ سب سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
عمران خان ایسی ہی متضاد شخصیت کے حامل ہیں۔ وہ فکر و خیال میں مثالیت پسند جب کہ عملاً ایک حقیقت پسند بلکہ حقیقت پرست شخص ہیں۔ “یو ٹرن” کی اصطلاح جسے انھوں نے اپنی شخصیت کی “قابل فخر” علامت بنا ڈالا ہے، ان کی شخصیت کے اسی تضاد کی آئینہ دار ہے۔ وہ کرپشن کے خلاف پرچار بھی کرتے ہیں مگر عملی سیاست میں ہر طرح کی روایتی بدیانتی کے مرتکب ہو چکے ہیں۔ مگر اس کے باوجود ان کا لب و لہجہ بتاتا ہے وہ خود کوکرپٹ تصور نہیں کرتے، اپنے تخیل میں وہ اب بھی ایک دیانت دار شخص ہیں، اپنی تمام بددیانت کاموں کی توجیہ وہ عملیت کی مشکلات کی تاویل سے کر لیتےہیں، لیکن دوسروں کو عملیت کی انھیں مشکلات کا مارجن دینے کو تیار نہیں ہوتے۔
ان کے سچے پیروکاروں کی غالب اکثریت مثالیت پسند افراد ہیں، جنھیں حقیقت پسندی سے سروکار نہیں ہے۔ عمران خان کی طرح ہی وہ بھی عمران خان کی ہر بدیانتی کی تاویل ان کے مخالفین کی بدیانتی کا ردعمل یا عملی مشکلات کے بہانے سے کر لیتے ہیں کہ اس کے بغیر چارہ نہ تھا، دوسرے بھی تو ایسا کرتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
حقیقت پسند لیڈر بھی یہی کچھ کرتے ہیں مگر چونکہ وہ قولاً بھی حقیقت پسند ہوتے ہیں، اس لیے مثالیت پسندوں کو ان سے اپنی نفسیاتی تسکین کے لیے کوئی خوراک نہیں ملتی۔ چنانچہ نتیجہ کے اعتبار سے ایک جیسے دو بدیانت لوگوں میں سے وہ اسے منتخب کرتے ہیں جو کم از کم قولاً تو مثالیت پسند ہو۔ جس کی باتوں میں وہ کوئی خواب تو پردہ تصور پر رقصاں دیکھ سکیں۔ یہ مثالیت پسندی کا اندھا پن ہے۔ اس کا کوئی علاج اس کے سوا نہیں کہ انسان حقیقت پسندی کی طرف آئے اور مثالیت پسندی اور حقیقت میں درست توازن قائم کرے۔
لوگوں کی ایک بڑی تعداد نوجوانی اور جوانی میں مثالیت پسند ہوتی ہے، پھر وقت کے ساتھ تجربات اور مشاہدات سے سبق سیکھتے ہوئے ان میں حقیقت پسندی کا عنصر بڑھتا جاتا ہے۔ مگر کچھ لوگ کبھی بھی حقیقت پسند نہیں ہو پاتے۔ کھلے مشاہدات اور تجربات بھی ان کے فہم اور تجزیے کو متاثر نہیں کرتے۔ ایسے لوگ اپنی خواب ناکی سے کبھی نکل نہیں پاتے۔ یہ جذبات کی وافر مقدار رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی کی تحریر و تقریر میں بڑی تاثیر بھی اسی وجہ ہوتی ہے ۔مگر ان کے صدف میں سٌچا گہر نہیں ہوتا۔
ان مثالیت پسند لیڈروں کے لیے حالات کبھی بھی مثالی نہیں ہو پاتے جس میں انھوں نے اپنے مزعومات اور تخیلات کی دنیا کو عملی شکل دینا ہوتی ہے۔ سارا الزام حالات پر آ جاتا ہے جو انھیں حقیقت پسندی سے فیصلہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ مگر یہی رعایت وہ دوسروں کو دینے کو تیا ر نہیں ہوتے جو کسی ایسی خام خیالی کو جگہ ہی نہیں دیتے اور وہی کچھ کرتے ہیں جو ممکنات کی دنیا میں ممکن ہوتا ہے۔
مثالیت پسندوں نے دنیا کو کئی بار آگ کے گڑھے میں پھینکا، یہ حقیقت پسند ہی تھے جنھوں نے افراد کو غیر حقیقی آدرشوں کی بھینٹ چڑھانے کی بجائے، ان کی عملیت کی دنیا کے مسائل کو حل کرنے پر توجہ مرکوز رکھی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply