جاننے کی جستجو انسان کے اندر بہت گہرائیوں میں موجود ہے۔ انسان نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اس نے مشاہدے میں آنے والی ہر شے کی حقیقت کو جاننے کی جستجو میں طویل سفر کئے۔ یہ سفر صدیوں پر محیط ہیں۔ ایک نسل اپنے حصے کا کام مکمل کر کے اگلی نسل کو منتقل کرتی ہے اور وہ نسل اپنے سے اگلی نسل کو۔ یوں علم کے خزانے وجود میں آتے جا رہے ہیں جن سے ہم اپنے ذہنوں کو روشن کرتے ہیں۔
کائنات اور آسمان کی چھت میں لٹکے اجرام فلکی کو جاننے کا سفر آج سے ہزاروں سال پہلے شروع ہوا۔ قدیم بابلی سلطنت کی تاریخ میں ایسے فلکیات دانوں کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے ستاروں، سیاروں کی نقشہ بندی اور گِرہنوں کے اوقات کے تعین کا نظام بنا لیا تھا۔ پھر یونانیوں نے کائنات کے اس علم پر قابل قدر کام کیا۔ انہوں نے فلکیاتی مظاہر کے وجود کو استدلال اور منطق کے ساتھ بیان کیا اور ان کے ذریعے کائنات کے قوانین کو سمجھنے کی کوشش کی۔ یہاں سے علمِ فلکیات کی بحیثیتِ علم داغ بیل پڑی۔ آٹھویں صدی عیسوی سے مسلمان فلکیات دانوں کا دور شروع ہوا۔ ان کے دور میں علم فلکیات نے نئی بلندیوں کو چھوا۔ مسلمان سائنسدانوں نے فطرت کے خالق کے کلام کی روشنی اور مظاہرِفطرت میں غوروفکر کی ترغیب در ترغیب کے کارَن اس علم میں بے بہا اضافے کئے۔ اور اس علم کی مضبوط اور شاندار بنیادیں قائم کیں۔ جن پر آگے چل کر ایک بلندوبالا عمارت تعمیر ہونی تھی۔ لیکن پھر جلد ہی ان کے گوڈے گِٹے جواب دے گئے۔ اور قدرت نے علم و حکمت کا یہ ٹوکرہ جو کہ اب ان کے لئے بارِگراں بن چکا تھا۔ اپنے فضل و کرم سے اٹھایا اور لے جا کر یورپی مجنوؤں کے سر کا تاج بنا دیا۔ پھر سائنسی انقلاب کا وہ دور شروع ہوتا ہے۔ جس میں جدید سائنسی آلات نے انسانی مشاہدے کو زمین سے اٹھا کر خلا میں دور تک پھیلا دیا۔ یہاں کوپرنیکس، گلیلیو، کیپلر، نیوٹن، آئن سٹائن، کارل سیگن، اسٹیفن ہاکنگ کے علاوہ کئی سائنسدانوں اور اداروں نے وہ شاندار خدمات سرانجام دیں کہ انسان گذشتہ صدی میں چاند سے باقاعدہ بالمشافہ بغل گیر ہو کر لوٹنے کے بعد اب مریخ پر مستقل آباد ہونے کے انتظامات کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ متعدد خلائی مشینوں پر اپنی آنکھیں نصب کئے کئی سیاروں پر موجود ہے اور ستاروں کے درمیان محوِ پرواز ہے۔
آج انسان کائنات میں بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور اب تک کائنات کے اندر اربوں نوری سال کا سفر طے کر چکا ہے۔ اس سفر کی رفتار ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔
میں نے آج اس علم کی روشنی میں آپ کے لئے کائنات کے ایک طویل ٹرِپ کا انتظام کیا ہے۔
میں کافی تگ و دو کے بعد ایسا سپیس شپ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہوں۔ جو تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ، یعنی روشنی کی رفتار سے سفر کرتا ہے۔ آپ نے حوصلہ رکھنا ہے۔ اپنی سیٹ پر جم کر بیٹھنا ہے۔ ایسے لوگ جو خلا سے ناواقف ہیں یا ایسے سفروں کا تجربہ نہیں رکھتے۔ ان کی زیادہ رفتار کی وجہ سے طبیعت خراب ہو سکتی ہے۔ اس کے لئے میں نے شاپر بھی رکھ لئے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر فوری طلب کرنا آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔ کیونکہ شیسے سے سر باہر نکال کر طبیعت ہلکی کرنے کی کوشش کیا رنگ لا سکتی ہے۔ آپ اندازہ نہیں لگا سکتے۔ ہم چونکہ ٹائم ٹریول کریں گے۔ اور ایسی صورت میں آپکا سر ایک لمحے کے بعد جب کھڑکی سے اندر آئے گا تو ممکن ہے ایک بچے کا سر ہو یا پھر بوڑھے کا۔ سپیس شپ کے اندر خصوصی نظام نصب ہے۔ جس کی وجہ سے ہم ٹائم ٹریول سے متاثر نہیں ہونگے اور جب واپس زمین پر اتریں گے تو زمین کے وقت کے مطابق چند منٹ ہی گزرے ہونگے۔ آپ کی زرا سی بے احتیاطی کَم خراب کر سکتی ہے۔ لہٰذا پہلے بتائے دیتا ہوں تا کہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔
ہم پہلے سورج تک جائیں گے۔ پھر وہاں کچھ دیر سستا کر اصل سفر کا آغاز وہاں سے کریں گے۔
لیں جی ہمارا سفر شروع ہوتا ہے یکم جون رات 12 بجے سورج سے۔ ہم تین منٹ تیرہ سیکنڈ بعد عطارد کے قریب سے گزرتے ہیں۔ پھر 6 منٹ اور ایک سیکنڈ بعد زہرہ اور اب ہم اپنی زمین کے پاس سے گزر رہے ہیں۔ وہ چمکتا ہوا تیزی سے دور جاتا ہوا گولہ ہماری زمین ہے۔ جس پر ہمارے تمام جھگڑے، رولے، دشمنیاں موجود ہیں۔ جنہوں نے ہمیں پوری طرح جکڑ کر زندگی کا سارا سواد خراب کیا ہوا ہے۔ کائنات کے ایسے سفر آپ کو دنیا کے دکھوں، غموں سے بہت آسانی سے نجات دلا سکتے ہیں۔ کیونکہ اس وسیع و عریض کائنات میں جہاں ہماری زمین کی کوئی حیثیت نہیں وہاں ہماری، ہمارے غموں کی کیا حیثیت۔ آپ کا فزکس سے کوئی تعلق ہو نہ ہو۔ کائنات کی وسعت آپ کے ذہن کے اندر گھس کر آپ کے وِژن کو تاحد نظر وسیع کر دے گی۔ آپ چیزوں کو بڑے فریم میں دیکھنے کی وجہ ان کے منفی اثر سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ یہ میرا دعویٰ ہے۔ آپ اسے ایک لمحے میں رد بھی کر سکتے ہیں۔ مجھے کوئی پرابلم نہیں۔
ساڑھے نو کروڑ میل کا سفر ہم نے محض 8 منٹ اور 20 سیکنڈ میں طے کیا۔ اب ہم آگے بڑھتے ہوئے مجموعی طور پر 12 منٹ چالیس سیکنڈ کا سفر کر کے انسان کے مستقبل کے ممکنہ پڑاؤ مریخ کے پاس سے گزر رہے ہیں۔ میرا تخیل دیکھ سکتا ہے کہ ہماری نسلیں مریخ پر آباد ہیں۔ مجھے یہاں بلند و بالا عمارات، سڑکیں، سبزہ، جھیلیں، ندیاں، جانے کیا کیا دِکھ رہا ہے۔ تب ہمارے جیسے مسافر یہاں سے گزرتے ہوئے زمین والوں کی دستی چِٹھیاں، تحفے تحائف، چَٹنیاں چاٹ دیتے ہوئے آگے جایا کریں گے۔ دیکھتے ہیں انسان نیلی زمین کے ساتھ ساتھ سرخ رو مریخ پر بھی گھر بسانے میں کب تک سرخرو ہو پاتا ہے۔
اس کے بعد ایسٹیروئیڈ بیلٹ سے بچ بچا کر نکلتے ہوئے 43 منٹ 17 سیکنڈ پر مشتری کے پاس سے گزرتے ہیں۔ ایک بج کر 19 منٹ پر ہم زحل پر تھے۔ پھر 2:39 پر یورینس اور 4:10 پر نیپچون کے پاس سے گزرے۔ 5 بج کر 29 منٹ پر ہم پلوٹو کے پاس سے گزرتے ہیں۔ پلوٹو کے قریب جاتے ہوئے میری فیلنگ عجیب سی تھی کیونکہ 2006 سے اسے سیارے کے سٹیٹَس سے معذول کر دیا گیا ہے۔ لیکن اسے دیکھ کر اچھا لگا کہ اس سے اس کی صحت پر ذرا برابر بھی فرق نہیں پڑا۔ وہ ہمیشہ کی طرح فریش اور توانا ہے۔ اصل میں اب ہم جان چکے ہیں کہ پلوٹو کے کا سائز نظام شمسی میں موجود کئی چاندوں سے بھی کم ہے۔ دوسرا یہ نیپچون کے مدار کو کراس کرتا ہے اور یہ چیزیں سیارے کی تعریف پر پورا نہیں اترتی جس بنا پر اسے مجبوراً معذول کرنا پڑا۔
ہم نے تقریباً ساڑھے تین ارب میل کا سفر طے کر لیا ہے۔ جبکہ تاریخ ابھی تک یکم جون ہی ہے۔
زمین پر کسی شاعر کا ایک خوبصورت شعر سنا تھا۔
پاؤں لٹکا کر جانبِ دنیا
آؤ بیٹھیں کسی ستارے پر
یہاں آ کر اس شعر کی خوبصورتی کچھ ماند سی پڑ گئی۔ کیونکہ ایک حقیقت کھلی کہ ستاروں پر بیٹھ کر زمین کی جسامت کی چیزیں نظر نہیں آتیں۔ ہاں آپ قریب کے سیارے مریخ پر یا زہرہ وغیرہ پر براجمان ہو کر پاپ کارن کھاتے ہوئے زمین کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ اور ہاں وہاں آپ کے پاس ایک عدد ٹیلی سکوپ بھی ہو جس کے ذریعے زمین کے لوگ نظام شمسی کے بڑے اجسام سیاروں اور چاندوں کا سٹرکچر دیکھ پاتے ہیں۔ خیر شاعر حضرات کو کسی حد کی قید میں نہیں رکھا جا سکتا۔ تخیل کو قید کر کون سکتا ہے۔ شاعروں کا ہم پر ایک بہت بڑا احسان یہ بھی ہے کہ وہ ہمارے ذہنوں کی ایسی تربیت کرتے ہیں کہ ہمارا تخیل کبھی کبھی چھوٹی بڑی چھلانگیں بھی لگا سکے۔ ورنہ مادیت پرستی ہمارے چاروں اطراف میں دیواریں کھڑی کرتی جا رہی ہے۔ اور ہم محض روزی روٹی کی خواہش میں مقیّد ہوتے جا رہے ہیں۔
ہم نظام شمسی کی حدوں سے باہر آ چکے ہیں۔ خلا میں ہمیں صرف ٹمٹماتے ستارے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ ستارے دراصل سورج ہیں۔ اور کئی تو سورج سے اربوں کھربوں گنا بڑے ہیں۔ دیکھیں ہم کس طرح انہیں ستارے کہہ کر ان کا سائز اپنے زہن میں بالکل ننھا مُنا سا کر دیتے ہیں۔
ہمیں سفر کرتے ہوئے ایک سال گزرتا ہے۔ پھر دوسرا، تیسرا اور چوتھا۔ آخر کار ہم پانچویں سال 17 ستمبر کو سورج کے قریب ترین ستارے پروکسیما سینٹوری کے پاس سے گزرتے ہیں۔ ہم نے دو سو پچاس کھرب میل سے زیادہ کا سفر طے کر لیا ہے۔
پروکسیماسینٹوری دراصل ایک ستارہ نہیں بلکہ تین ستاروں کا مجموعہ ہے۔ الفاسینٹوری اے، الفاسینٹوری بی اور پروکسیما سینٹوری۔ کافی عرصہ اسے ایک ہی ستارہ مانا گیا۔ جب تک کہ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی نے وضاحت نہ کر دی۔ ہمارے اسلام آباد میں تین عمارتوں والی سینٹورس اسی کے نام پر ہے۔ جسے لوگ سینچوریئس بھی کہہ دیتے ہیں اور یہ زرا بھی برا نہیں مانتی۔ جیسے سینٹوریوں نے صدیوں ہماری غلطی کو برداشت کئے رکھا۔ یہ خلائی مخلوقات بہت فراخ دل ہوتی ہیں۔ وجہ ممکن ہے یہ ہو کہ یہ اشرف مخلوق ہونے کے زعم میں مبتلا نہیں۔
اب ہم اپنے ستارے سورج سے دس نوری سال دور ہیں۔ اور ہمیں ہماری اپنی کہکشاں آکاش گنگا کے ستارے سکڑ کر اکٹھے ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
خلا میں صحیح معنوں میں ہمارا سفر اب شروع ہوتا ہے۔
سو نوری سال گزرنے کے بعد ہمیں ہماری کہکشاں کا نیبولا میٹیریل اور گیس کے بادل بھی دکھائی دینے لگ جاتے ہیں۔ ایک لاکھ نوری سال کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ہمیں ہماری کہکشاں کی مکمل سپائرل شکل دکھائی دیتی ہے۔ ہم محوِرقص آکاش گنگا کے گولائی میں گھومے ہوئے بازو دیکھ سکتے ہیں۔ سامنے ملکی وے کے دوسرے کنارے پر اوریئن آرم ہے۔ اس کا جو بادلوں جیسا مواد نظر آ رہا ہے۔ اس میں کہیں بخارات کے زرے جتنا سورج ہے۔ اور اس کے گرد گھومتے زروں میں ہے ہماری زمین۔ زمین پر براعظم ایشیا ہے، پھر چھوٹا سا پاکستان اور پھر اسلام آباد۔ وہاں چھوٹے سے علاقے میں ایک گھر، جس کے ایک کمرے میں پڑا ایک کسی شمار میں نہ آنے والا جسم۔ اس کی موبائل کی سکرین پر ٹائپ کرتی انگلیاں۔ ان کو دیکھتی آنکھیں، آنکھوں کے پیچھے سوچتا، تصویریں بناتا ذہن۔ اور اس ذہن کے وسیع کینوَس پر پھیلی پوری کائنات۔ درحقیقت کائنات کی سب سے عجیب اور پر اسرار چیز یہی انسانی ذہن ہے۔ اپنے ذہن کو تسخیر کر لیں پھر سب کچھ آپ کا ہے۔ ہر چیز آپ کی دسترس میں ہے۔ مگر کیسے؟ جب ہمارا ذہن ہی ہماری دسترس میں نہیں۔ بلکہ ہم اس الیکٹرو میگنیٹک مشین کے آٹومیٹک نظام کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟؟؟ سوچیں۔۔۔۔ سوچتے جائیں۔۔۔۔ یہی ذہن جواب دے گا۔ یا پھر ذہن جواب ہی دے جائے گا۔
اب ہم پچیس لاکھ نوری سال دور پڑوسی کہکشاں اینڈرومیڈا پر پہنچ چکے ہیں۔ اینڈرومیڈا کو 964ء میں مسلمان فلکیات دان عبدالرحمٰن الصوفی نے دریافت کیا تھا۔ اِس کہکشاں کی نشان دہی الصوفی نے اپنی کتاب صورالکواکب میں ایک خلائی بادل کے طور پر کی۔ بعد ازاں 1613ء میں سائمن میسیئر نے اسے ٹیلی سکوپ سے دیکھا اور مزید تشریح کی۔ اس وجہ سے اس کہکشاں کو میسیئر 31 بھی کہتے ہیں۔ سائنسدانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ اینڈرومیڈا اور ہماری آکاش گنگا ایک دوسرے کی ثقلی کشش کی زد میں ہیں۔ اور یہ آکاش گنگا کے دامِ کشش میں گرفتار دو لاکھ پچاس ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اس کے قریب ہوتی جارہی ہے۔ اور بہت جلد یہ باہم ٹکرا کر شِیروشَکر ہونے والی ہیں۔ گبھرانے کی ضرورت نہیں میں نے یہاں خلا کی زبان میں “بہت جلد” کہا ہے۔ ورنہ یہ عرصہ چار سے پانچ ارب سال بنتا ہے۔
وہاں سے آگے نکلتے ہوئے اب ہم اب ایسی دنیا میں ہیں جہاں آسمان میں ستارے نہیں بلکہ ان کی جسامت کی دکھائی دیتی چھوٹی چھوٹی ننھی مُنی کہکشائیں ہیں۔ یہ کہکشائیں مختلف شکلوں اور مختلف رنگوں کی ہیں۔ سرخ، نیلی، پیلی، مالٹائی، جامنی، کچھ زیادہ کچھ کم روشن۔ پانچ ملین نوری سال کا فاصلہ گزرنے کے بعد آکاش گنگا اپنی 53 ساتھی کہکشاؤں کے جھرمٹ میں دکھائی دیتی ہے۔ اسے لوکل کلسٹر کہتے ہیں۔ اسے ہم کہکشانی محلہ کہہ سکتے ہیں۔ کائنات میں ہمارا گھر ملکی وے اسی محلے میں ہے۔
پانچ کروڑ نوری سال گزرنے کے بعد ہمیں کلسٹرز کا بہت بڑا گروپ دکھائی دیتا ہے جس کے اندر سو سے زائد کلسٹرز موجود ہیں۔ یہ وِرگو سوپر کلسٹر ہے۔ کچھ دور جانے کے بعد یہ سپر کلسٹر بھی ایک اکائی بن جاتا ہے اور اپنے جیسے سپر کلسٹروں میں گھرا پایا جاتا ہے۔ ان میں سے کئی تو ہمارے وِرگو سے کھربوں گنا بڑے ہیں۔
سات کروڑ نوری سال کی دوری پر تھے کہ میرے ذہن میں ایک خیال آتا ہے اور میں اپنی خلائی گاڑی میں لگی خصوصی دوربین کا رخ اپنی زمین کی طرف کرتا ہوں تو وہاں رونگٹے کھڑے کر دینے والا منظر تھا۔
یہاں سے چونکہ زمین کا فاصلہ سات کروڑ نوری سال ہے اور ہم زمین کی سات کروڑ سال پرانی تصویر دیکھ رہے ہیں۔ لہٰذا ہمیں آج کی برقی روشنیاں، عمارتیں، گردوغبار نہیں بلکہ ہر طرف سر سبز خوبصورت جنگل، وسیع سمندر اور ان میں دوڑتے، پھرتے، اُڑتے، تیرتے ڈائنو سارز دکھائی دے رہے ہیں۔ جی ہاں۔ ڈائنوسارز جنہیں آپ ہالی ووڈ کی فلموں میں دیکھتے ہیں۔ ہم یہاں سے لائیو دیکھ رہے ہیں۔
پھر یہاں سے بھی آگے بڑھتے ہوئے ہم ایک ارب نوری سال کے فاصلے سے گزرتے ہیں۔ پھر دو ارب۔ پھر تین ارب۔
ساڑھے پینتالیس ارب نوری سال بعد جو منظر ہمارے سامنے آتا ہے۔ انتہائی حیرت انگیز اور ناقابل بیان ہے۔ اب تک ہم جہاں سے گزرے، جتنا کچھ دیکھ کر آئے وہ سب کچھ اب ایک نقطے کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ اور یہ نقطہ اربوں کھربوں نقطوں کے درمیان اپنی پہچان بھی محض ایک ہی صورت میں کروا رہا ہے کہ ہمارا تعلق وہاں سے ہے اور ہمارے سٹارشِپ کے آلات اور سافٹ ویئرز اس کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ ورنہ اس لامتناعی کائنات میں ہماری کوئی بھی حیثیت نہیں۔ ہم اسی خاک سے بنے ہیں جس خاک سے یہ سب ستارے سیارے بنے ہیں۔ ہم میں اور ان میں کوئی بھی فرق نہیں۔ مادی طور پر ہم سو فیصد اسی کائنات کے جیسے ہیں۔ مادہ سارے کا سارا ایک ہی خمیر سے بنا ہے۔ فرق ہے صرف ایک۔ زندگی کا۔۔۔۔ اور یہ زندگی محض ایک برقی کرنٹ کی وجہ سے ہے۔ الہامی علوم میں جسے روح کہا جاتا ہے۔ یہ کرنٹ موجود ہے تو ہم موجود ہیں۔ کرنٹ جیسے ہی نکلا اگلے ہی لمحے مادی جسم کی ڈی کمپوزیشن شروع ہو گئی۔ پھر تھوڑے ہی وقت کے بعد اس جسم کے سارے ایٹم کائنات کے مختلف مادی اجسام کا سٹرکچر بن چکے ہوتے ہیں۔ جیسے کبھی کچھ تھا ہی نہیں۔ ایک ہی لمحے میں زندگی کا سارا بکھیڑا ختم۔
اس وقت ہمارے سامنے ہماری ساری اوبزرویبل کائنات ہے جس کو ہم انسان اب تک جان پائے ہیں۔ سائنسدان اوبزرویبل کائنات کا سائز تقریباً ترانوے ارب نوری سال بتاتے ہیں۔ ایک اکیلے نوری سال میں 58.8 کھرب میل ہوتے ہیں۔ اب یہ حساب آپ خود لگائیں کہ 93 ارب نوری سال میں کتنے میل بنیں گے۔ واضح رہے کہ یہ قابل مشاہدہ کائنات اصل کائنات کے بے کنار سمندر میں ایک قطرے سے بھی کم جسامت کی ہے۔
میری آنکھیں ابھی اور بھی بہت کچھ دیکھ رہی ہیں۔ لیکن اس کے آگے بیان کرنے کی سائنس اجازت نہیں دیتی۔ کائنات کے بیکراں سمندر کی بے انت گہرائیوں میں ہمارا سفر جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں