• صفحہ اول
  • /
  • سائنس
  • /
  • کورونا وائرس کا چین سے پاکستان تک کا سفر۔۔محمد شاہ زیب صدیقی

کورونا وائرس کا چین سے پاکستان تک کا سفر۔۔محمد شاہ زیب صدیقی

چین کے علاقے ووہان میں ایک سی فوڈ مارکیٹ ہے، جہاں روز ہزاروں افراد اپنی من پسند سمندری خوراک خریدنے آتے ہیں۔ یکم دسمبر 2019 کو اس مارکیٹ سے گھر واپس آنے والا ایک شخص شدید بیمار ہوگیا۔ جس کی رپورٹ ووہان کے ہسپتال میں کی گئی۔ شروع میں اس شخص کی بیماری کو نمونیا سمجھ کر علاج کیا گیا، مگر طبیعت زیادہ بگڑنے پر جب تحقیقات کی گئیں تو طبی ماہرین چونک گئے، کیونکہ یہ وائرس کی ایک نئی قسم کا حملہ تھا، جس کے متعلق ہمیں زیادہ علم نہیں تھا۔ اس وائرس کے اردگرد گلائیکو پروٹین کے ابھار موجود ہیں، جو دیکھنے میں تاج نما دکھائی دیتے ہیں۔ اسی ڈیزائن کی بنا پر اسے کورونا وائرس نام دیا گیا۔

یہ ہولناک بیماری چند ہی دنوں میں چین کے بیشتر علاقوں تک پھیل گئی لیکن سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ووہان تھا۔ چونکہ یہ بیماری انسانوں سے انسانوں میں کئی واسطوں سے منتقل ہوتی ہے، اس لیے اس بیماری کی شدت کے پیش نظر بہت سے ممالک نے فضائی پروازیں معطل کرکے اپنے شہریوں کو چین سے نکالنے کےلیے ہنگامی اقدامات شروع کردیے۔ آج کورونا وائرس چین، آسٹریلیا، اٹلی، جنوبی کوریا سمیت 46 ممالک سے ہوتا ہوا بالآخر پاکستان کی حدود میں قدم رکھ چکا ہے۔ کراچی اور اسلام آباد میں کورونا وائرس کا ایک ایک کیس رپورٹ ہونے کے بعد دونوں شہروں کے ہسپتالوں کو ہائی الرٹ کردیا گیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق ان ہسپتالوں میں لائے گئے کورونا وائرس سے متاثرہ دونوں مریض ایران سے بذریعہ جہاز پاکستان پہنچے ہیں۔ ان سارے معاملات کے بعد کورونا وائرس کے متعلق بہت سے حقائق جاننا انتہائی اہم ہوچکا ہے۔ کورونا وائرس کیسے پھیلتا ہے؟ اس سے حفاظت کیسے کی جاسکتی ہے؟ یہ کس حد تک نقصان دہ ہے؟ کیا آپ کو علم ہے کہ کورونا وائرس کی پیشگوئی چینی سائنسدان ایک سال قبل کرچکے تھے۔ آج کے مضمون میں ہم اس سے متعلق حقائق جاننے کی کوشش کریں گے۔

چین کے صوبہ حوبے سے سامنے آنے والے کورونا وائرس سے اب تک دنیا بھر کے 46 ممالک میں تقریباً 82 ہزار افراد متاثر ہوچکے ہیں۔ جن میں 30 ہزار صحت یاب ہوکر گھر چلے گئے، جبکہ 2800 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ یہ وائرس سانس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہوکر قوتِ مدافعت پر حملہ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرنے والوں میں 80 فیصد ایسے افراد تھے جو عمر میں 60 سال سے زیادہ تھے۔ بقیہ 20 فیصد پہلے سے ہی شوگر جیسی خطرناک بیماری میں مبتلا تھے۔ یعنی کم قوتِ مدافعت کے حامل افراد اس کا فوراً شکار ہوجاتے ہیں۔

کورونا وائرس کے حملے سے متاثرہ افراد میں دو ہفتے تک یہ علامات ظاہر ہوجاتی ہیں۔ اس کا شکار افراد نزلہ، زکام، سر درد، تھکن، تیز بخار، کھانسی اور سانس لینے میں مشکلات کی شکایت کرتے دکھائی دیے، جس وجہ سے انہیں نمونیا کی علامات سمجھ کر نارمل ٹریٹ کیا گیا اور درست علاج نہ ہونے کی وجہ سے یہ بیماری جان لیوا شکل اختیار کرگئی۔

طبی ماہرین کے مطابق کورونا وائرس مریض کے کھانسنے کی وجہ سے ہوا میں کچھ دیر کےلیے معلق رہتا ہے، جبکہ برتنوں کو چھونے کی صورت میں برتنوں پر 9 دن تک موجود رہتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بیماری میل جول سے پھیلتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بیماری کے منظرعام پر آنے کے فوراً بعد چین، اٹلی اور جنوبی کوریا نے متاثرہ علاقوں میں قرنطینہ کے احکامات نافذ کردیے۔ قرنطینہ وہ عمل ہے جس میں کسی بھی شہر میں وبا پھوٹ جانے کے بعد حفاظتی اقدامات کےلیے کرفیو نافذ کردیا جاتا ہے۔

کورونا وائرس سے بچنے کےلیے احتیاطی تدابیر میں ہاتھ دھونا، باوضو رہنا (وضو کے دوران ناک اور منہ میں پانی ڈالنے سے انسان اس وائرس سے محفوظ رہتا ہے)، بھیڑ والی جگہوں پر جانے سے گریز کرنا، پالتو جانوروں سے دور رہنا، اینٹی بائیوٹک ادویہ کے استعمال سے گریز کرنا، پانی اُبال کر پینا اور سرجیکل ماسک کا استعمال کرنا شامل ہیں۔ کچھ طبی ماہرین ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے یہ بھی مشورہ دیتے ہیں کہ ایک بار استعمال شدہ سرجیکل ماسک دوبارہ استعمال نہ کیا جائے اور سرجیکل ماسک اتارنے کے بعد ہاتھ صابن یا جراثیم کش محلول سے لازمی دھونے چاہئیں۔

جہاں ایک جانب اس وائرس کے باعث چین، آسٹریلیا اور ہانگ کانگ کی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ وہیں سازشی تھیوریز پھیلانے والا ٹولہ بھی سرگرم رہا۔ اس دوران سازشی نظریات کے حامل افراد نے یہ افواہیں بھی پھیلائیں کہ کوروانا وائرس دراصل ایک بائیو ویپن ہے، جسے لیبارٹری میں کچھ مخصوص ممالک کی جانب سے بنایا گیا اور چین کی ابھرتی معیشت کے خلاف استعمال کیا گیا۔ دنیا بھر سے معتبر اداروں نے ایسے سازشی نظریات پھیلانے والوں کی شدید حوصلہ شکنی کی۔ بلکہ گوگل، ٹویٹر اور فیس بک نے سازشی نظریات اور غلط معلومات پھیلانے والوں کے خلاف باقاعدہ اقدامات کا بھی اعلان کیا۔

ماہرین کےلیے یہ بات بھی حیران کن تھی کہ 2 مارچ 2019 میں ووہان سے شائع ہونے والے ایک سائنٹفک ریسرچ پیپر میں چار چینی سائنسدانوں نے کورونا وائرس کے پھیلنے کی پیش گوئی کی تھی۔ Wuhan Institute of Virology کی جانب سے شائع کردہ ریسرچ پیپر میں واضح کیا گیا تھا کہ کورونا وائرس جلد چین کے ذریعے دنیا بھر میں پھیل سکتا ہے۔ لیکن یہ کب اور کہاں ہوگا؟ اس کی کھوج لگانا کسی چیلنج سے کم نہیں۔ اس پیپر میں یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا تھا کہ مستقبل میں پھیلنے والا یہ جان لیوا وائرس چمگادڑ کے ذریعے چین بھر میں پھیلے گا، کیونکہ چمگادڑیں بہت طویل سفر کرکے ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچتی ہیں، جس وجہ سے وائرس کو پھیلنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ ریسرچ کرنے والے سائنسدانوں کی جانب سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا تھا کہ اس وائرس کے متعلق ہنگامی تحقیقات کی اشد ضرورت ہے۔ ریسرچ پیپر میں یہ بھی بتایا گیا کہ چینی تہذیب میں جانوروں کو کھانے کے طریقے ٹھیک نہیں، اس وجہ سے بھی اس وائرس سے سب سے زیادہ خطرہ انسان اور دیگر ممالیہ جانوروں کو ہوسکتا ہے۔

اس ریسرچ پیپر کے سامنے آنے کے بعد بہت سے حلقوں کی جانب سے یہ سوال اٹھایا گیا کہ 2003 میں سارس وائرس ، 2012 میں مرس وائرس اور 2019 میں کورونا وائرس کی اتنی واضح پیش گوئی کے باوجود پہلے سے ہی ہنگامی اقدامات کیوں نہ کیے گئے؟ حالانکہ یہ ریسرچ یپیر مارچ 2019 سے ویب سائٹ پر عوام کےلیے موجود تھا اور چینی سائنسدانوں کی جانب سے اس کو نقل کرکے مزید تحقیقات کرنے کی بھی کھلے عام اجازت تھی۔ اس کے باوجود اس معاملے میں طبی ماہرین کی جانب سے سنگین غفلت کیوں برتی گئی؟ اس اعتراض کا جواب طبی ماہرین ایسے دیتے ہیں کہ دنیا بھر میں ہزاروں کے حساب سے ریسرچ پیپر شائع ہوتے رہتے ہیں۔ اس دوران ہر ریسرچ پیپر کو اہمیت دینا ممکن نہیں ہوپاتا۔ لہٰذا یہ عین ممکن ہے کہ آنے والے چند سال میں پھوٹنے والی کسی مہلک بیماری کی تنبیہ سائنسدانوں کی جانب سے ابھی سے جاری کردی گئی ہو، مگر اس بیماری کے پھوٹنے اور تباہی مچانے کے بعد ان کی تحقیقات کی اہمیت کا ہمیں علم ہو۔

جہاں کورونا وائرس کے متعلق اس حد تک ڈر اور خوف پھیلادیا گیا ہے، وہیں طبی ماہرین کے نزدیک یہ بات بھی حقیقت ہے کہ کورونا وائرس اس حد تک جان لیوا نہیں جیسا میڈیا کی جانب سے بتایا جارہا ہے۔ کورونا وائرس سے متاثرہ مریض اگر کسی اور بیماری کا شکار نہیں تو عموماً کچھ دنوں کے بعد خود ہی ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ کورونا وائرس کے مقابلے میں انفلوئنزا اور دیگر وائرس زیادہ خطرناک ہیں، جن کے باعث ہر سال ہزاروں افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ لیکن کورونا وائرس کے معاملے میں خوف و ہراس کی صورتحال اس وجہ سے ہے کیونکہ دنیا کو اس وائرس کا پہلی بار علم ہوا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دیگر ممالک کی طرح پاکستان اور دیگر ایشیائی ممالک بھی اس وائرس کا شکار ہوچکے ہیں، لہٰذا اس موقع پر ہمارا فرض ہے کہ خوف و ہراس کا شکار ہونے اور غلط معلومات پھیلانے کے بجائے اپنے پیاروں سے صحیح معلومات کا تبادلہ کریں اور انہیں کورونا وائرس کے اس خوف سے نجات دلائیں۔ ہم کتنے دلچسپ لوگ ہیں کہ سازشی تھیوریز پر ایمان لاتے ہوئے اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے تو نہیں پلاتے لیکن کورونا وائرس کی روک تھام کےلیے مغرب کی بنائی ہوئی ہر ویکسین استعمال کریں گے۔ ہم لاعلاج پولیو وائرس کے بجائے کورونا وائرس سے ڈر رہے ہیں، جس کا متاثرہ مریض خودبخود ٹھیک ہوجاتا ہے۔ ہمیں اپنے حلقہ احباب میں یہ فکر پھیلانے کی ضرورت ہے کہ کورونا وائرس کے فوبیا سے نکل کر پولیو سے لڑا جائے۔ بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جائیں تاکہ اس لاعلاج وائرس کا سدباب ہوسکے جو صرف پاکستان اور افغانستان میں رہ گیا ہے۔ وگرنہ دنیا کی نظروں میں ہمیں بھی ووہان بنتے دیر نہیں لگے گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply