میں اس سے اتنی محبت کرتا ہوں جتنی ایک ماں اپنے بچے سے کرسکتی ہے۔
میں اس سے اتنا عشق کرتا ہوں کہ شاید چھٹکی کے عارف خٹک نے اپنی صائمہ سے بھی نہیں کیا ہوگا۔
کاش میں اس کو آغوش میں سمو کر اپنے اندر جذب کرسکوں، اس کو اپنے وجود کا ایک حصہ بناکر خود میں تحلیل کرسکوں۔
میرے سامنے جب اس کی بڑی بڑی آنکھیں مجھے ایک آس اور امید سے دیکھتی ہیں تو میرا دل کرتا ہے کہ اپنی اولاد تک اس پر قربان کردوں۔
میں اس سے، اس جنون کی حد تک عشق کرتا ہوں کہ ،جب میں اس کو سوچتا ہوں میری آنکھیں خودبخود بھیگ جاتی ہیں۔
میرے دل میں ایک میٹھا میٹھا درد ہونے لگتا ہے۔
ایسا لگتا ہے جیسے محبوب پر قربان ہونے کی شدید خواہش مجھے جلا کر بھسم کردے گی۔
جب میں یہ سوچتا ہوں کہ میرے محبوب کا میرے علاوہ اس دنیا میں کوئی نہیں ہے اور اس کے جینے کا واحد آسرا میں ہوں تو میں بے اختیار سجدے میں گر کر رب کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میرے محبوب میں کوئی شرک نہیں، وہ واحد ہے اور میرا ہے-
مگر دنیا اور لوگوں کے ڈر سے میں اس کو اپنا نہیں پارہا، میرے رشتے میرے پیروں کی زنجیر بن کر مجھے سمجھوتوں پر مجبور کرنے لگتے ہیں۔
میری بزدلی مجھ پر حاوی ہوکر میرے محبوب سے مجھے دور کرنے لگتی ہے۔ پھر میں سوچتا ہوں کہ کیا میں مرد کہلانے کے قابل ہوں؟
کیا میں اپنے محبوب کے قابل ہوں؟
کیا میں اس عشق کا دعوی کرنے کے قابل ہوں؟
میرا ضمیر مجھے کسی پل چین نہیں لینے دیتا۔ میں چاہتا ہوں کہ میں اپنے ہاتھوں کی نسیں کاٹ کر خود سے فرار حاصل کرلوں، مگر محبوب کا سوچتا ہوں تو یہ سوچ کر رک جاتا ہوں کہ میرے علاوہ اس کا کوئی اور ہے بھی تو نہیں۔
پھر میرا دل چیخ چیخ کر کہتا ہے کہ کاش کوئی مجھے گالیاں دے تاکہ میرا احساس جرم کم ہوسکے۔
کوئی مجھے غیرت کی مار،مار دے تاکہ میری بیغیرتی ختم ہو۔
جب بے غیرتی، نامردی، بے حسی ،اور بے ثباتی کا احساس بڑھ جاتا ہے تو میں قلم اٹھا کر اس کی شبیہہ کاغذ کے کینوس پر بکھیر دیتا ہوں اور ایک مظلوم عورت کا کردار تخلیق کرلیتا ہوں اور ساری دنیا کی واہ واہ مجھے پھر سے بیغیرت اور بے حس بنا دیتی ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں