فلسطین؛ الجھی ہوئی ڈور/دانش علی خان

تاریخ کے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ انسان آج کی دنیا کے نظریاتی اور ابلاغی عدسے سے پرانے واقعات کا تجزیہ کرتا ہے جیسا کہ دیکھنے میں آیا کہ حماس کے حملوں کے نتیجے میں اسرائیل نے غزہ پر وحشیانہ بمباری شروع کردی جس سے تادمِ  تحریر 9 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جنگ بندی کی اپیلوں پر اسرائیل کان دھرنے کو راضی نہیں ہے، ایک طبقہ حماس کو مورد الزام ٹھہرا رہا ہے کہ انھوں نے اسرائیل کو یہ موقع دیا ہی کیوں۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ حماس کے پاس اور کیا آپشنز تھے جو کہ استعمال کیے  بغیر وہ عسکری جدوجہد کی طرف چلے گئے؟
دنیا میں تمام ریاستوں کے درمیان جو مسائل پیش آتے ہیں انکی کوئی نہ کوئی قانونی،تاریخی ،جغرافیائی یا آئینی بنیاد ہوتی ہے جیسے بحیرہ جنوبی چین کے معاملے میں فریقین اپنے دلائل میں تاریخی وجوہات پیش کرتے ہیں

مسئلہ کشمیر میں انڈیا پاکستان دونوں آئینی و جغرافیائی دلائل پیش کرتے ہیں
یوکرین روس کے مسئلے میں ثقافتی ورثہ ،تاریخ اور جغرافیہ دلائل ہیں
لیکن اسرائیل کے قیام میں جغرافیہ ،تاریخ ،قانون کوئی دلیل نہیں صرف طاقت بدنیتی اور دھونس ہے

کیسی عجیب بات ہے کہ زبان اور ثقافت کو قوم کی بنیاد قرار دینے والے مغربی ممالک نے عرب خطے کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کیا
تاریخی طور پر مان لیا جاۓ کہ ہزاروں سال پہلے یہودی فلسطین کے مکین تھے تو کیا آسٹریلیا امریکہ میں بھی یہ اصول لاگو ہوگا کہ زمین اصل مالکوں کو دی جاۓ جو ہزارو سال پہلے نکالے گئے تھے
عین برطانوی مینڈیٹ کے خاتمے کی رات کو اسرائیل کا قیام عمل میں آنا امریکہ اور دیگر طاقتوں کی بدنیتی تھی یہودی چھ فیصد زمین پر آباد تھے جنہیں 58 فیصد زمین دی گئی۔

یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ برطانوی مینڈیٹ کے دوران مصالحت کاری کی تمام کوششوں کو عربوں نے قبول اور یہودیوں نے مسترد کیا۔
اب جب کہ گھر کا مالک آنے والے مہمان کو گھر میں آدھے سے زیادہ حصہ دینے پر رضامند ہوگیا لیکن مہمان طاقت کے گھمنڈ میں کسی تصفیے پر راضی نہیں تھا تو عربوں کے پاس ہتھیار اٹھانے کے سوا کیا آپشن تھا؟

1967 کے جنگ بندی معاہدے میں کہا گیا کہ اسرائیل جنگ شروع ہونے والی پوزیشن پر جائے اور اپنی ہی زمین پر دربدر فلسطینیوں کو کیمپوں سے واپس لاکر انکے گھروں میں بساۓ لیکن ایسا آج تک نہیں ہُوا، فلسطینیوں کی نسلیں کیمپوں میں جوان ہوئیں، گولان کی پہاڑیاں شام کو واپس نہیں کی گئیں۔

75  سال سے مغربی دنیا اسرائیل کو صرف دھونس کی بِنا پر قائم رکھے ہوۓ ہے امریکہ اقوام متحدہ اور دیگر ممالک کے زیر نگرانی ہوۓ معاہدات سے اسرائیل کے مکر جانے کی ایک تاریخ ہے۔
الفتح ایک سیاسی تحریک کے طور پر لانچ کی گئی تھی، یاسر عرفات نے اسے مسلح جدوجہد میں بدل دیا, یہاں وجہ اسرائیل کا غاصبانہ رویہ اور بدمعاشی تھی, اپنے ہی مہربانوں کی سرپرستی میں ہوۓ 1967 کے جنگ بندی معاہدے سے پھرنے پر فلسطینی نوجوانوں کے پاس ہتھیار اٹھانے کے سوا کوئی راستہ نہیں رہا تھا.

یہ امر قابل ذکر ہے کہ الفتح کی گوریلا کاروائیوں کے سبب اسرائیل کی غیر قانونی آبادکاری میں کمی آئی, 1973 کا تیل بحران امریکی امداد میں کمی کے باعث پہلی بار عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل اپنے زیر قبضہ علاقوں میں توسیع کرنے میں ناکام رہا اب یہاں پر منافقت دیکھیں کہ جوں ہی اسرائیل گوریلا کارروائیوں میں کمزور پڑنے لگا تو امریکہ کو فوراً مذاکرات یاد آۓ اور کیمپ ڈیوڈ ہوگیا جس کے تحت مصر کو کچھ علاقے واپس کئے گئے۔

افغان جہاد کے دوران الفتح کی گوریلا کارروائیوں پر گرفت کمزور ہوئی اور حماس وجود میں آئی، حماس ایک عسکری اور سیاسی جدوجہد کا مجموعہ تھی لیکن یہ کہنا غلط ہوگا کہ کہ حماس دہشت گرد تنظیم ہے۔

عمومی طور پر دہشت گردی کی دہائی دینے والے اسرائیلی مظالم ہر بار ہونے والے مذاکرات میں اسرائیلی ہٹ دھرمی کو کیسے نظر انداز کرسکتے ہیں۔

فروری 1994 میں ایک یہودی آبادکار نے 29 فلسطینی قتل کئے حماس نے اعلان کیا کہ اس کے بدلے میں پانچ فدائی حملے کریں گے یہ وہ دور تھاجب اوسلو معاہدے کے لئے مذاکرات جاری تھے
اور حسب معمول اسرائیل پی ایل او کے تحت زیر انتظام علاقوں میں انتظامیہ کی ساخت پر ہٹ دھرمی دکھا رہا تھا حماس نے یکے بعد دیگرے دو فدائی حملے کئے جس کے بعد اچانک ہی اسرائیل نے معاہدے کی جانب پیش رفت دکھائی۔

بظاہر یہ بات کمینگی سی محسوس ہوتی ہے کہ کسی ریاست سے بات منوانے کے لئے شہریوں کو نشانہ بنایا جاۓ لیکن سوال ہے کہ حماس یا فلسطینی حریت پسند کے پاس کیا راستہ ہے؟
کیونکہ اسرائیل اور اس کے سرپرست اپنی ہی طے کردہ شرائط سے پھرنے کی تاریخ رکھتے ہیں

نائن الیون کے بعد سے دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے یہ محض اتفاق ہے کہ حریت پسندوں کے فدائی حملے دہشتگردی کے موثر ترین ہتھیار خودکش دھماکے کی صورت میں سامنے آۓ میڈیا نے دہشت گردی اور حریت پسندی کو جڑواں نظریہ بنا کر پیش کیا جس سے حریت پسندوں کی حمایت میں کمی آئی۔

فلسطین کی دو نمائندہ تنظیمیں ہیں الفتح سیاسی اور حماس عسکری جدوجہد پر یقین رکھتی ہے ایک لمحے کو مان لیتے ہیں کہ فلسطین کا سیاسی حل نکل سکتا ہے لیکن حقیقت میں عالمی طاقتوں کے پاس ایسا کوئی حل موجود نہیں ہے اسرائیل کے نزدیک حل صرف یہ ہے کہ فلسطین نامی۔ ریاست کا وجود روۓ زمین سے مٹا دیا جاۓ۔

یہ بات حماس اور فلسطین کے حریت پسند بھی جانتے ہیں کہ وہ اسرائیل اور اس کے مغربی سرپرستوں کو شکست نہیں دے سکتے لیکن ہر کچھ عرصے بعد ایسے حملے کرتے رہنے کا مقصد ایک عام یہودی کو باور کرانا ہے کہ اسرائیل ایک محفوظ جگہ نہیں ہے ان حملوں کے مخالف ایک راۓ پیش کرتے ہیں کہ موجودہ نوجوان نسل حماس کی کاروائیوں سے بیزار ہے لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ یہودی اسرائیل کو ان ہی کاروائیوں کے سبب محفوظ نہیں سمجھتے اور یہ ہی حماس کا اصل مقصد ہے حماس اسرائیل کو شکست نہیں دے سکتی لیکن مفلوج بنا سکتی ہے۔

فلسطینی حریت پسند دہشت گرد نہیں ہیں بلکہ انکی مثالی جدوجہد ایک ایسی بدمعاش ریاست کے خلاف ہے جو ان کے گھر پر قبضہ کر کے جینے کا حق چھین لینا چاہتا ہے جو افراد سمجھتے ہیں کہ حماس نے غلط کیا تھا تو وہ بتائیں کہ کسی حریت پسند کے پاس دوسرا کیا آپشن تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جمہوریت کے تمام چیمپئن اسرائیل فلسطین معاملے پر اپنے تمام انسانی حقوق اور جمہوریت بالاۓ طاق رکھ دیتے ہیں اپنی ہی کہی بات پر قائم نہیں رہتے تو پھر فلسطینی نوجوان کیا کرے نائن الیون کے بعد میڈیا پروپیگنڈا سے متاثر طبقہ حریت پسندی اور دہشت گردی میں فرق کرنے میں ناکام ہے تو یہ حماس کا قصور نہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply