• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • انتخابی دھاندلی کا آڈٹ/نصیر اللہ خان ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

انتخابی دھاندلی کا آڈٹ/نصیر اللہ خان ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

عدالتوں کے ذریعے انتخابی دھاندلی کا آڈٹ کرنا پی ٹی آئی کیلئے بہت ضروری ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت آڈٹ کے لئے کون سے پیرامیٹرز اختیار کرنا چاہتے ہیں اس پر واضح موقف اختیار نہیں کیا ہے۔ انتخابی دھاندلی کے آڈٹ سے انتخابی عمل پر عوام کا اعتماد بحال ہوگا۔ لہٰذا میرے خیال میں پی ٹی آئی کو عوام کے مینڈیٹ اور جمہوریت کے تحفظ کے لیے جلد از جلد سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کرنا چاہیے۔ آئی ایم ایف پروگرام کو انتخابی دھاندلی کے آڈٹ سے مشروط کرنا پی ٹی آئی کا اچھا فیصلہ ہے۔ تاہم دھاندلی کا آڈٹ کرنے کے لیے صرف آئی ایم ایف سے درخواست کرنا ضروری نہیں ہے۔ انتخابی دھاندلی کے حوالے سے وفود اور خطوط اقوام متحدہ بالخصوص جمہوریت کے چیمپیئن امریکہ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور عالمی عدالت انصاف یا کسی اور موثر فورم کو بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
میرے خیال میں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ پی ٹی آئی کو 2018 اور 2024 کے دھاندلی زدہ انتخابات کو ملکی معیشت اور سیاسی استحکام کے لیے ایک کڑوی گولی کے طور پر قبول کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس نظام میں ایک کے بعد ایک غلطی کی گنجائش موجود ہے۔ اور دوسری غلطی کو انتخابی دھاندلی سے درست کیا جا سکتا ہے، درحقیقت اس قسم کے لوگ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ اصول یہ ہے کہ غلطی غلطی کی طرف لے جاتی ہے اور درستگی درستگی کی طرف لے جاتی ہے، غلطی کی طرف نہیں!
دراصل جس طرح عدالت اور دیگر طاقتور اداروں نے انتخابات کے ذریعے امیدواروں کے موجودہ حقوق کو پامال کیا ہے، جس طرح اداروں نے انتخابات کو متنازعہ کیا ہے، اس نے یقینی طور پر لوگوں کا جمہوریت اور اداروں پر سے اعتماد کھو دیا ہے۔ دوسری جانب یہ سب پاکستان کی سیاسی تاریخ کے ایک سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ کچھ خبروں کے مطابق پاکستان میں ایک سینئر عہدیدار نے ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں کے درمیان انتخابات میں دھاندلی کا اعتراف کیا ہے۔ پی ٹی آئی نے چیف الیکشن کمشنر کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے ملک بھر میں دھاندلی کے خلاف ریلیاں نکالنے کا اعلان کیا۔ انتخابی دھاندلی نے پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ اگلے معاہدے کو مشکوک کردیا ہے۔

عجیب اور مشکوک بات یہ ہے کہ فارم 45 میں پولنگ افسر کے دستخط شدہ نتیجہ متاثرہ امیدواروں کے حق دیتا ہے جبکہ ریٹرننگ افسر دوسرے امیدوار کے حق میں الٹا نتیجہ دیتا ہے۔ فارم 45 ایک اہم دستاویز ہے جو انفرادی پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹنگ کے نتائج کو ریکارڈ کرتی ہے اور انتخابی عمل میں شفافیت اور احتساب کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ فارم 45 میں کوئی بھی تضاد یا ہیرا پھیری الیکشن اور جمہوریت کی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

بات یہ ہے کہ جب کسی جماعت کے پاس عوامی مینڈیٹ نہیں ہے اور جب سیاسی حکمران دھاندلی زدہ انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آتے ہیں، جیسا کہ پچھلی حکومتوں میں ہوا ، تو وہ ملک کے عوام کی خدمت کیسے کر سکتے ہیں؟ اس کے بجائے وہ لیڈر لوٹ مار، رشوت ستانی، اقربا پروری اور خرید و فروخت کا بازار جاری رکھے گا۔ جس شخص کی بنیاد غلط ہو وہ عوامی مفاد کو کیسے ترجیح دے سکتا ہے؟
کسی کو عوام کی پرواہ نہیں۔ جب ازادی سے عام حق رائے دہی کی کوئی اہمیت نہیں ہے تو پھر اس بے کار عمل کی کیا ضرورت ہے؟ اگر کوئی شخص، پارٹی، الیکشن کمیشن، ریٹرننگ افسران اور ان کا عملہ عوام کے ووٹ خرید کر چوری کرے، نتائج کو تبدیل کرے تو الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسر کی ساکھ پر کیا اعتبار کیا جائیگا؟ جمہوریت میں ایک طرف عوام کی حمایت اور تصدیق کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس کا برعکس حل یہ ہے کہ عوام کو فیصلہ سازی کے عمل سے مکمل طور پر دور رکھا جائے۔ اگرچہ عوام کو ائین اور قانون میں ووٹ ڈالنے کی مکمل آزادی دی گئی ہے لیکن نتائج اسٹیبلشمنٹ، الیکشن کمیشن، عدالت اور دیگر اداروں کی مرضی سے آتے ہیں۔ یہ ان کی خود ساختہ ذمہ داری ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ کون حکمران ہونا چاہئے اور کس کو نہیں۔ اس سلسلے میں انتخابات ،جمہوریت کو ٹریک پر رکھنے کے لئے ایک برائے نام عمل ہے!

دراصل عوام کو عام سمجھا جاتا ہے، ان کے شعور کو خام سمجھا جاتا ہے۔ دوسری طرف واضح حق رائے دہی کو چوری ہونے کیلئے اداروں کو چھوڑا جاتا ہے ۔اورعوام کو بے حس اور بے شعورسمجھا جاتا ہے۔ لہذا، حق رائے دہی کو ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت چوری کرکے کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا ہے۔

یہ سوچنے کی بات ہے کہ حقیقی اور ہمدردانہ احساس رکھنے والے سیاست دان اور دانشور اس پر انتخابی دھاندلی پر اب تک خاموش ہے۔ سیاسی رہنما بھی اپنی پارٹی پالیسیوں کی وجہ سے اپنے سچے ضمیر کو چھپا رہے ہیں۔ اگر یہ لوگ بھی رائے دہی کے برعکس اپنی پارٹی کی پالیسی کو اولیت دیں گے تو دوسری طرف وہ بھی ظلم اور ناانصافی میں برابر کے شریک ہوں گے۔

حق رائے دہی کے بعض جائزوں کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے جون 2023 کے بعد سے اپنی حریف تحریک انصاف کے خلاف اپنی پوزیشن دوبارہ حاصل کر لی ہے، جس کی بنیادی وجہ نواز شریف کی جلاوطنی سے واپسی اور سپریم کورٹ کی جانب سے بیٹ کے نشان کو ممنوع قرار دینے کا فیصلہ ہے۔ تاہم انتخابی عمل اور جمہوری اداروں پر عوام کا اعتماد کم ہوا ہے کیونکہ بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی کی گئی اور نتائج میں ہیرا پھیری کی گئی۔ انتخابی دھاندلی نے معیشت اور ملک کے سیاسی استحکام کو بھی متاثر کیا ہے۔

پاکستان میں حالیہ انتخابات نے سیاسی منظر نامے میں تبدیلی لائی ہے، جس کا مقصد سیاسی بخار کو کم کرنا ہے۔ تاہم بعض سیاسی دانشور عوام کو بے شعور اور جاہل سمجھتے ہیں جبکہ اسٹیبلشمنٹ عوام کو بلڈی سویلین کہنے سے نہیں ہچکچاتی۔
اگر پی ٹی آئی کو عوام کا مینڈیٹ دیا گیا اور پھر بھی وہ قومی حکومت اور معیشت میں حصہ نہیں لیتی تو بلاشبہ یہ ملک و قوم کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ عدالتوں نے دن دہاڑے انتخابات میں دھاندلی کی ہے، پی ٹی آئی کے آئینی اور قانونی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے اور ان کے خلاف فیصلے کیے ہیں تو اس صورت میں سیاسی اور معاشی تقسیم میں یقینا اضافہ ہوگا۔ اور ادارے اور نئی حکومت اس کی ذمہ دار ہوگی۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ نظام کو چلنے دیا جائے اور جن حلقوں میں دھاندلی ہوئی ہے انہیں عدالتی ٹریبونل میں چیلنج کیا جائے۔ ایسے سوالات کے بارے میں کیا کہا جائے، یہ مضحکہ خیز اور بے بنیاد ہیں۔ آپ کو یاد ہے کہ سپریم کورٹ اور طاقتور اسٹیبلشمنٹ نے پی ٹی آئی کو یکساں موقع نہیں دیا، ان کا نشان چھین لیا، ان کے کارکنوں کو جیلوں میں ڈال دیا اور انہیں ریلیاں نکالنے کی اجازت نہیں دی۔ بعد ازاں انہیں مختلف انتخابی نشانات دے کر اور مسلسل دباؤ ڈال کر انہوں نے اپنے انتخاب کے لیے بڑے پیمانے پر انتخابات میں دھاندلی کی۔ میرا ماننا ہے کہ حالیہ انتخابات پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ دھاندلی والے انتخابات تھے۔ کچھ رپورٹس کے مطابق 2024 کے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں اور انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیاں ہوئیں۔

اس صورتحال میں ملک کے ادارے اب بھی پی ٹی آئی کے ساتھ غیر مہذب اور غیر قانونی سلوک کر رہے ہیں۔ کارکنوں کے ساتھ اب بھی امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ عدالتوں سمیت ان اداروں نے اس حقیقت کو چھپایا ہے کہ الیکشن کمیشن دھاندلی میں ملوث ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز اور مضحکہ خیز حقیقت ہے جس پر دوبارہ غور کرنے اور بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ پاکستان کے طاقتور ادارے الیکشن کمیشن کے سہولت کار ہیں۔ کوئی نہیں بولتا۔ عوام اس بات کو ماننے کو تیار نہیں ہیں اور یہ حقیقت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات میں دھاندلی کی۔ آئی ایم ایف کی ہدایات کے باوجود انتخابات میں شفافیت کو یقینی نہیں بنایا گیا۔ لیکن غیر منصفانہ فیصلے دے کر الیکشن کمیشن نظام کو مزید آلودہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

میرے خیال میں یہ جمہوریت اور پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس نظام میں تھانے کو غیر معمولی طور پر استعمال کیا جاتا ہے، حالیہ طور پر دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے، اور نظام میں مزاحمت اور دھرنوں کے علاوہ کچھ نہیں بچا ہے۔ اور اس غیر منصفانہ رویہ پر ملک ترقی کی دوڑ میں پیچھے جا رہا ہے۔ اس وقت دہشت گردی نے سر اٹھا لیا ہے کیونکہ اداروں کے لحاظ سے سیاسی جماعتوں میں پسند ناپسند کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق 2021 میں پاکستان کو دہشت گردی کی نمایاں سرگرمیوں کا سامنا کرنا پڑا، حملوں اور ہلاکتوں کی تعداد 2020 کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ پاکستان میں حملے کرنے والے بڑے دہشت گرد گروہوں میں ٹی ٹی پی، بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور داعش کے شامل ہیں۔

یاد رہے کہ باشعور دانشوروں کا طبقہ انتخابات میں دھاندلی کے خلاف آواز اٹھا رہا ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کی حکومت جس طرح انہوں نے خلاف طنز کا استعمال کیا، اسے ہائبرڈ رجیم اورسلیکٹڈ کہا، اس طرح کا شور نہیں سنا جا رہا۔ اس طرح کا رویہ ایک قومی جرم کے مترادف ہے جس سے ملک، عوام، معاشرے اور معیشت کو نقصان پہنچتا ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہیں، خاص طور پر دانشور، ضمیر کی آواز سنیں اور دھاندلی زدہ انتخابات کے خلاف آواز اٹھائیں۔ دوسری طرف بے ایمان دانشور دانستہ یا نادانستہ طور پر عوام اور جمہوریت کے خلاف بیانیہ تشکیل دے رہے ہیں۔ہم سب کو ان پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

دراصل عوام کو عام سمجھا جاتا ہے، ان کے شعور کو خام سمجھا جاتا ہے۔ لہٰذا منصوبہ بندی کے ساتھ حق رائے دہی کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف عوام کی رائے طاقتور لوگوں کی طرف سے چوری کی جاتی ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ حقیقی سیاسی رہنما بھی اپنی پارٹی پالیسیوں کی وجہ سے اپنے حقیقی عزائم چھپا رہے ہیں۔ اگر یہ افراد حق رائے دہی کے برعکس اپنی پارٹی کی پالیسی کو قبول کریں گے تو وہ بھی ظلم اور ناانصافی میں برابر کے شریک ہوں گے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اگر پی ٹی آئی کو عوامی مینڈیٹ واپس مل جاتا ہے اور پھر بھی وہ قومی حکومت اور معیشت میں حصہ نہیں لیتی تو بلاشبہ یہ ملک و قوم کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی ہوگی۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ عدالتوں نے دن دہاڑے انتخابات میں دھاندلی کی ہے، سالہاسال پی ٹی آئی کے حقوق کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ہے اور ان کے خلاف فیصلے کیے ہیں تو اس صورت میں سیاسی اور معاشی تقسیم بڑھے گی ،نفرت اور تعصب مزید گہری ہو جائے گی۔ تاہم میں ذاتی طور پر اس تقسیم اور نفرت کا ذمہ دار پاکستان کے مقتدر ادارے اور نئی حکومت کو مانتا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق صدارتی انتخابات 9 مارچ کو ہونے ہیں جس سے دو روز قبل نصف سینیٹرز اپنی چھ سالہ مدت کے بعد ریٹائر ہوجائیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کو صدارتی امیدوار کے طور پر حمایت دینے کا اعلان کیا ہے۔ پی ٹی آئی نے ابھی تک اپنے امیدوار کا اعلان نہیں کیا ہے لیکن انتخابی عمل اور اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ انتخابات میں دو اہم سیاسی قوتوں کے درمیان سخت مقابلہ ہوگا ، جس میں آزاد اور چھوٹی جماعتیں اہم کردار ادا کریں گی۔

Facebook Comments

نصیر اللہ خان
وکالت کے شعبے سے منسلک ہوکرقانون کی پریکٹس کرتا ہوں۔ قانونی،سماجی اور معاشرتی مضامین پر اخباروں اور ویب سائٹس پر لکھنا پڑھنامیرا مشغلہ ہے ۔ شعوراورآگاہی کا پرچار اپنا عین فریضہ سمجھتا ہوں۔ پولیٹکل سائنس میں ایم اے کیا ہےاس لئے پولیٹکل موضوعات اورمروجہ سیاست پر تعمیری ،تنقیدی جائزے لکھ کرسیاست دانوں ، حکام اعلی اور قارئین کرام کیساتھ اپنا نقطۂ نظر،فہم اور فکر شریک کرتا ہو۔ قانون،تاریخ، سائنس اور جنرل نالج کی کتابوں سے دلی طور پر لگاؤ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply