• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • انقلاب کا ابتدائیہ کوئی لکھے تو سہی/حیدر جاوید سیّد

انقلاب کا ابتدائیہ کوئی لکھے تو سہی/حیدر جاوید سیّد

کیا محض لکھنے پڑھنے کی استعداد کافی ہے اور اس سے نور علم کے سوتے پھوٹتے ہیں؟ یا پھر ضروری ہے کہ لکھنے پڑھنے کی استعداد کے حاملین کو یہ باور کروایا جائے کہ یہ حصول علم کے مراحل کا پہلا مرحلہ تھا۔ اب آگے بڑھیئے اور شعوروآگہی کا فیض حاصل کیجئے تاکہ سماج کے سدھار اور صحیح سمت رہنمائی میں آپ اپنے حصے کا کردار ادا کرسکیں۔

اس طالب علم کی رائے میں محض لکھنا پڑھنا بے معنی ہے اس وقت جب تک یہ شعور نہ ہو کہ صائب فکر کیا ہے اور وہ کیا جس سے مخلوق کو آزار پہنچے۔ ہمیں اس غلط فہمی سے نجات حاصل کرنا ہوگی کہ انقلاب کہیں کاشت ہوتا ہے یا بھائو تائو سے بازار میں ملتا ہے۔ آگہی کے نور سے پھوٹتا ہے ا نقلاب اور بہت ضروری ہے کہ اس کے لئے علم اورانسان دوستی کا ابتدائیہ لکھا جائے۔

ہاں یہ سوال اہم ہے کہ ابتدائیہ لکھے کون؟

ظاہر ہے ملا، جاگیردار، سرمایہ دار، بالادست اشرافیہ، تیسری دنیا کے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں یہ مخلوق وافر مقدار میں پائی جاتی ہے۔ ریاست کے بعض طاقتور ادارے عوام کے حق حکمرانی یعنی انقلاب کے خلاف اس تگڑم کا حصہ ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں پچھلے پچھتر برسوں سے یہی ہورہا ہے۔ اکیسویں صدی کے تیسری دہائی کے تیسرے برس میں (2023 میں ) انصاف کے بٹیرے سے کھیلنے والے بھی اس تگڑم کا حصہ ہیں۔

ان حالات میں جہاں ایک طرف ملوکیت نما جمہوریت کے پجاری اور تگڑم کے درمیان اتحاد دیکھنے میں آرہا ہے اور دوسری طرف چند ہزار بندوق بردار اپنی خواہشات کو کسی نظام کا نام دے کر ریاست کے مدمقابل ہوں۔ یہ سوال خصوصی اہمیت اختیار کرجاتا ہے کہ وہ حقیقی تبدیلی کیسے آئے گی جس کا خواب آنکھوں میں سجائے لوگوں نے بٹوارے کی کوکھ سے پھوٹے آگ و خون کے دریا کو پار کیا تھا؟

پچھتر سال ہوچکے ان خوابوں کی تعبیر پانے کی جستجو میں، خواب شکن یا خواب فروش جو بھی نام دے لیں اس قدر طاقتور ثابت ہوئے کہ وہ تو نسل در نسل اقتدار و وسائل پر قابض ہیں لیکن رعایا کو عوام کا درجہ بھی نہیں مل پایا۔

ہماریے خیال میں یہ رائے صائب ہے کہ اگر سقوط مشرقی پاکستان سے سبق سیکھ لیا ہوتا تو اگلے برسوں میں فلاحی مملکت کے خواب کی تعبیر پانے میں کوئی کسر نہ اٹھارکھی گئی ہوتی۔ تاریخ ہمیں یہ بتاتی اور سمجھاتی ہے کہ علم اور انسان دوستی کے نور سے محروم سماج اور ریاستیں اہمیت ہی نہیں وجود بھی کھوبیٹھتی ہیں

لیکن معاف کیجئے گا یہاں تاریخ کے نام پر جو پڑھایا رٹوایا جاتا ہے اس سے دولے شاہ کے چوہے ہی پروان چڑھ سکتے ہیں آگہی کے فیض سے مالامال نسل یا نسلیں ہرگز نہیں۔

ستم بالائے ستم یہ کہ ہمارے فوجی و سیاسی حکمرانوں نے مطلب براری کے لئے مذہب کو ہتھیار بنایا، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ پاپائیت کتنے سماج، مملکتیں اور عہد کھاگئی۔ اب نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔

کھمبیوں کی طرح اُگ آنے والے پاپائیت کے مرکزوں میں تیار ہونے والی مخلوق زندہ سماج کا حصہ بننے کے ادراک سے محروم ہے۔ نتیجتاً دو نہیں کئی انتہائوں میں تقسیم سماج میں ہم زندہ رہنے پر مجبور ہیں اور جب کبھی کوئی اس صورتحال کو تہذیبی ارتقاء اور معاشرتی ترقی کے راستے کی رکاوٹ قرار دے کر سرمدی نغمہ الاپنے کی کوشش کرتا ہے اس کا گلا دبانے والوں کے ٹھٹھ لگ جاتے ہیں۔ فتوئوں کی چاند ماری کے شوقین الگ سے آسمان سر پر اٹھالیتے ہیں۔

سوال کرنا بدتہذیبی اور غوروفکر الحاد قرار پائے تو ایسے ہی حالات بنتے ہیں جیسے ہمارے یہاں ان دنوں ہیں۔

ظاہر ہے جب علم کی معروف تعبیر یہ ہو کہ لکھنا پڑھنا آتا ہو یا دوسری رائے میں احکامات شریعہ سے آگاہی، تو پھر یہی ہوگا۔

ضد اور ہٹ دھرمی بوکر وسعت نظروقلب کی توقع ایسے ہی ہے جیسے حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ دلوانے کا عمل۔ عجیب بات یہ ہے کہ وہ جو خود کو وارث علم قرار دیتے نہیں تھکتے اور اپنے تقدس کے لئے جھٹ سے احادیث پیش کردیتے ہیں انہوں نے بھی کبھی سید ابوالحسن امام علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم کے اس ارشاد پر توجہ دینے کی زحمت نہیں کی کہ

“سوال کے جواب میں نخوت کامظاہرہ کرنے کی بجائے حلیمی سے کلام کرو اور طالب علم کے اطمینان تک دھیمے انداز میں بیان جاری رکھو”۔

یہاں اس کے برعکس ہوتا ہے۔ کچھ لوگ تو سوال سنتے ہی کہہ اٹھتے ہیں”ارے میاں!یہ آپ کے سمجھنے کی باتیں نہیں” اور کچھ فرماتے ہیں”چند کتابیں کیا پڑھ لیں دماغ آسمان پر پرواز کرنے لگا”۔

جب کبھی ایسی صورتحال سے دوچار ہوتا ہوں تو مجھے تلسی داس یاد آجاتے ہیں۔ کہا

“کچھ لوگ اپنی جہالت چھپانے کے لئے سوال پر لاٹھیاں برساتے ہیں”۔

حضرت محی الدین ابن عربیؒ نے بھی کیا خوب کہا

“علم کا فیض جاری رہے تو رواں دواں دریا، بخیل کے ہاتھ چڑھ جائے تو بدبودار جوہڑ”۔

معاف کیجئے گا ہم انقلاب کی بات کررہے تھے جس کی آج ہمارے سماج کو اشد ضرورت ہے۔ گو ہمارے یہاں پندرہ بیس قائدین انقلاب نہ صرف پائے جاتے ہیں بلکہ انکے عقیدت مند (مذہبی و سیاسی) یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے قائد پیدا ہی انقلاب کے لئے ہوئے ہیں۔

ٹھنڈے دل سے اگر اس زعم پر غور کرلیا جائے تو حقیقت آشکار ہوجاتی ہے۔ ان پندرہ بیس قائدین انقلاب کی اپنی زندگیوں میں انقلاب آیا اور خوب آیا۔ یہ انقلاب ہی تو ہے جن کے ابا میاں ملتان میں سواریوں والے تانگے میں سفر کرتے تھے وہ کروڑوں روپے والی موٹر میں گھومتے جھومتے ہیں۔

مگر کیا کریں صاحب جس معاشرے میں ڈھنگ سے بات نہ کرسکنے والے طوطی بیان، سڑک چھاپ محافظ اسلام اور کمیشن و کرپشن سے نامور ہوئے علمبردار جمہوریت بنے پھرتے ہوں اس معاشرے میں ہمہ قسم کے عطائیوں کی ہی جے جے کار ہوتی ہے۔ دلچسپ اتفاق یہ ہے کہ پچھلی چار پانچ دہائیوں میں ہمارے یہاں انقلاب کے مختلف برانڈز کے جو بیوپاری آئے اور ہوئے ان سب نے بلاتفریق دائیں و بائیں بازووں کے انقلاب کو اپنی جیب کی گھڑی بناکے رکھا۔

وقت کے ساتھ انقلاب کے ان بیوپاریوں کا قبلہ اور طبقہ ضرور تبدیل ہوا۔ عام آدمی کے حصہ میں مزید محرومیاں، ٓذلتیں، ناآسودگیاں اور استحصال ہی آیا۔

بیسوی صدی کی آٹھویں اور نویں دہائیوں میں جہادی انقلابی بھی ابھرے۔ لوگوں کے بچوں کو بنام جہاد پرائی جنگوں کا ایندھن بنواتے پھرے اور خود دیکھتے ہی دیکھتے “عالی جناب” ہوگئے۔

خیر چھوڑیئے ان قصوں کو بڑے طویل اور خون رولانے والے ہیں۔ جو ہوا سو ہوا۔ ہمارے عہد کے لوگوں کو اب سوچنایہ ہے کہ کیا ہم اپنی آئندہ نسلوں کو ان بے رحم بیوپاریوں کی نئی نسل کے رحم و کرم پر چھوڑنے کا گناہ کریں گے یا پھر انقلاب کا ابتدائیہ لکھنے کے لئے اپنے اپنے حصہ کا فرض ادا کریں گے؟

سوال بہت سادہ ہے اور جوب و عمل بھی اتنا ہی سادہ۔ کوئی بھول بھلیاں نہیں۔ صاف سیدھی بات بلکہ نسخہ کیمیا ہے، وہ یہ کہ علم اور انسان دوستی کو پروان چڑھایئے، ذات پات، فرقے ورقے سب کو تج دیجئے۔

ایک ایسے سماج کی تشکیل کے لئے اپنے حصے کا پہلا قدم اٹھایئے جو شرف انسانی کا شاہکار ہو۔ ایسا سماج جس میں ریاست کے وسائل پر یکساں حق ہو۔

نظام ہائے حکومت زمیں زادوں کی توقیر میں اضافے کا سبب بنے۔ کوئی بالادست خواب فروش پنپنے نہ پائے۔

یقین مانیے اگر ہم 25 کروڑ لوگوں میں سے ہر شخص اپنے حصہ کا ایک قدم بھی اٹھالے تو منزل ہمارے قدموں کے نیچے ہوگی اور ہم اپنی آئندہ نسلوں کو ایک صاف ستھرا سماج، امتیازات سے پاک نظام اور ایک ایسی فلاحی مملکت دے پائیں گے جس میں خلق خدا کا راج ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

چہروں کی بجائے نظام تبدیل ہوچکا ہوگا۔ اپنے بچوں کے لئے اٹھیے اور میدان عمل میں نکلیے۔ مسیحائوں کی آمد کے خواب دیکھنے کے بجائے آئندہ نسلوں کے لئے مسیحا بنئے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply