کڑوا خربوزہ اور مقام شکر

حضرت لقمان رحمہ اللہ علیہ طب و حکمت میں کامل انسان تھے۔ اگرچہ وہ ایک غلام کے بیٹے تھے اور خود بھی غلام تھے لیکن خدا والے اور حرص و ہوس سے بالکل پاک شخص تھے۔ ان کا مالک بظاہر تو ان کا آقا تھا لیکن وہ ان کے مرتبہ اور ان کی علمی و طبی قابلیت سے واقف ہونے کی بناء پر دل سے ان کا غلام تھا۔ وہ حضرت لقمان کو آزاد کر دینا چاہتے تھے لیکن حضرت لقمان اپنے اس راز کو چھپائے رکھنا چاہتے تھے کہ وہ فہم و فراست اور طب و حکمت میں زبردست صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ وہ اپنی قابلیت کو دنیا پر ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے ان کی خواہش تھی کہ وہ ابھی غلام ہی رہیں ،آقا بھی ان کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہیں کرنا چاہتا تھا۔
اس آقا کو حضرت لقمان سے اتنی محبت اور عقیدت ہوگئی تھی کہ محل کے ملازم جب اس کے لیے کھانا لاتے تو وہ پہلے اپنا کھانا حضرت لقمان کی خدمت میں پیش کرتا تھا کہ پہلے حضرت لقمان کھا لیں پھر وہ ان کا بچا ہوا جھوٹا کھائے گا۔ وہ آقا حضرت لقمان کا جھوٹا کھاتا اور خوش ہوتا تھا مگر جو کھانا حضرت لقمان نہ کھاتے اسے پھینک دیا کرتا تھا۔ بالفرض کھاتا بھی تو بہت بے دلی سے اور تھوڑا سا۔حضرت لقمان سے اس کی محبت و عقیدت اس درجہ تک پہنچ گئی کہ ایک بار کسی نے اسے ایک خربوزہ تحفہ کے طور پر دیا۔ اس وقت حضرت لقمان اس کے پاس موجود تھے’’جلدی جاؤ میرے بیٹے لقمان کو بلا لاؤ‘‘ آقا نے ایک غلام کو حکم دیا۔ غلام آگیا اور اس نے حضرت لقمان کو تلاش کر کے آقا کا پیغام دیا کہ وہ آپ کو طلب کر رہا ہے۔ حضرت لقمان بھی اپنے مالک و آقا کے مکمل وفا دار نمک خوار تھے، جونہی انہیں غلام نے بتایا کہ انہیں آقا نے طلب کیا ہے وہ فوراً آقا کے پاس پہنچے جو انہیں اولاد کی طرح عزیز رکھتا تھا۔ آقا نے حضرت لقمان کو اپنے سامنے بٹھایا اور چھری سنبھال کر خربوزہ کاٹا۔ اس نے ایک قاش حضرت لقمان کو دی۔
حضرت لقمان نے خربوزے کی وہ قاش اتنے شوق اور رغبت سے اور مزے لے لے کر کھائی کہ آقا نے انہیں دوسری کاش کاٹ کر دے دی۔ حضرت لقمان نے وہ بھی کھائی اور خربوزے کی تعریف کی’’بہت میٹھا اور مزے دار خربوزہ ہے یوں لگتا ہے جیسے خالص شہد ہو‘‘ آقا نے پھر ایک قاش دے دی۔ اس طرح وہ ایک ایک کر کے خربوزے کی قاش حضرت لقمان کو دیتا رہا اور حضرت لقمان کھاتے کھاتے خربوزے کی شیرینی اور لطف کی تعریف کرتے رہے۔ جب آخری قاش باقی رہ گئی تو حضرت لقمان کے آقا نے کہا’’یہ میں کھاؤں گا تاکہ مجھے بھی پتا چلے کہ خربوزہ کتنا میٹھا اور مزے دار ہے” تم نے ایسے مزے لے لے کر کھایا ہے میرے منہ میں پانی بھر آیا اور میرا بھی کھانے کو جی چاہ رہا ہے‘‘۔۔۔ یہ کہہ کر اس نے خربوزے کی قاش کھائی لیکن اصل میں خربوزہ بہت کڑوا تھا۔ خربوزے کی کڑواہٹ نے آقا کے حلق میں مرچیں لگا دیں اور زبان میں آبلے پر گئے۔ ایک گھنٹہ تک خربوزے کی کڑواہٹ سے وہ بد مزہ رہا۔ پھر اس نے حیرت سے سوال کیا’’اے پیارے! تو نے اس زہریلے خربوزے کو کیوں کھایا اور ظلم کو مہربانی سمجھتا رہا؟ یہ بھی کوئی صبر ہے؟ تو نے ایسا صبر کیوں کیا؟ شاید تو اپنی جان کا دشمن ہے۔ ارے تو نے خربوزہ کھانے سے بچنے کے لیے کوئی بہانہ یا ٹال مٹول کیوں نہیں کی ؟ چلو اتنا ہی کہہ دیا ہوتا کہ مجھے اس کے کھانے پر اعتراض ہے یا بس کیجئے‘‘
جواب میں حضرت لقمان نے فرمایا۔۔
’’اے مہربان! تمہارے ہاتھ نعمت عطا کرنے والے ہیں اور میں نے ان ہاتھوں سے اب تک اتنی نعمتیں کھائی ہیں کہ شرم سے میرا سر جھکا رہا ہے، اسی لیے مجھے شرم آئی کہ ایک تلخ چیز تمہارے ہاتھ سے نہ کھاؤں تو یہ ناشکری ہوگی کہ اب تک تمہارے ہاتھوں سے لذیذ اور شیریں چیزیں کھاتا رہا ہوں، اگر میں ایک کڑوے اور تلخ خربوزے پر واویلا کرتا اور اسے کھانے میں کوئی عذر کرتا تو یہ ہرگز مناسب نہ تھا۔ تمہارے ان شکر و شیریں بخشنے والے ہاتھ نے اس خربوزے میں کڑواہٹ رہنے ہی نہیں دی کہ میں اس کا شکوہ کرتا‘‘۔
اس حکایت میں اک جہان معنی پوشیدہ ہے،خصوصا ہمارے لئے جنہیں حکم ہی یہی ملا تھا کہ اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں مزید اپنی نعمتوں میں بڑھاتا چلا جاؤں گا مگر ہم ٹھہرے صدا کے نا شکرے اور بات بے بات شکوے کرنے والے تو باقی خدائی حکموں کی طرح ہم نے اس حکم کو بھی پسِ پشت ڈال دیا۔۔ شکر ایک ایساوصف ہے کہ اگر اس پر عمل پیرا ہوا جائے تو ہماری زندگی میں ایک انقلاب آسکتا ہے ۔خدا نے ہمیں کروڑوں قسم کی نعمتیں عطا کیں جن سے ہم روزانہ اپنی زندگی میں مستفید ہوتے ہیں،اس کے باوجود اگر ہماری زندگی میں کوئی غم آئے تو ہم واویلا شروع کر دیتے ہیں کہ ہائے ہم تو لوٹے گئے، ہم تو کہیں کے نہیں رہے حالانکہ وہ نعمت خدا نے دی تھی اس نے واپس لے لی تو اس میں ہمارے غم کرنے کا کیا تک بنتا ہے۔مالک اگر اپنی چیز واپس لے لے تو کیا ہمیں حق ہے کہ ہم روتے پھریں۔ ہم روزانہ شور مچاتے ہیں کہ خدا نے ہمیں دیا کیا ہے؟ اگر ہماری طبیعت غوروفکر کرنے والی ہوتی تو ہمیں معلوم ہوتا کہ یہ ہنستا مسکراتا سورج جو روزانہ مشرق سے طلوع ہوتا ہے یہ اگر نہ ہوتا تو ہماری زندگی کس طرح سراپاء عذاب ہوتی۔ہم کوئی کام کرنے کے قابل ہی نہ ہوتے بلکہ زندگی بھی منجمد ہو جاتی۔ خدا نے ہمیں اچھی صحت عطا کی ہے ،ہمارے ہاتھ پاؤں سلامت ہیں ،ہماری آنکھیں بینا ہیں ،ہمارے ہوش وحواس صحیح سلامت ہیں،یہ کتنے بڑے شکر کا مقام ہے وگرنہ ہم ہسپتالوں میں جائیں تو ہر طرف مریض کراہ رہے ہوتے ہیں کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں ہوتا،کوئی ان کی خبر گیری کرنے والا نہیں ہوتا جبکہ ہماری صحت اچھی بھلی ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ہزاروں نعمتیں عطا کرتا ہے اور ہم پر ہمیشہ مہربانیاں کرتا ہے اگر کسی وقت خدا کی طرف سے ہم پر کوئی تکلیف و مصیبت آبھی جائے تو اس پر صبر و شکر ادا کرتے ہوئے ہمیشہ مثبت سوچنا چاہیے کہ اگر ادنیٰ غلام اپنے آقا کی ناشکری نہیں کرتا تو ہمارے خدا کی ہم پر کتنی مہربانیاں ہیں کتنے احسانات ہیں جو وہ ہر پل ہم پر کررہا ہوتا ہے،اس لئے ہمیں شکر کے پہلو کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ ہمارے اتنے مسائل بالکل بھی نہیں ہیں جتنا ہم نے انہیں سنگین بنا لیا ہے اور یہ سب ناشکری کا نتیجہ ہے۔دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں جو ہم سے بھی زیادہ غریب،مسکین،مسائل میں گھرے ہوئے ہیں،مگر وہ ہم سے بہتر خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں۔اس پہلو سے بھی ہم پر خدا کاشکر واجب ہے ۔جتنا ہم شکر کریں گے اسی حساب سے خدا ہمیں نوازے گا۔خدا کی عنایات وکرم کا بے پایاں سلسلہ تو اتنا وسیع ہے کہ ہم بلا شبہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ۔۔۔
اس قدر مجھ پر ہوئیں تیری عنایات وکرم
جن کا مشکل ہے کہ تا روز قیامت ہو شمار!

Facebook Comments

راشداحمد
صحرا نشیں فقیر۔ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply