میں نے پاکستان ڈوبتے دیکھا ۔۔ اظہر سید

مشرقی پاکستان ٹوٹ رہا تھا اس وقت خود غرض مافیا کی تمام تر توجہ اپنے اقتدار کے استحکام پر تھی ۔آج پھر پاکستان ڈوب رہا ہے اور حب الوطنی کے استعارے بے حسی کی چادر اوڑھے اٹھکھیلیاں ہی تو کر رہے ہیں ۔جب سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد باقی ماندہ پاکستان ڈوب رہا تھا تو ملکی معیشت ٹیکنیکلی دیوالیہ ہو چکی تھی ۔مڈل کلاس طبقہ تیزی کے ساتھ ختم ہو رہا تھا ۔ملک کے تمام ادارے بے حس لوگوں کے ہاتھوں میں تھے ۔ریاست کا اہم ترین ستون عدلیہ کا ایک چیف جسٹس قوم کو ڈیم کے نام پر مافیا کی آشیرباد سے فول بنا کر ریٹائر ہو چکا تھا اور قوم سے لوٹے ہوئے پیسوں سے اپنے حلال کے نطفوں اور نطفیوں کا مستقبل محفوظ بنا چکا تھا ۔
جب باقی ماندہ پاکستان ڈوب رہا تھا تو افسانوں اور شاعری کے حوالے دے کر عدل کی عصمت دری کرنے والا دوسرا چیف جسٹس بھی ریٹائرمنٹ کے بعد ایک بیرونی ملک فیلو شپ کے بہانے فرار ہو چکا تھا ۔
ملک کے سب سے بڑے صوبے کی عدالت کیلئے ان ججوں کی تعیناتی کی سفارش کی گئی تھی جن میں کوئی تحریک انصاف کا سابقہ ٹکٹ ہولڈر تھا ،کوئی جنرل مشرف کا سابقہ وکیل تھا ،کوئی وفاقی وزیر کا قریبی عزیز تھا ،کوئی کسی اعلی جج کا عزیز تھا اور کوئی وکلا الیکشن میں ووٹوں کے ہیر پھیر کا ملزم تھا ،کوئی حکمران جماعت کا سابقہ عہدیدار تھا ۔
جب پاکستان ڈوب رہا تھا اعلی عدالت کا ایک جج شوکت عزیز صدیقی انصاف کی دہائی دیتے ریٹائرمنٹ کی مدت پر پہنچ گیا تھا اسکی اپیل کی شنوائی نہیں ہوئی ۔سپریم کا ایک جج قاضی عیسی نظرثانی کی اپیل میں اپنے بعض ساتھی ججوں کی خود غرضی کا نوحہ پڑھ رہا تھا ۔عدالت میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل اپنے دلائل میں تاخیری حربے استمال کر رہا تھا تاکہ ایک جج کی آنے والی ریٹائرمنٹ کی وجہ سے بینچ ٹوٹ جائے اور سپریم کورٹ کے انصاف کے طالب جسٹس عیسی کو انصاف نہ مل سکے اس وقت تک جب تک سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ ہولڈر ،عہدیدار اور فوجی امروں کے وکیل ایسے لوگ ترقی پا کر سپریم کورٹ نہ پہنچ جائیں ۔
کرونا کے ہاتھوں شہید ہونے والے پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس سیٹھ وقار کو سپریم کورٹ میں سنیارٹی کے باوجود داخلے کی اجازت نہیں ملی لیکن ان کے جنرل مشرف کو سزا دینے والے فیصلے کے خلاف فیصلہ دینے والے بینچ کے ایک جج کو سپریم کورٹ میں داخلہ مل گیا تھا ۔
جب پاکستان ڈوب رہا تھا تو ایک ترقی یافتہ مہذب ملک برطانیہ کے ایک فوجی جنرل کو صرف اس بات پر فوج سے برطرف کر دیا گیا کہ اس کے بیٹے نے کس طرح ایک مہنگے تعلیمی ادارے میں داخلہ لیا جب کہ پاکستان کے ایک سابق جنرل کی اربوں روپیہ کے بیرون ملک اثاثوں کی خبروں پر کسی عدالت،کسی ادارے نے نوٹس نہیں لیا تھا ۔
ان دنوں دنیا کے ایک اور مہذب اور ترقی یافتہ ملک امریکہ میں ایک پولیس افسر کو ایک کالے امریکی شہری کے قتل کا ملزم قرار دیا گیا جبکہ پاکستان میں ساہیوال کی بے گناہ فیملی کو خون میں نہلانے والے سب کے سب صاف بچ گئے ۔نقیب اللہ جعلی پولیس مقابلے کے کسی ملزم کو سزا نہیں ملی ۔کراچی میں ایک ملزم کو سرعام قتل کرنے والے وردی پوش اہلکار آخر میں ریاست سے سزا معاف کرا گئے ۔
جب پاکستان ڈوب رہا تھا پہلے وفاق کی ایک اکائی سندھ کی پولیس نے احتجاج کیا اور پھر بڑی اکائی پنجاب پولیس نے احتجاج کیا کہ پہلے ہمیں تحریک لبیک والوں کے ہاتھوں قتل کروایا اور پھر ریاست نے اس تنظیم سے صلح کر کے گرفتار شدگان کو رہا کر دیا ۔
جب پاکستان ڈوب رہا تھا تو میں نے دیکھا پہلے ایک سیاسی جماعت کے سربراہ آصف علی زرداری کے خلاف میڈیا مہم چلائی ،اینکرز استعمال کئے ۔ریاستی ادارے استعمال کئے اور پھر صلح کر لی ۔  اینکرز کی زبان بند کر دی ۔مقدمات ایک ایک کر کے ختم کرنا شروع کر دیے ۔
جب پاکستان ڈوب رہا تھا تو اس کشمیر جس کے نام پر چار فوجی حکمران اس ملک پر قابض ہوئے وہ بھارت نے ہڑپ کر لیا حب الوطنی کے استعارے “ماضی بھلا دینے “کا وعظ کرنے لگے ۔
جب پاکستان ڈوب رہا تھا شہریوں کا عدالتوں پر اعتماد ختم ہو چکا تھا ۔طاقتور ادارے کی ساکھ دغدار ہو چکی تھی ۔ریاستی ادارے مخصوص مافیا کے اشارے پر چلائے جا رہے تھے ۔ میڈیا پر  کچھ لوگ  مسلط کر دیے گئے تھے ۔
جو سچائی کی آواز بلند کرتا اس پر زندگی تنگ ہو جاتی ۔ حب الوطنی کا نام لے کر کبھی حامد میر کو گولیاں ماری جاتیں ۔ کبھی ابصار عالم کو قتل کرنے کی کوئی سازش کرتا ۔کبھی مطیع اللہ جان اغوا ہوتا اور کبھی احمد نورانی غدار قرار پاتا ۔یہ سب سچے پاکستانی تھے اور ریاست پر مشکل وقت آیا تو اپنی فوج کے پیچھے چٹان بن کر کھڑے ہو گئے تھے اور تمام دلال اینکرز دشمن قوتوں کے ساتھ مل کر انکی دلالی کرنے لگے تھے ۔
جب پاکستان ڈوب رہا تھا عام شہری اپنے بچوں کے مستقبل کے متعلق مضطرب تھا ۔بیرونی دنیا میں پاکستان کی عزت اور وقار ختم ہو چکا تھا ۔عالمی مالیاتی ادارے پاکستانی معیشت پر قابض ہو چکے تھے ۔وفاق کی تمام اکائیوں پنجاب کا شریف خاندان ،سندھ کا بھٹو خاندان ،خیبر پختون خوا کی پختون تحفظ موومنٹ کی لیڈر شپ ،مذہبی حلقوں کی طاقتور آواز مولانا فضل الرحمن ،بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں سب کے سب غدار بنا دیے گئے تھے اور ملک کی تقدیر ان لوگوں کے ہاتھوں میں تھی جن کے جیسے لوگ اس وقت ملک پر قابض تھے جب ڈھاکہ ڈوب رہا تھا ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply