قدیم مصر میں ممیاں کیسے بنتی تھیں؟/ڈاکٹر حفیظ الحسن

رامسیس دوم جسے عرفِ عام میں فرعون سمجھا جاتا ہے۔ (ویسے فرعون پرانے مصر میں بادشاہوں کو کہتے تھے) رامسیس دوم کی ممی 1881 میں مصر میں دریائے نیل کے مغربی علاقے دیر البحری میں موجود قدیم دور کے مقابر ومنادر سے دریافت ہوئی۔ یہ ممی اس وقت مصر کے دارلحکومت قاہرہ کے عجائب گھر میں پڑی ہے۔ اس کا قد 5فٹ،7 انچ ہے۔ یہ ممی تقریباً بارہ سو قبلِ مسیح کی ہے یعنی آج سے قریب سوا تین ہزار سال پرانی۔
ممی بنانے یعنی حنوط کرنے کے طریقہ کار میں سب سے پہلے نکیل کے ذریعے ناک سے دماغ کو باہر نکالا جاتا۔ پھر جسم میں پیٹ اور سینے کو چیر کر اندرونی اعضا جیسے کہ دل، پھیپھڑے، آنتیں وغیرہ نکال کر سکھائی جاتیں۔ پھر ان اعضا کو مختلف مرتبانوں میں اور دل کو دوبارہ سینے میں رکھا جاتا۔
اس سب کے بعد جسم کو اندر سے مخصوص مصالحوں اور شراب سے دھویا جاتا اور پھر لاش کو نمک میں 70 روز کے لیے دبا دیا جاتا۔ نمک جسم سے تمام پانی کو جذب کرلیتا اور لاش مکمل طور پر سوکھ جاتی۔ پھر اس لاش پر سے نمک صاف کیا جاتا اور اس میں پچکی ہوئی جگہوں کو شکل دینے کے لیے اندر کپڑے یا ریت بھری جاتی۔
اس سب عمل کے بعد جسم کو پٹیوں سے لپیٹا جاتا جن میں مخلتف قسم کے تعویذات ہوتے۔
لاشوں کو حنوط کرنے کا عمل قدیم مصر میں عام تھا اور یہ محض بادشاہوں کے لیے نہیں بلکہ امیر شاہی افراد کے لیے بھی کیا جاتا۔
جو بے حد غریب ہوتے انکا جسم گرم ریت میں دبا دیا جاتا جس سے وہ قدرتی طور پر خشک ہو کر حنوط ہو جاتے۔
لاشوں کو حنوط کرنے والے مذہبی پیشوا انہیں حنوط کرنے کے عمل میں مردے کے لیے مرنے کی بعد کی زندگی کو بہتر اور انہیں سزا سے بچانے کے لیے کئی طرح کے منتر، دعائیں اور عبادات کرتے۔
امیروں کی حنوط زدہ لاشیں مقبروں میں دفنائی جاتیں اور انکی لاشوں کے ساتھ قیمتی نوادرات اور انکے روزمرہ کے استعمال کی اشیاءجو وہ چھوڑ گئے تھے، بھی لاش کے ساتھ دفن کی جاتیں جسکا مقصد مرنے کے بعد کی زندگی میں ان اشیاء کا استعمال تھا۔ قدیم مصری تہذیب میں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کا تصور نہایت اہمیت کا حامل تھا اور اسکی تیاری خاص اہتمام سے کی جاتی۔ سزا اور جزا کا تصور بھی اس سلسلے میں بنیادی تھا۔
قدیم مصریوں کے مطابق اگر مرنے والے شخص نے زندگی میں اچھے کام کیے ہونگے تو موت کے بعد اُسے بہتر زندگی نصیب ہوگی۔ اس حوالے سے یہانا جاتا تھا کہ مرنے کے بعد کسی انسان کا دل ترازو میں ایک ہلکے سے “پر” کے مقابلے تولا جائے گا۔ اگر ترازو میں دل کا پلڑا اس “پر” کے پلڑے سے بھاری ہے تو آپکو شیر اور مگر مچھ کی خصوصیات کا حامل دیو مالائی مصری دیوتا آمِت کھا جائے گا۔ اور اگر ہلکا ہوا تو آپکو مرنے کے بعد کی ابدی اور پر سکون زندگی نصیب ہو گی۔ اس سب کے علاوہ آخرت کے سفر میں رستے میں کئی دروازے ہونگے جہاں پہرہ دار مخلوقات پہرا دے رہی ہونگی اور خاص منتر یا سوالات کے جوابات سے ہی وہ مخلوقات آپکو اندر جانے کی اجازت دینگی۔
اس وجہ سے لاشوں کو حنوط کرنے کے دوران راہب سن پر وہ مخصوص الفاظ اور جوابات پڑھتے اور لکھتے بھی تاکہ مردوں کو ان دروازوں سے گزرنے میں آسانی ہو۔
قدیم مصری تہذیب میں مرنے کے بعد دوسری زندگی کا تصور اہم تھا جو بعد میں انسانی تاریخ کی کئی دیگر تہذیبوں اور نظریات میں بھی نظر آیا۔
حنوط شدہ لاشوں پر تحقیق سائنس کی ایک اہم شاخ ہے جسکا مقصد مصر کی قدیم تہذیب کو سمجھنا اور انسانی معاشروں کے ارتقاء کو جاننا ہے۔ اس حوالے سے دنیا بھر میں جدید سائنسی طریقوں سے ان حنوط شدہ لاشوں کو تفصیلی تجزیہ کیا جاتا ہے جن میں گیس کرومیٹوگرسفی سے لیکر ڈیجٹل سکینگ تک کئی جدید سائنسی طریقہ کار استعمال کیے جاتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply