مجھے فیمینسٹ نہ کہو۔۔ربیعہ سلیم مرزا

ڈاکخانے والوں نے نیا طریقہ ڈھونڈھ لیا ہے،جس پارسل پہ فون نمبر لکھا ہو اسے کال کرکے کہتے ہیں کہ ” آپ کا گھر نہیں مل رہا ،پوسٹ آفس آکر کتاب لے جائیں۔”
جس وقت کال آئی سارے بچے کالج اور میں گھر میں اکیلی۔
سلیم صبح سگریٹ لینے گئے  تب میں چونکی تھی لیکن کہا نہیں “کہ موٹر سائکل پہ سگریٹ لینے کون جاتا ہے “؟
وہی ہوا صبح کا بھولا شام کو ہی آئے گا
مجھے یقین تھاکہ طاہرہ کاظمی کی کتاب ہے ۔
گھنٹہ بھر دل کو سمجھایا کہ ابھی آجاتے ہیں ۔لیکن محبت کہاں چین لینے دیتی ہے ۔چاہے کتاب سے ہو یا کتاب والی سے ۔
“اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے” کے مصداق کمر والی بیلٹ پیٹ پہ باندھی   اور دھیرے دھیرے گھر سے نکل آئی ۔رکشے میں بیٹھ کر وہاں پہنچی جہاں پوسٹ آفس تھا ۔اب وہاں اے سی اور فریج ٹھیک کرنے کی دکان تھی ۔
یہ ملک جانے کب ٹھیک ہوگا ۔؟
اسی سے پوچھ لیا “بھائی یہاں ڈاکخانہ ہوتا تھا “؟
کہنے لگا “باجی وہ پہلے والی جگہ پہ چلا گیا ہے ”
ڈاکخانہ نہ ہوا سلیم مرزے کا دل ہوگیا، چنانچہ احتیاطاً پوچھ لیا،”پہلے والی جگہ سے مراد اس جگہ، جہاں اس سے پہلے تھا، یا وہاں، جہاں اس سے پہلے ہوا کرتا تھا “؟
بیچارہ شاید نیا تھا ۔کہنے لگا
“انڈر پاس کے ساتھ، یہی کوئی آدھ کلومیٹر ”
آپریشن نہ ہوا ہوتا تو دوقدم کی مسافت تھی،اس طرف چل پڑی ،خالی رکشہ ڈھونڈتی ڈھونڈتی چلتی رہی تو ایک ویہلا رکشہ مل گیا،”ڈاکخانے جانا ہے “؟
اس نے مجھے غور سے دیکھا، میں سمجھی سوچ رہا ہوگا کہ “ہسپتال کی سواری ڈاکخانے “؟
مگر وہ شریف آدمی تھا کہنے لگا “وہ جو لال رنگ کا بورڈ نظر آرہا ہے، ڈاکخانہ ہے ”
میں چپ چاپ چل دی، دو فرلانگ دو کوس کی طرح طے ہوا ۔
ایک طرف بل جمع کروانے والوں کی لمبی لائن تو دوسری طرف بے ترتیب موٹرسائیکلیں ۔
عجیب لاری اڈے جیسا ڈاکخانہ تھا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اندر ایک بندہ ہاون دستے سے کاغذوں پہ مہریں ٹھوک رہاتھا۔ اسے کہا بھائی ایک پارسل آیا ہے ۔اس نے ایک دوسری ٹیبل کی طرف اشارہ کیا ،جہاں اس سے زیادہ بیزار شخص مصروف نظر آنے کی کوشش میں احمق لگ رہا تھا۔
کتاب کاپوچھا تو بنا کسی تصدیق کے تھمادی ۔
کہ اب کتاب کون منگواتا ہے؟
کتاب لیکر ابھی گھر پہنچی تو دل سڑ گیا، مرزا صاحب کچن میں چائے بنارہے ہیں ۔یہ بھی نہ پوچھا ،کہاں گئیں تھیں، کہاں سے آئی ہو، بس دیکھتے ہی کہنے لگے “چائے پیوگی “؟
اب آپ بتائیں کہا کہوں؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply