سموسہ وسطی ایشیا برصغیر پاک و ہند میں تیرہویں یا چودہویں صدی میں مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے باورچیوں نے متعارف کرایا تھا، جو اس وقت دہلی سلطنت کے حکمرانوں کے لیے شاہی کچن میں کھانا پکاتے تھے، مزے کی بات یہ ہے کہ تاریخی مصادر یہی بتاتے ہیں کہ سموسہ پہلے تلا نہیں جاتا تھا، بلکہ پکایا جاتا تھا، اس کا ثبوت قرون وسطی سولہویں صدی میں ناصر الدین شاہی کی کتاب “نعمت نامہ” کے مخطوطات ہیں، پوسٹ میں دونوں مخطوطات آپ کو نظر آ سکتے ہیں جن میں سے ایک میں سموسہ بنانے یعنی پکانے کی ترکیب اور دوسری تصویر میں سموسہ بادشاہوں کے سامنے پیش کیے جانے کو دیکھ سکتے ہیں۔
سموسہ مختلف شکلوں میں بنا، قیمہ، مصالحے دار آلو ، سبزیوں گوشت مچھلی، حتی کہ عرب ممالک میں تو اس کی سب سے زیادہ معروف قسم پنیر اور لبنہ کے ساتھ بھی بہت پسند کیے جاتے ہیں، تاریخ میں یہ جنوبی ایشیا مشرقی ایشیا افریقہ سب جگہ مقبول رہا، سموسے کی سب سے قدیم تاریخی سند عباسی دور کے شاعر اسحاق الموصلی نے سنبوساج کی تعریف میں ملتی ہے، عربوں کی تاریخ میں اس کا ذکر دسویں صدی سے تیرہویں صدی تک ان کے پکوانوں میں ملتا ہے۔ تاریخ میں اس کے کئی نام ملتے ہیں، سنبوساک ، سنبوساق اور سنبوساج، عرب میں اس کا سب سے معروف نام سمبوسہ ہے۔
لیکن سموسے کو جو عزت پنجابیوں نے دی، وہ عزت آج تک کوئی نہ دے سکا، پنجابیوں نے یہ آلو والا سموسہ سب سے پہلے بنایا اسی لیے آلو والے سموسے کو پوری دنیا میں “پنجابی سموسہ” کہا جاتا ہے, پنجابی سموسہ عمومی طور پر تین کونوں والے سموسے کی نسبت تھوڑا بڑا، اور فلنگ سے بھرپور ہوتا ہے، اس کے علاوہ اس میں کرنچی میدہ تھوڑا سا زیادہ ہوتا ہے، پاکستان میں کئی غریبوں کا ایک وقت میں انتہائی کم قیمت کا یہ کھانا بھی تصور کیا جاسکتا ہے، پنجابیوں نہیں سموسہ پلیٹ کا تصور دیا جس میں چنے، آلو پیاز کے ساتھ اسے ایک بھرپور کھانا بنادیا۔
نوٹ : برصغیر والو : اور تم پنجابیوں کے کون کون سے احسانات چکا پاؤ گے۔
1- دو تصاویر قدیم فارسی مخطوطات ناصر الدین شاہی کی کتاب ” نعمت نامہ” سے ہیں جن میں سے ایک میں سموسے کی ترکیب اور دوسرے میں بادشاہ کو پکایا ہوا سموسہ پیش کرتے دکھایا گیا ہے۔
2- یہ پنجابی سموسہ ہے، جسے آپ عام سموسہ سمجھتے ہیں۔ یہ اتنا عام نہیں ہے،اس کی نسبت پنجابیوں سے ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں