وما علینا الا البلاغ/حسان عالمگیر عباسی

کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ زاویہ نظر بدلنے کی شدید ضرورت ہے۔ ہم روایت پسندی میں اتنے جکڑے جا چکے ہیں، کہ بس وہی بات، عمل، اپروچ، زاویہ اور رویہ پسند آتا ہے جو چلتا آرہا ہے۔ اس سے ہٹ کے سوچنے سے کھوپڑی میں شاید درد اٹھتا ہے۔ ہماری سیاست بھی روایات کی غلام ہے۔ سب باتیں، معاملات، میل جول، اللّے تللّے روایت کی چکی میں پِس رہے ہیں جس کا براہ راست نقصان نسل ِ نو برداشت کرتی آرہی ہے۔ اگر روایتی لوگ یا وہ حضرات جو چھ سات دہائیوں سے اِسی نظام کا حصّہ ہیں وہ اسی کا حصّہ رہیں تو سمجھ بھی آتی ہے لیکن نوجوانوں کو جاننا ہو گا کہ ان کے لیے انقلاب، تبدیلی، شور شرابوں، جھوٹ، فسادات سے کہیں پہلے ان کی اپنی جسمانی و ذہنی صحت بھی بھرپور وقت و اہمیت کی حقدار ہے۔ دہائیوں سے کھڑی یہ سرمایہ دارانہ سیاست محض کارکنان کی امید و جرات و بہادری جیسی صفات کی وجہ سے کبھی بھی تبدیل نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے پوری قوم کو یکجا ہونا پڑنا ہے۔ ان حالات میں کثیر الجماعتی نظامِ سیاست اور سرمایہ دارانہ اور انتہا پسندانہ مذہبی سیاست کسی بھی طرح تبدیلی کا پیش خیمہ نظر نہیں آرہی۔

اسی طرح سماجیات بھی ہمیں مختلف زاویوں سے پرکھنے کی ضرورت ہے۔ نفسیات بھی ایک ضروری معاملہ  ہے۔ ہم بس ڈھکن قوم ہیں۔ بس ہمیں ہمارے سو کالڈ  لیڈرز نے ہماری ویلیوز اور روایات اور ثریّا سے زمیں   پر آسماں  نے ہم کو دے مارا جیسی باتیں بتا کر سوچنے سمجھنے اور نئی راہیں ڈھونڈنے سے دور کر دیا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ کارکن کو موٹیویٹڈ ہونا چاہیے لیکن اسے سمجھنا ہو گا کہ کہیں اس کی موٹیویشن غلط جگہ تو صَرف نہیں ہو رہی؟

Advertisements
julia rana solicitors london

کارکن اور عام شہری کو جاننا ہو گا کہ اسے صلاحیت ڈھونڈنی ہے لیکن کیا وہ صلاحیت اللّے تللّے کے پیچھے ضائع تو نہیں جا رہی؟ کارکن کو سوچنا چاہیے کہ وہ سر تا پیر ایک انسان ہے۔ کیا اس کی عزت نفس اس گندے نظام کی وجہ سے مجروح تو نہیں ہو رہی۔؟ کیا وہ ذہنی اذیت کا شکار تو نہیں ہے۔؟ کیا وہ مذہبی انتہا پسندی کے بھینٹ تو نہیں چڑھ رہا۔ نئی نسل کو چاہیے کہ وہ خود کو غیر معمولی سمجھے اور ان اللّوں تللّوں کے پیچھے خود کو نظر انداز نہ کرے۔ وما علینا الا البلاغ!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply