میرٹھ چھاؤنی،کیمپ نمبر 28میں گزارے22ماہ(14)-گوہر تاج

ایسے انسان کی آپ بیتی  جنہوں نے باوجود صدمات کو جھیلنے  کے اپنی زندگی کے ان واقعات کو دہرانے کی خواہش ظاہر کی جس کے وہ عینی شاہد تھے تاکہ تاریخ کے صفحات پہ انکے سچ کا اضافہ ہوسکے۔یہ داستان ہے 64سالہ ڈاکٹر انور شکیل کی، جو آج کینیڈا کے شہری ہیں ۔ انہوں نے مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں ایک اُردو زبان بولنے والے بہاری خاندان میں آنکھ کھولی ۔ اور سقوط ڈھاکہ کے سانحہ اور جنگ میں ہارنے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ انڈیا کے شہر میرٹھ کی چھاؤنی کے کیمپ نمبر 28 میں زندگی کے 22 ماہ کی قید کاٹی۔

گزشتہ اقساط پڑھنے  کے لیے لنک پر کلک کیجیے

https://www.mukaalma.com/author/gohar/

قسط 14

قفس میں سانس لینےکے کچھ اور بہانے۔فلمیں اور کھیل

باوجود اسکے کہ ہم سب میں رہائی کی تڑپ تھی ہمارے صیاد دل بہلانے کے کچھ ایسےانتظامات کرتے رہتے کہ قید کی گھٹن کا احساس کم ہوتا گیا۔

قدرت نے ہر انسان کی جبلت میں جمالیاتی حسن اور فنون لطیفہ سے مسحور ہونے کاجذبہ رکھا ہے۔جس طرح اچھی آواز اور دلکش سُروں سے گُندھے نغمے ہمارے مزاج کو بدل دیتے ہیں۔ اسی طرح قصہ گو اپنے سننے والوں کو اپنے قصّے  کی انگلی پکڑواکےوقت کی تنگ سے تنگ گھاٹیاں اس طرح پار کروا دیتے ہیں کہ اس کے گزرنے کا احساس بھی نہیں ہوتا۔

اکثر شام کو مغرب کے بعد فارغ لمحات میں جب سب حضرات جمع ہوتے تو وہ اپنے اپنےاداروں کے متعلق باتیں کرتے۔ان میں ایک صفدر صاحب بھی تھے جو پلانٹ پروٹیکشن میں کام کرتے تھے۔ جن کی باتیں بڑی محویت سے سُنی جاتیں۔ ٹی این ٹی ہی کے فیاض صاحب بھی تھے جو بہت سُریلے تھے ، جومشہور گانے سناتے اور لوگوں کا دل بہلاتے۔ایک آدھ بول آج بھی یاد ہیں۔

تیری صورت نگاہوں میں پھرتی رہے

یا محمد رفیع کا گانا

یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں

وہ سقوط ڈھاکہ کا کڑا وقت ضرور تھا مگر فلموں پہ ابھی زوال نہیں آیا تھا۔۔ ملک کےدولخت ہونے کی وجہ سے اسکی کوکھ ضروراُجڑی مگر سینما ہال ابھی بھی آباد تھے۔لوگوں میں اندھیرے ہال میں جاکر فلمیں دیکھنے کا طلسم برقرار تھا۔ جو انکے انسانی احساسات کو اُجاگر کرتا۔

کیمپ میں کیمپ کمانڈر جے پی ایس باجوہ صاحب آتے اور ہم سب کی امن و  آشتی کے ساتھ رہنے کی بہت تعریف کرتے ۔ ان کا طریقہ تھا کہ جب بھی آتے سب سے ہاتھ ملاتے اور خیریت پوچھتے۔ شاید یہ ہم سب کی کارگردگی کے  مظاہرے کا تحفہ ہوگا کہ جومہینے میں ایک فلم دکھانے کا فیصلہ کیا گیا۔

فلمیں جو پوری دنیا میں تفریح کا اہم ذریعہ تصور کی جاتی ہیں۔ جو کہانی ، اداکاری ،خوبصورت موسیقی اور گانوں سے مرصّع ہوتی ہیں۔ ہماری ہندوستانی اور پاکستانی فلموں کا ایک خاص ہی مزا ہوتا ہے جسے مکس چٹپٹے اچار سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ رومانس ، کامیڈی ، مار دھاڑ، جذبات سے بھرپور فلمیں جن کی کمزور کہانی کو اکثرخوبصورت موسیقی، گلوکاری اور شاعری کا عنصر مضبوط بناتا ہے۔

فلم؛مغلِ اعظم

ہندوستان کی فلمیں مقبول سہی لیکن پھر بھی قیدیوں سے پوچھا گیا کہ وہ کون سی زبان میں فلم دیکھنا پسند کریں گے۔ اردو/ہندی یا انگریزی ۔ بات انڈین ہندی فلموں پہ ختم ہوئی ۔ اور زیادہ تر زور فیملی فلمز پہ تھا۔ کیونکہ یہاں خاندان بھی ساتھ تھے۔ یہ فلمیں ہفتہ میں تین بار چلتیں کیونکہ ایک کیمپ میں تین کیج cage تھے۔

جب فلم کا دن ہوتا اس دن ہمیں صبح ہی بتا دیا جاتا کہ آج رات فلاں فلم چلے گی۔ اس دن کی خوشی ہی الگ ہوتی تھی ۔ انتظار صبح سے ہوتا مگر فلم عشاء کی نماز سے فارغ ہوکے دکھائی  جاتی۔اس کے لیے زمین پہ دو پولز یا ڈنڈے لگا کے اس پر اسکرین کی سفیدچادر ڈال دی جاتی۔ اور پیچھے پروجیکٹر چلتا۔ اس طرح قید کے 22ماہ کے دوران  ہم نے  پندرہ سولہ اُردو یا ہندی فلمیں  دیکھی ہوں گی  ۔ ایک پنجابی بھی تھی جس کا نام تھا “کڑکا دُلّے اولے اولے”۔

سب سے پہلے فلم مغل اعظم دکھائی  گئی۔ جس میں اُس وقت کے نامور ہیرو دلیپ کمار اورانکے مقابل مدھو بالا تھیں ۔ شہزادہ  سلیم اور کنیز انارکلی کی محبت جو ایک شہنشاہ کی طاقت نے پنپنے نہ دی۔ یہ فلم اپنے وقت کی مشہور ترین فلم تھی ۔ اسکے بعد دکھائی  جانے والی دوسری فلمیں بھی اپنے وقت کی بہت مشہور اور کامیاب فلمیں تھیں۔مثلاًپاکیزہ، آدمی، دشمن، آنند، انداز، میرے محبوب وغیرہ ۔

کچھ لوگوں نے اس وقت کی ایک انگریزی فلم “دی گریٹ اسکیپ” کی فرمائش کی جوجنگی قیدیوں کے جیل سے فرار کی کہانی پہ مبنی تھی۔ تاہم یہ فرمائش رَد کر دی گئی کہ آپ لوگ فرار کا پروگرام بنائیں گے یہ دیکھ کے، لہٰذا وہ تو نہیں چلے گی۔دکھائی  جانےوالی فلم کے دوران لوگ پسندیدگی کا اظہار تالیاں بجا کے کرتے ۔ فلم دیکھنے کے بعداس کا سحر دِنوں طاری رہتا ۔اس پہ تبصرے ہوتے اور فلموں کے گانے کافی عرصے تک سب کے منہ پہ چڑھے رہتے۔

لوڈو

اس میں کوئی  شک نہیں کہ ان فلموں نے قید کی فضا میں پھیلے  ڈیپریشن کی کیفیت سےنکلنے میں مدد دی۔ میرے والد جو فلموں کے شوقین تھے اپنی ہیجانی ذہنی کیفیت سےنکل رہے تھے۔وہ جب ڈھاکہ میں تھے تو ایک پارٹ ٹائم ملازمت چار سینما ہالز کے مالک کے لیے بطور اکاونٹنٹ کام کرتے تھے۔ جن کے نام تھے اسٹار، تاج محل، آزاد اور روپ محل۔مجھے یاد ہے کہ انہیں فلموں کے پاس ملتے تھے اور ہم سب باکس آفس  پر  جا کر فلمیں دیکھتے تھے۔

فلمیں لوگوں کو زندگی کے قریب لا رہی تھیں۔لیکن مہینے میں ایک بار فلم ہی کافی نہیں تھی جو ذہنی آسودگی کا سبب بنتی۔ باقی وقت کیسے گزرے بالخصوص بچوں کا۔اپنی ماؤں کے ساتھ رہنے والے بچوں کے لیے کچھ کھیل تو وہ تھے جن کے لیے کوئی پیسہ خرچ کرنے کی ضرورت نہ تھی مثلاً  سب سے پہلے تو چھپن چھپائی  شروع ہُواپھربچے چاک سے زمین پہ لائنیں بنا کے پہل دوج کھیلتے ۔ کسی کے پاس سے ایک گیندنکل آئی  تو پِٹھو کھیلا جانے لگا جس میں ایک پتھر کے اوپر کئی پتھر رکھ کر اسے گیندسے نشانہ تاک کے مارا جاتا۔ کسی کے پاس فٹبال نکل آئی  جس میں ہَوا نہ تھی پھرفوجیوں کو دے کے اس میں ہَوا بھروائی  گئی اور بچے اس سے کھیلتے۔

سانپ سیڑھی

ایک  کھیل جو سب کا پسندیدہ تھا وہ لوڈو تھا۔ لوگوں نے اپنے ٹوکن جمع کرکے اس گیم کوخریدا جو ہم سب اپنے خاندان کے ساتھ کھیلا کرتے۔میں بھی جب امی اور بہن بھائیوں کے پاس جاتا تو یہی  کھیلنا پسند کرتا۔ خاص کرسانپ اور سیڑھی والا گیم ۔ مجھےاچھی طرح یاد ہے کہ اس میں ہم ستانوے پہ جاکر دو پہ آجاتے ۔ ہمیں آنے والی بعد کی زندگی نے بتایا کہ زندگی میں بلندی کے بعد پستی پہ جانے کے تماشے  کا سلسلہ ہمیشہ جاری ہی رہتا ہے۔ تاہم اس وقت یہ گیمز بچوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے اور بہلانے  میں بہت مددگار تھیں ۔

 

بڑوں نے کبڈی کھلینا شروع کردی تھی۔ یہ کھیل ہم نے ڈھاکہ میں کبھی نہیں دیکھاتھا۔بلکہ نام بھی نہیں سنا تھا۔ بڑوں کو والی بال اور اس کا نیٹ لگا کے دیا گیا۔ اس کےبعد لوگوں نے فٹبال کا مطالبہ کیا۔ ایک صاحب جو پی آئی  اے کے انجینئر تھے انہوں نےاسکریبل ، بورڈ گیم سے متعارف کروایا۔ جو انہوں نے خود ہی بنایا۔ سگریٹ کے ڈبوں سے سارے حروف بناۓ۔مجھے یہ گیم سب سے  زیادہ پسند تھا۔ ان صاحب کی دیکھادیکھی اوروں نے بھی اسکریبل گیم بنالیے۔ یہ گیم ہمیں  کئی گھنٹے مصروف رکھتاتھا۔اسکے علاوہ تاش کے پتوں سے رمی کھیلنا خاص کر مجھے پسند تھا۔

ایک مشغلہ ریڈیو سے نشر ہونے والی خبریں سننا بھی تھا ۔ اس اُمید پہ کہ قید سے کب رہائی  کی خبر ملے۔ پھر بی بی سی ریڈیو بھی لگنے لگا۔ جس میں پروگرام “سیربین” بہت شوق سے سنا جاتا۔ آہستہ آہستہ سب کو محسوس ہونے لگا کہ دنیا سب قیدیوںکو  بُھلا بیٹھی ہے کیونکہ اب وقت کے ساتھ ساتھ ان جنگی قیدیوں کا ذکر کم ہونے لگا۔البتہ ریڈیو سیلون سے امین سیانی کا فلمی گیتوں پہ مبنی ” بناکا گیت مالا” بہت مقبول تھا جو یقینا ًسب میں زندگی کی ایک نئی امنگ پیدا کردیتا ہوگا۔

جہاں تک مجھے یاد ہے کہ خواتین زیادہ تر نماز اور عبادات میں مصروف رہتی تھیں۔شاید اس قید نے انہیں دکھ میں تو مبتلا کیا لیکن  22 ماہ روایتی نسوانی امور سےرَہا کردیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply