ترکی میں پاکستانی نوجوانوں پر اغواکاروں کا تشدد
طاہر یاسین طاہر
روزگار کی تلاش میں انسانی سمگلروں کے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بننے والے گوجرانولہ کے نوجوانوں کی ویڈیو وائرل ہو گئی ہے اور ایف آئی اے بھی حرکت میں آچکی ہے۔ ابتدائی میڈیا رپورٹس کے مطابق ایف آئی اے کے حکام نے ذیشان نامی مغوی کے گھر والوں سےملاقات کی اور تین ایجنٹوں کو گرفتار کر لیا۔ مبینہ طور پر پاکستان میں موجود انسانی سمگلروں کے ترکی میں موجود اغوا کاروں سے گہرے روابط ہیں۔ یہ واقعہ اور اس سے جڑی ہوئی ویڈیو اس قدر دلسوز ہے کہ کوئی بھی صاحب درد چند سیکنڈ سے زیادہ اس ویڈیو کو دیکھ نہیں سکتا۔اغوا کار جو مبینہ طور پر کرد علیحدگی پسند ہیں وہ چھریوں اور لوہے کے ڈنڈوں سے مغویوں کو مار رہے ہیں اور ان کے جسم زخم زخم کر چکے ہیں۔
مبینہ طور پہ ترکی کے بارڈر پہ افغان اور ترک ایجنٹوں کو طے شدہ پیسوں سے زیادہ نہ دینے پر انھوں نے پاکستانیوں کو اغوا کر لیا اور تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ یہ امر واقعی ہے کہ پاکستانی ایجنٹوں کے ایرانی،ترکش اور افغانی ایجنٹوں سے رابطے ہوتے ہیں۔ اس واقعے کےحوالے سے بھی مبینہ طور پر مغویوں کے گھر والے مردان کے ایک رہائشی کے ذریعے اغوا کاروں سے ڈیل کر رہے ہیں، جو کہ اغوا کاروں اور ایجنٹوں کے ساتھ رابطے میں ہے۔بالخصوص کوئٹہ کے راستے ایران اور وہاں سے ترکی داخل کرانے والے ایجنٹس آپس میں اپنے گھناونے کاروبار کی وجہ سے جڑے ہوئے ہیں۔اکثر پاکستانی جن کے پاس زیادہ پیسے نہیں ہوتے اور غربت و گھریلو حالات سے تنگ ہوتے ہیں وہ آنکھوں میں یورپ کے خواب لے کر انسانی سمگلروں کے ہاتھوں یوں فروخت ہوتے رہتے ہیں جیسے سبزی منڈی میں فروٹ اور سبزی۔
صرف یہی نہیں بلکہ لیبیا کے راستے اٹلی اور ترکی کے راستے یونان پہنچانے کے وعدے کرنے والے اکثر اپنے شکار کو سمندر کی لہروں کے رحم و کر پر بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ مغویوں کو پاکستان لانے کے لیے ترکی میں موجود پاکستان کا سفارت خانہ روایتی سستی کے بجائے ہنگامی اقدامات اٹھائے اور ترک وزارت داخلہ و خارجہ کو معاملے کی سنگینی اور پاکستان کی تشویش سے آگاہ کرے۔یہ کہنے میں کوئی عار نہیں پاکستان سے انسانی سمگلنگ کے مذکورہ روٹس ، ایف آئی اے سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو معلوم ہیں مگر بوجہ تمام تر دعووں کے ابھی تک انسانی سمگلروں پہ آہنی ہاتھ نہیں ڈالا جا سکا۔کیونکہ انسانی سمگلر جو کبھی کسی وجہ سے گرفتار ہو جاتے ہیں چند ماہ کے بعد وہ پھر یہی کام کر رہے ہوتے ہیں۔یہاں سارا قصور انسانی سمگلروں کا بھی نہیں بلکہ لوگوں کو بھی یہ خطرناک اور پر تشدد راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں