ایٹم بموں کو چپ کراؤ

ایک بار دیکھا ہے دوسری بار دیکھنے سے خوف آتا ہے۔۔

دوسری جنگ عظیم کا اختتام انسان کے خوف سے ہوا۔ یہ خوف ان دو ایٹم بم دھماکوں کا پیدا کیا ہوا تھا جو جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے گئے۔ امریکی فضائیہ کے پائلٹس جنہوں نے یہ ہتھیار ہدف تک پہنچائے، ان کا یہ بیان بہت معنی خیز تھا "اگر ہمیں اس تباہی کا زرا بھی احساس ہوتا تو ایسا کبھی نہ کرتے"۔ خود ایٹم بم بنانے والی کمپنیوں کے سی ای او بھی ایسے ہی تاثرات کا اظہار کرتے تھے۔

ایٹم بم کی بے مثال طاقت نے انسان کو اُس وقت سے خوفزدہ کر رکھا ہے۔ مغربی ادیبوں نے اس کے استعمال کو twisting the dragon's tail یعنی ڈریگن کی دم مروڑنا لکھا ہے۔ اور بلاشبہ یہ ڈریگن سے کئی زیادہ خوفناک ہے۔
چند اعداد و شمار بتاتا ہوں جس سے اس توانائی کے ذخیرے کی شدید طاقت کا اندازہ ہوگا۔

ہیروشیما پر گرائے جانے والے ایٹم بم کا نام " little boy لٹل بوائے" تھا۔ یہ پہلا یورینیم ساختہ بم تھا جس میں 64 کلو یورینیم کا استعمال ہوا تھا۔ اس کا دھماکہ ایسا تھا گویا ایک کروڑ پچاس لاکھ کلوگرام بارود کا دھماکہ کیا گیا ہو۔ لٹل بوائے نامی ایسے 36 بم بنائے گئے تھے۔

ناگاساکی پر گرائے جانے والے بم کا نام "fat man فیٹ مین" رکھا گیا تھا۔ یہ پہلا پلوٹونیم ساختہ بم تھا اور اس میں صرف 4.6 کلو پلوٹونیم استعمال کیا گیا تھا۔ اس کے دھماکے سے دو کروڑ دس لاکھ کلوگرام بارود جتنی توانائی خارج ہوئی۔ پہلی کھیپ میں اس جیسے 150 تباہی کے سامان بنائے گئے تھے۔

انسان نے اپنے بنائے اس شدید تباہی کے ہتھیار کو خاموش کر دیا اور انہیں زمین میں سینکڑوں میٹر نیچے دفنا دیا (آن دا ریکارڈ یہی بات بتائی جاتی ہے حقیقت کیا ہے یہ بتانا مشکل ہے)۔ ہر نیا ملک جب ایٹمی طاقت بننے کی کوشش کرتا ہے تو اِسی خوف کے تحت اس پر سخت پابندیاں لگائی جاتی ہے۔ اسے بنانا مشکل اور حفاظت مشکل ترین ہے۔ مذہبی ممالک کے ہاتھ میں یہ ہتھیار مزید خطرناک ہے کیونکہ ان ممالک کو مذہبی غیرت کے نام پر بہت آسانی سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔۔ روس ایک ایٹمی طاقت تھا لیکن اس کی طرف سے افغان وار میں اپنا خاتمہ ہو جانے کے باوجود بھی اس ہتھیار کا استعمال نہیں کیا گیا۔۔۔ کچھ تو تھا جس کی پردہ داری تھی۔ سویت یونین کو اس بات کا ادراک تھا کہ فیوژن اور چین ری ایکشن اتنا سستا نہیں تھا کہ اسے اس لمحے استعمال کیا جائے۔

اپریل 1986 میں روس کے شہر چیرنوبیل Chernobyl میں ایٹمی بجلی گھر میں کچھ تکنیکی خرابی کے باعث ایٹمی فضلہ فضا میں بکھر گیا جس کی تابکاری سے 31 افراد کی ہلاکت ہوئی۔ شہر میں موجود باقی افراد کو نکال لیا گیا اور تب سے وہ علاقہ یورینیم کی تابکاری کی وجہ سے 45 لاکھ سال تک انسانوں کے لئے نو گو ایریا بن گیا ہے۔ آج بھی اس شہر کے گرد پیلے رنگ کا ربن بندھا ہوا ہے اور کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔

اس تباہی نے انسان کو ڈرا دیا لیکن کیا اس سے بچنے کی کوئی تیاری بھی ہوئی ہے؟
امریکی ریاست کولوراڈو میں دو ہزار فٹ گہرائی میں پانچ ایکڑ رقبے پر Cheyenne Mountain Complex بنایا گیا ہے۔ اس کا بارڈر سٹیل سے بنا ہے اور اسے زلزلہ پروف رکھنے کے لئے اس کی بنیاد میں بڑے بڑے سپرنگ استعمال کئے گئے ہیں۔ اس کمپلیکس کے ایک کلومیٹر کے دائرے میں اگر تیس میگاٹن کا ایٹمی دھماکہ بھی ہو جائے تو یہ عمارت اسے برداشت کر سکتی ہے۔

یہ سب مضمون لکھنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ہمارے اکثر ساتھی پاکستان کی ایٹمی طاقت کو مذہبی جنگوں میں استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ آئے روز اسلامی تنظیمیں اپنے جلسوں میں حکمرانوں کو "ایٹمی طاقت ہو کر بھی" کچھ نہ کرنے کے طعنے دیتی رہتی ہیں۔ مومنین کو کفار پر ضرب لگانے کے لئے اکسانے والے اخبارات کو یہی ایک آخری حل نظر آتا ہے اور کچھ دفاعی تجزیہ نگار اور کالم نگار بھی ہر وقت کپڑا ہاتھ میں لئے غزوہ ہند کی تیاری کے سلسلے میں ایٹمی ہتھیاروں کو چمکاتے رہتے ہیں، انہیں ایٹمی ہتھیاروں میں فرشتوں کی نصرت نظر آتی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہاتھوں میں ہیں، اس لئے ایسے طعنوں کا کچھ فائدہ نہیں۔۔۔ اور حکومت کو پاکستان جیسی دفاعی سٹیٹ میں Cheyenne Mountain Complex کی طرز پر محفوظ پناہ گاہیں بنانے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ ایسا کرنے سے ہی preservation of history اور preservation of seeds and other genetic life ممکن ہو سکے گی۔

Facebook Comments

ثاقب الرحمٰن
چند شکستہ حروف ، چند بکھرے خیالات ۔۔ یقین سے تہی دست ، گمانوں کے لشکر کا قیدی ۔۔ ۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply