ہم سب، وجاہت مسعود سے عارف خٹک تک

“ہم سب” پر شائع ہونے والی ایک تحریر کا آج کل بہت چرچہ ہے اور بڑے زور و شور سے ہے۔ اس تحریر کے شائع ہونے سے لے کر اب تک کئی مرتبہ سوچا کہ اس موضوع پر کچھ لکھوں لیکن پھر ارادہ بدل دیا۔ محترم طاہر یسین کا کالم پڑھا تو لگا کہ جو کہنا چاہتا تھا بیان ہو گیا لیکن عارف لالہ کے حالیہ کالم نے قلم اٹھانے پر مجبور کر ہی دیا۔۔۔۔۔لالہ جی کی خدمت میں بڑے ادب سے عرض کروں گا کہ حضرت آپ کو حق ہے جس سے چاہیں گلے ملیں اور گلے ملنے ملانے میں ہی انسان دوستی کی بو بھی سونگھ لیں، لیکن یہ بھی فرما دیجیے کہ انسان دوستی سونگھنے والی ناک کیا آرڈر پر بھی مل جاتی ہے یا خدا نے یہ پیکج صرف آپ کو، وجاہت مسعود، عدنان کاکڑ اور وسی بابا کو ہی دیا ہے کہ صرف سونگھ کر ہی کسی کی انسان دوستی اور جمہوری روایات کی پاسداری کا پتہ چلا لیتے ہیں؟ اور یہ بھی بتا دیجیے گا کہ انسانیت تلاشنے کا یہ ہنر صرف ناک میں ہی ہے یا کانوں اور آنکھوں سے بھی کام لیا جا سکتا ہے۔۔۔۔ اگر کان اور آنکھ پر ناک کا اثر غالب نہ ہو تو قبلہ سفیر امن کی تقریریں اور بیانات ریکارڈ کا حصہ ہیں، وقت نکال کر دیکھ لیجیے گا اور پھر انٹرویو کا ایسا کوئی حصہ تلاش کیجیے گا جس میں اپنی گذشتہ حرکات پر کوئی معافی طلب کی گئی ہو یا کم سے کم کوئی اظہار ندامت ہی موجود ہو۔
وجاہت مسعود صاحب نے بھی لبرل طالبان کی اصطلاح استعمال کی اور آپ بھی ان کے اس عمل کے ناقدوں کے بارے میں شاید کچھ ایسا ہی فرمانا چاہتے ہیں لیکن وہ جو اپنی سوچ اور عمل میں سر سے لے کر پاؤں تک طالبان ہیں ان کے سات خون نہ جانے کس بنا پر آپ نے معاف کر دیے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں انٹرویو کرنا اور چھاپنا ان کی صحافتی ذمہ داری ہے لیکن معلوم نہیں صحافتی حلقوں کو وہ کتاب کیوں نہیں پڑھائی جاتی جو قاتلوں کے ساتھ ساتھ مقتولوں کا نقطہ نظر چھاپنے پر مجبور کرے۔ آپ کہتے ہیں جھنگ میں امن ہوا، ماشااللہ بہت اچھی بات ہے لیکن کمزور حافظے والی قوم کو کوئی بتایئے گا کہ یہ امن تباہ و برباد کس نے کیا تھا؟ لدھیانوی صاحب نے جس فکر کی ترویج میں زندگی صرف کی ہے امن خراب کرنے کی ذمہ داری اسی پر ہے لیکن آج صحافتی ایریل جس برق رفتاری سے ان داغ دھبوں کو دھونے میں مشغول ہے لگتاہےکچھ عرصے بعد ان صاحبان کی معصومیت اور پاک دامنی پر فلمیں بنائی جانے لگیں گی۔
آپ نے مزید فرمایا کہ آپ کو انٹرویو بار بار پڑھنے پر بھی کوئی قابل اعتراض بات نظر نہیں آئی اور میرا یہ حال ہے کہ مجھے اس انٹرویو کے ہر لفظ اور ہر سطر میں انانیت، حیوانیت اورریاست کے اداروں کی ناکامی کے سرٹیفکیٹ بکھرے نظر آئے۔ وہ فرماتے ہیں کہ مذہبی جنونیوں اور فرقہ پرست لوگوں کی سوچ تبدیل کروانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔۔۔۔تو کوئی یہ تو پوچھے کہ اس وقت بھی نامزد قاتلوں اور فرقہ پرستوں کے کیسز کی اعلانیہ سرپرستی اور انکی معاونت وہ کس ملی جذبے کے تحت سر انجام دے رہے ہیں۔ اچھا چلیں اگر یہ پوچھنا مشکل لگ رہا ہےتب بھی آپ اور آپ کے ممدوحین کے سپیس دینے سے ان صاحب کو اتنی سپیس تو مل ہی گئی ہے کہ اب کوئی جا کر بس ایک سوال پوچھ لے کہ کیا آج سے انہوں نے شیعوں کو مسلمان سمجھنا شروع کر دیا ہے؟

Facebook Comments

صفدر جعفری
خود اپنی تلاش میں سرگرداں۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply