لاہور کا پرانا گھر اور ڈِنگا سنگھ/ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری

لاہور میں واقع یہ خاموش سا گوشہ باوا ڈنگاسنگھ جی کی ملکیت تھا۔
میکلوڈ روڈ پہ واقع پُرانے طرز کے اس گھر کی خوبصورتی اور اِسے بنانے والے کے ذوق اور دولت کا اندازہ آپ اسے دیکھ کے با آسانی لگا سکتے ہیں۔

1855 میں باوا ”گُردت سنگھ“ کے ہاں پیدا ہونے والے باوا ڈِنگا سنگھ، اُس دور میں لاہور کی امیر ترین شخصیات میں شمار کیئے جاتے تھے۔ آپ لکڑی کے تاجر ہونے کے ساتھ ساتھ زمیندار بھی تھے شاید اسی لیئے انہیں لاہور کا رئیس اعظم بھی کہا جاتا تھا۔

آپ کی دھرم پتنی کا نام درگا دیوی سنگھ تھا جبکہ اولادوں میں ارجن سنگھ، سندر سنگھ، باوا گیان سنگھ اور ودیا وتی اوبرائے کے نام شامل ہیں۔

کچھ گردواروں کی سیوا کروانے کے علاوہ مال روڈ کی سب سے بڑی اور عالی شان کمرشل عمارت ”باوا ڈنگا سنگھ بلڈنگ“ بھی آپ ہی نے تعمیر کروائی جسے ایک ہندو ماہرِ تعمیر چاند اے ایم آئی ای (Chand M A I E) نے 1927 میں تعمیر کیا تھا۔
سفید رنگ کی یہ تین منزلہ عمارت مال روڈ اور بیڈن روڈ کے سنگم پہ کھڑی ہے جس کے ماتھے پر راڈو کی ایک خوبصورت گھڑی اب بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اس عمارت کے طرزِ تعمیر میں سکھ اور ہندو، دونوں مذاہب کی چھاپ نظر آتی ہے۔

واپس چلتے ہیں ڈنگا سنگھ جی کے گھر کی جانب جو میکلوڈ روڈ پہ لکشمی چوک کے پاس واقع ہے۔

یہ دومنزلہ عمارت چوکور شکل میں ہے جس کے بیچ میں ایک صحن یا احاطہ ہے۔ نچلی منزل پتھر جبکہ بالائی منزل لکڑی کے کام سے ڈھکی ہوئی ہے۔
سرخ دیواریں،
محرابی داخلی راستہ،
لکڑی کے چھجے،
لکڑی کی کھڑکیاں و دروازے،
اندر باہر قدیم طرز کے دلکش جھروکے
اور ان پہ بل کھاتی خوبصورت سر سبز بیلیں،
یہ گھر لاہور کے بے ہنگم ٹریفک اور مصروف زندگی میں آپ کو کہیں پیچھے بلیک اینڈ وائٹ دور میں لے جاتا ہے۔
اگرچہ یہ گھر اب بھی بہتر حالت میں ہے لیکن پھر بھی ایسا لگتا ہے جیسے یہ در و دیوار اپنے بنانے والوں کو یاد کر رہے ہوں
کہ آؤ اور ہمیں سنبھالو۔

اسے دیکھتے ہی محسوس ہوتا ہے کہ کئی دہائیاں پہلے یقیناً یہ ایک شاندار گھر رہا ہو گا، جس کے مکینوں کا ذوق اس کی تعمیر میں بھی جھلکتا ہے۔

ہم جب یہاں گئے تو اس گھر کے حالیہ مکینوں نے احاطہ نما صحن میں گاڑیاں پارک کی ہوئی تھیں جس سے محسوس ہو رہا تھا کہ یہاں دو یا دو سے زائد خاندان رہائش پذیر ہیں۔

اس ملک میں ایسا ہوتا تو نہیں ہے لیکن کاش اسے قومی ورثہ سمجھ کے  محفوظ کر لیا جاتا۔
مگر شاید لاہور کو بہت کچھ دینے والے سر گنگا رام اور باوا ڈنگا سنگھ جی جیسے ہیروز کو ہم نے کبھی اپنایا ہی نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ کی موت 1939 میں ہوئی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply