وقت عصر کی قسم۔۔پروفیسر رضوانہ انجم

انسان نے ہمیشہ روپے سے محبت کی اور بے حساب کی ،لیکن روپے نے انسان سے کبھی محبت نہیں کی۔ ۔اس یکطرفہ محبت میں روپیہ ہمیشہ جیتا اور انسان ہمیشہ ہارا۔ پھر بھی روپے ہی کو چاہتا رہا،کیونکہ اسکے ناقص خیال میں روپے سے محبت،خوشی،زندگی،سکون، آسائشیں،حسرتیں،مرادیں،چاہتیں،رشتے حتیٰ کہ اپنے  جیسے انسان سب خریدے جاسکتے ہیں۔ ناقص العقل یہ نہ سمجھا کہ جب روپیہ وجود میں نہیں آیا تھا تب کچھ نہ خرید سکنے کے باوجود وہ زیادہ خوش اور سیراب تھا۔

اسکے ارد گرد رشتوں کی چاہتیں تھیں،بانٹ کر کھائے جانے والے میٹھے   نوالے تھے،غیر مشروط محبتیں تھیں، مضبوط بازوؤں کے سہارے تھے،ممتا بھری گود اور باپتا کی چھاؤں تھی اور وہ اور اسکا خدا ایک دوسرے سے بہت نزدیک تھے ،اس کا جہان مکمل تھا ۔

اسکے باوجود روپے سے انسان کا عشق بڑھتا رہا۔۔۔ اور خدا دائمی اور طاقتور وقت کی قسم کھا کر بار بار تنبیہ کرتا رہا۔

بے شک!انسان بہت خسارے میں ہے۔ مگر وہ لوگ جو نیک اعمال کرتے رہے اور آپس میں حق بات کی تلقین کرتے رہے،لیکن انسان نوٹ کماتا رہا،گنتا رہا اور اپنے تئیں ہر خسارے کو منافع میں بدلتا رہا ۔نہ اس نے خدا کی سنی اور نہ وقت کی مار کی پرواہ کی۔

پھر یوں ہوا کہ ایک مہلک وبا موت بن کر اسکے مغرور،متکبر،حریص اور حسین جسم سے لپٹ گئی ۔اس میں سرائیت کر گئی، اسکی زندگی سے جڑی ہر شے ،موت میں لتھڑ گئی ۔اسکی جیبوں اور تجوریوں میں ٹھنسی کرنسی بھی موت کے زہر سے آلودہ ہوگئی، جن نوٹوں کو وہ بار بار گنتا نہیں تھکتا تھا،وہ نوٹ بھی موت کا جبری دعوت نامہ بن گئے۔

گھر اور گلیاں لاشوں سے بھر گئے۔لاشوں کو سمیٹنے والے بھی دم توڑنے لگے۔دودھیا رنگت، نیلی،سبز اور شربتی آنکھوں اور سنہری بالوں والی حسین لاشیں سڑکوں پر پڑے پڑےگلتی سڑتی رہیں۔کسرتی جسموں والے دراز قد،جوان رعنا فٹ پاتھوں پر اوندھے منہ پڑے تعفن سے بھبکتے رہے۔

بدبو دار مواد میں ڈھلتے رہے ۔۔

تب انسان جو خدا اور وقت سے بھی نہیں ڈرا تھا۔موت کے اژدہام سے ڈر گیا۔۔ناچاہتے ہوئے بھی، اپنے ازلی محبوب روپے سے بھی خوفزدہ ہوگیا۔ گھروں کی کھڑکیوں ،دریچوں،روشن دانوں سے نیلے پیلے،سبز گلابی نوٹوں کی بارش ہونے لگی۔اٹلی کے گلی کوچے رنگینEuro سے بھر گئے۔اس دن نوٹوں کی قوت خرید گر گئی اور انسان کا بھاؤ بہت بڑھ گیا۔

پہلی بار نوٹوں کا عشق ہار گیا اور زندگی کی محبت جیت گئی،لیکن اس جیت کے لئیے زندگی کو بہت کچھ ہارنا پڑا۔

حافظ شیرازی کہتے ہیں ۔۔

موت بازی جیت گئی۔۔۔حافظ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہار سکتا تھا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور سب کچھ ہار کے سیکھنا۔ ۔بہت بڑا خسارا ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply