وطن عزیز میں ہونے والی آخری مردم شماری میں معذور افراد کے سوا پاکستان میں رہنے والے ہر شہری کو شمار کیا گیا۔ حکومت کی اس بے حسی کے پیچھے ایک راز چھپا تھا وہ یہ کہ اگر معذور افراد کی حقیقی تعداد اگر دنیا کے سامنے آ گئی تو اسے معذور افراد کی بہبود کیلئے کام کرنا پڑے گا۔ درد سری سے بچنے کیلئے حکومت، اپوزیشن اور مذہبی جماعتوں نے مل کر طے کیا کہ کیوں نا مردم شماری کے فارم سے معذور افراد کا خانہ ہی اڑا دیا جائے۔
نواز شریف کی حکومت کی اس چال کو انسانی حقوق کی تاریخ میں بدترین الفاظ میں یاد کیا جائے گا۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپوٹ کے مطابق اس وقت معذور افراد دنیا اور پاکستان کی آبادی کا پندرہ فیصد ہیں۔ جبکہ آزاد ذرائع کے مطابق یہ تعداد بیس فیصد سے زیادہ ہے۔ مطلب چار کروڑ سے بھی زیادہ۔
جس گھر میں معذور بچہ پیدا ہو جاتا ہے اس گھر کے اخراجات ویسے ہی بڑھ جاتے ہیں۔ کیونکہ معذور بچے کی صحت اور تعلیم کے اخراجات عام بچے سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ اسے زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اس سارے عمل میں حکومت تعاون نہ کرے تو غریب بندے کیلئے معذور بچے کو پالنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
میری نہ تو کوئی این-جی-او ہے، نہ میں کسی اخبار کا نمائندہ ہوں۔ پاکستان میں معذور افراد کے حقوق آج جس مقام پر کھڑے ہیں اس میں کسی این-جی-او یا عالمی ایجنسی کا رتی برابر بھی کردار نہیں ہے۔ آگہی کا یہ پودہ میرے ہاتھوں کا لگایا ہوا ہے۔
خواجہ سراؤں کے حقوق پر لکھنے سے پہلے میں معذور افراد کے حقوق پر لکھا کرتا تھا۔ معذور لڑکے اور لڑکیوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں، میں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ وجہ یہ تھی کہ میں سمجھتا تھا کہ یہ لوگ ایک دوسرے کے دوست بن کر اپنے بہت سے مسائل حل کرسکتے ہیں۔ پھر میں نے معذور افراد کی ایک دوسرے سے شادی کرنے کی تحریک چلائی جسے بہت پذیرائی ملی۔
سوال یہ ہے معذور لڑکیوں کی شادی کیوں ضروری ہے؟
معذور لڑکیاں پاکستان کی آبادی کا دس فیصد ہیں۔ شادی کرنے، اپنا گھر بنانے اور بچے پیدا کرنے کا انھیں بھی اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا کہ نارمل لڑکیوں کو حاصل ہے۔ معذور لڑکیوں کی شادی میں سب سے بڑی رکاوٹ انکے اپنے گھر والے ہوتے ہیں جو بچپن سے بچیوں کے ذہن میں یہ بات بٹھا دیتے ہیں کہ وہ ایک قابلِ ترس مخلوق ہیں جن کی شادی نہیں ہوسکتی۔ بعض کیسز میں جائیداد کی تقسیم اور بعض میں گھر والے لڑکیوں کی تنخواہ پر خوب انجوائے کرتے ہیں اور شادی نہیں ہونے دیتے۔ دوسرا نمبر معاشرے کا ہے لڑکے والے لڑکی کی دیگر صلاحیتیں ایک طرف رکھتے ہوئے معذوری کی وجہ سے رشتہ نہیں کرتے۔ ان چیزوں کے حوالے سے آگہی عام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری تحریر اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
کچھ عرصہ قبل میں نے لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک معذور لڑکی کا انٹرویو کیا۔ جو اسپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں اٹھارہویں اسکیل میں ملازمت کر رہی ہے۔ شوہر نارمل ہیں دونوں بہترین زندگی گزار رہے ہیں۔ لاہور ہی کی ایک اور معذور خاتون کا انٹرویو کیا جو گلاس فیکڑی میں منیجر کے فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔ انکے شوہر بھی نارمل ہیں۔ ماشاءاللہ انکی دو بیٹیاں ہیں۔ دونوں اپنی زندگی سے بہت خوش ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ملتان سے ایک آرمی آفیسر نے مجھ سے رابطہ کیا جنھوں نے اپنی پسند سے معذور لڑکی سے شادی کی۔ ویڈیو پر دونوں سے خوب گپ شپ ہوئی۔ جوڑی اپنے فیصلے سے بہت خوش تھی اور بھر پور ازدواجی زندگی گزار رہی تھی۔ میں نے 2017ء میں اپنی تحریک کا آغاز کیا جس کے بعد سینکڑوں معذور لڑکے اور لڑکیاں شادی کے بندھن میں بندھے، سب خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔
سال بھر پہلے کراچی سے ایک معذور لڑکی نے رابطہ کیا۔ جس کے والدین اور بہنیں سب وفات پا چکے ہیں۔ایک بہنوئی اس کے حصے کی جائیداد بیچ کر کھا چکا ہے۔ لڑکی سلائی کڑھائی کا کام جانتی ہے۔ ایک عرصے سے رشتہ دار کے گھر میں رہ رہی ہے۔ جس کے بچوں کو اسی نے پالا ہے اور سلائی کڑھائی کے پیسوں سے اسکا گھر چلاتی رہی ہے۔ بچے اب جوان ہوچکے ہیں جو کہ اب اس لڑکی کو گھر سے نکالنا چاہتے ہیں۔ ہر چند روز بعد اسکا سامان بلڈنگ سے باہر پھینک دیتے ہیں۔ یہ سارا سارا دن فلیٹ کے باہر بیٹھی روتی رہتی ہے تب جاکر اسے گھسنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ لڑکی خدا سے صرف سر چھپانے کا ٹھکانہ مانگتی ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک معذور لڑکی سے بات ہوئی جس نے لاہور کے بڑے تعلیمی ادارے سے ایم-بی-اے فائنانس کیا ہوا ہے۔ بچپن میں یہ لوگ جہاں رہتے تھے۔ گھر کے پاس ایک بہت بڑا نالہ ہوا کرتا تھا جسے پار کرنے کیلئے ٹوٹا پھوٹا سا پُل تھا۔ والد صاحب اسے گود میں اٹھا کر نالہ پار کروایا کرتے تھے۔ لڑکی بہت اچھی آرٹسٹ بھی ہے۔ پچھلے سال اسکے والد صاحب کی وفات ہوئی۔ میرے معلوم کرنے پر اس نے بتایا کہ والد صاحب کے جانے کے بعد بھائیوں اور بھابھیوں کا رویہ بالکل تبدیل ہوگیا ہے۔ سرگودھا سے تعلق رکھنے والی معذور لڑکی جس نے سوشل سائنسز میں ایم-اے کیا ہے۔ اس نے بھی بالکل اسی طرح کی کہانی سنائی۔
کچھ عرصہ قبل چکوال سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی سے رابطہ ہوا۔ جس نے اسلامیات میں ایم-اے کیا ہے۔ لڑکی کی معذوری معمولی نوعیت کی ہے۔ اپنے سارے کام خود کرتی ہے۔ والد صاحب نہ تو اسکی شادی کرنے پر راضی ہیں اور نہ ہی نوکری کرنے دیتے ہیں۔ میرے پاس ایسی بہت سی لڑکیوں کی مثالیں موجود ہیں۔ والدین کی وفات کے بعد بھائی اور بھابھیاں ان پرظلم کے پہاڑ ڈھا رہے ہیں۔
موجودہ دور مادہ پرستی کا ہے۔ جس میں انسان اپنے فائدے کے سِوا کسی چیز کو خاطر میں نہیں لاتا ہے۔ ایسے وقت میں جب بچے والدین سے جان چھڑانے کیلئےاُنہیں اولڈ ہومز میں ڈال رہے ہیں معذور بھائی بہنوں کا خیال کون رکھے گا؟
والدین کو سمجھنا پڑےگا کہ معذوری مجبوری نہیں بلکہ مختلف طرز زندگی کا نام ہے۔معذور بچی خدا کا دیا کوئی عذاب یا کوئی بیکار چیز نہیں کہ اسے گھر میں گلنے سڑنےکیلئے چھوڑ دیا جائے۔ معذور بچی کو تعلیم، نوکری اور شادی کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ عام بچیوں کو ہوتی ہے۔
معذور بچیوں کے والدین اور گھر کے دیگر افراد سے گزارش ہے کہ معذور بچیاں عام بچیوں سے مختلف ضرور ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے کہ یہ انسان ہی نہیں ہیں۔ انھیں بھی عام بچیوں کی طرح پڑھائیں لکھائیں نوکری اور ہنر کے حصول میں معاونت فراہم کریں۔ اگر انکے لیےکسی عام لڑکے یا معذور لڑکے کا رشتہ آ جاتا ہے تو ٹھنڈے دل سے فیصلہ کریں اور انھیں بھی گھر بنانے کا موقع فراہم کریں۔ کیونکہ آپ کی زندگی تک تو بچیاں سر اٹھا کر جی لیں گی، لیکن آپ کے بعد انکے لیے مشکلات ہی مشکلات ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں