فیض کون تھے؟۔۔لال خان

اس دھرتی کے انقلابی شاعر فیض احمد فیضؔ کی 29ویں برسی کے موقع پر بہت سے ٹیلی وژن چینلوں پر کئی خصوصی پروگرام نشر ہوئے۔ اس شائستہ اور عاجز شخصیت کو خراج تحسین پیش کیا گیا، ان کی شاعری کے قصیدے پڑھے گئے اور حسب روایت رخصتی کے بعد انہیں دیوتا بنا دیا گیا۔ ایک چیز جس کا ذکر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر نہیں کیا گیا وہ فیض کے نظریات تھے۔ وہ نظریات جنہوں نے فیض کی زندگی کا رخ ہی موڑ دیا اور جن کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے فیض نے عمر بھر جدوجہد  کی ، صعوبتیں برداشت کیں، پابند سلاسل رہے اور جلا وطن ہوئے۔

کیمونزم کے بغیر فیض کا ذکر ان کی توہین کے مترادف ہے۔ فیض ببانگ دہل اپنے کیمونسٹ ہونے کا اعتراف کرتے تھے اور انہیں اپنے نظریات پر فخر تھا۔ آج اگر وہ اپنی شان میں لکھے گئے کالم پڑھتے یا ٹی وی پروگرام دیکھتے تو یقیناًانہیں دکھ ہوتا۔ اس سے بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ فیض کی جدوجہد اور نظریات کو مسخ کرنے میں سابقہ بایاں بازو پیش پیش ہے۔ انقلابی سوشلزم سے منحرف ہونے والے یہ دانشور آج فیض کی حقیقی فکر کو بھی تاریخ کے صفحات سے کھرچ دینا چاہتے ہیں۔ یہ علمی بددیانتی نہیں تو اور کیا ہے؟

فیض متحدہ برصغیر کی کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا کے باقاعدہ کارڈ ہولڈر تھے۔ انہوں نے برصغیر کی تقسیم کو تنقید کا نشانہ بنایا اور قیام پاکستان کے بعد بھی کیمونسٹ پارٹی اور تحریک سے وابستہ رہے۔ ان کی نظم ’’صبح آزادی‘‘ تقسیم ہند کے بارے ان کے خیالات کی غمازی کرتی ہے:

یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں۔ ۔
ابھی چراغ سر راہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانی ء شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

فیض کی زندگی کا ایک اور اہم پہلو ٹریڈ یونین اور مزدور تحریک میں ان کی شمولیت تھی۔ وہ نہ صرف ٹریڈ یونینز کو منظم کرنے کے لیے سرگرم رہے بلکہ محنت کشوں کی نظریاتی تربیت بھی کرتے رہے تاکہ انقلابی عمل کی نظریاتی بنیادیں مضبوط کی جاسکیں۔ یہ درست ہے کہ فیض نے رومانوی شاعری بھی کی لیکن یہ ان کے کلام میں ثانوی درجہ رکھتی ہے۔ ان کی رومانوی شاعری بھی افسانوی پیار اور محبت پر مبنی نہ تھی۔ فیض نے محبت کے جذبات کو انقلابی جستجو کے ساتھ جوڑا اور اس نظام کے سماجی اور جذباتی رشتوں کا اصل روپ بھی اپنی شاعری میں پیش کیا۔

اس ملک میں مختلف نظریات کے حامل دانشوروں اور سیاسی کارکنان میں عمومی طور پر تنقید برداشت کرنے کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اس عمومی رویے کے برعکس فیض میں مخالف نقطہ نظر کو سننے اور برداشت کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت موجود تھی۔ وہ سیاسی اور نظریاتی مباحثوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ 1982ء میں فیض، احمد فراز اور بیگم سرفراز اقبال دوستوں اور کامریڈز سے ملنے ایمسٹر ڈیم آئے۔ ضیا آمریت کے خلاف جدوجہد کی پاداش میں جلا وطن ہونے والے سیاسی کارکنان کے ساتھ مزاحمت کے طریقہ کار اور لائحہ عمل پر گرما گرم بحث ہورہی تھی۔

اس موقع پر کچھ کامریڈز نے اعتراض کیا کہ 1962ء میں سوویت یونین کی جانب سے جب انہیں ادب کا ’’لینن ایوارڈ‘‘ دیا گیا تو اسی تقریب میں بالشویک انقلاب کے قائد لیون ٹراٹسکی کے قاتل رامون مرکاڈور کو ’’سیاست‘‘ کالینن ایوارڈ دیا گیا۔ فیض صاحب نے دیانتداری کے ساتھ یہ تسلیم کیا کہ اس وقت انہیں رامون مرکاڈور کے گھناؤنے جرم کے بارے میں معلوم نہ تھا۔ ایک اور طویل بحث کے دوران فیض صاحب نے بالشویک انقلاب کی افسرشاہانہ زوال پذیری اور سٹالن ازم (جسے ماسکو نواز لیفٹ سوشلزم بنا کر پیش کرتا تھا) کی خامیوں اور نظریاتی غلطیوں کو تسلیم کیا۔ سٹالن ازم کے یہی جرائم فیض صاحب کی وفات کے چند سالوں بعد سوویت یونین کے انہدام کا باعث بنے۔ فیض ان ساتھیوں کے لیے بھی بہت شفیق تھے جو ان کے نظریاتی اختلاف رکھنے کے باوجود انقلابی سوشلزم کی جدوجہد میں سرگرم اور متحرک تھے۔

فیض نے اپنی بہت سی نظموں میں اس سماج کی محرومی، بیگانگی اور سرمایہ دارانہ استحصال کو انتہائی شائستگی مگر مضبوط اور واضح انداز میں نہ صرف بے نقاب کیا بلکہ طبقاتی نظام کے خلاف انقلابی لڑائی کی ضرورت پر زور دیا۔ ’’انتساب‘‘سے لے کر ’’کتے‘‘ اور ’’دعا‘‘ تک، ان کی نظمیں آج بھی استحصالی نظام کے خلاف برسرپیکار انقلابیوں کو نیا حوصلہ اور شکتی عطا کرتی ہیں۔
آج کے عہد میں ذرائع ابلاغ، خصوصاً الیکٹرانک میڈیا سے مارکسزم، سوشلزم اور کیمونزم کے الفاظ ہی حذف کردیے  گئے ہیں۔

محنت کش طبقے کی سماجی طاقت اور وجود سے ہی انکار کیا جارہا ہے اور محکوموں کو مذہبی و نسلی تعصبات میں الجھا کر استحصالی نظام کے خلاف طبقاتی جدوجہد میں دراڑیں ڈالنے  کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ حکمران طبقے اور اسٹیبلشمنٹ نے کارپوریٹ صحافت اور زر خرید ملائیت کے ذریعے سوشلزم کا نام لینے کو ہی جرم بنا دیا ہے۔ اس قسم کا رجعتی اور تاریک عہد فیض صاحب کی زندگی میں بھی آیا تھا۔ ریاستی جبر کے ساتھ ساتھ مذہبی قوتیں کیمونزم کے خلاف سامراج کا سب سے بڑا ہتھیار بن چکی تھیں۔ ہر طرف مایوسی اور ناامیدی کی کیفیت میں بھی فیض نے انقلابی رجائیت اور امید کا دامن نہیں چھوڑا۔ ان کے صبر، استقلال اور حوصلے کی جھلک اس شعر میں نظر آتی ہے:

اورکچھ دیر ٹھہر جاؤ کہ پھر نشتر صبح
زخم کی طرح ہر اک آنکھ کو بیدار کرے!

انقلاب، سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے اور استحصال سے پاک انسانیت کے مستقبل پر فیض کا یقین ان اشعار سے عیاں ہے:

یہ غم جو اس رات نے دیا ہے
یہ غم سحر کا یقیں بنا ہے
یقیں جو غم سے کریم تر ہے
سحر جو شب سے عظیم تر ہے

بظاہر مذہبی معلوم ہونے والی فیض کی شہرہ آفاق نظم ’’دعا‘‘ درحقیقت انقلاب کا پیغام دیتی ہے۔ فیض کے نظریات کے ساتھ ساتھ اس نظم کو ’’سنسر‘‘ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی اور کلیدی اشعار کو گائیکی میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔ مکمل نظم قارئین کے لیے  پیش خدمت ہے:

آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی
ہم جنہیں رسم دعا یاد نہیں
ہم جنہیں سوز محبت کے سوا
کوئی بت کوئی خدا یاد نہیں
آئے عرض گزاریں کہ نگارِ ہستی
زہرِ امروز میں شیرینی ء فردا بھر دے
وہ جنہیں تابِ گراں باری ء ایام نہیں
ان کی پلکوں پہ شب و روز کو ہلکا کر دے
جن کی آنکھوں کو رخِ صبح کا یارا بھی نہیں
ان کی راتوں میں کوئی شمع منور کر دے
جن کے قدموں کو کسی راہ کا سہارا بھی نہیں
ان کی نظروں پہ کوئی راہ اجاگر کر دے
جن کا دیں پیروی ء کذب و ریا ہے ان کو
ہمت کفر ملے، جراتِ تحقیق ملے
جن کے سر منتظر تیغِ جفا ہیں ان کو
دست قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے
عشق کا سرِ نہاں جاں تپاں ہے جس سے
آج اقرار کریں اور تپش مٹ جائے
حرف حق دل میں کھٹکتا ہے جو کانٹے کی طرح
آج اظہار کریں اور خلش مٹ جائے!

فیض احمد فیض کی وفات کے بعد 29 سالوں میں بہت کچھ تبدیل ہوا ہے۔ دیوار برلن گری، سوویت یونین کا انہدام ہوا، چین میں سرمایہ دارانہ رد انقلاب مکمل ہوا۔ رد انقلاب کے تھپیڑے اور سامراجی میڈیا کی یلغار بڑے بڑے انقلابیوں کو اپنے ساتھ بہا لے گئی۔ لیکن سرمایہ داری کی حتمی فتح اور تاریخ کے خاتمے کا اعلان کرنے والے آج خود مایوس اور پشیمان نظر آرہے ہیں۔ 2008ء میں شروع ہونے والے عالمی سرمایہ داری کے سب سے بڑے تاریخی کریش کے بعد سے دنیا بھر میں محنت کش عوام اور نوجوانوں کی بغاوت کے نئے سیلاب اٹھ رہے ہیں۔

فیض نے جس نظام کے خلاف عمر بھر مزاحمت جاری رکھی آج اس کی بربریت اور استحصال کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نسل انسانی اور تہذیب کے لئے خطرہ بن چکا ہے۔ نجات کا راستہ آج بھی وہی ہے جس کی جستجو میں فیض نے اپنی تمام عمر وقف کی۔ فیض سوشلسٹ انقلاب اور سرخ سویرے کا پیغام اپنی شاعری اور عملی جدوجہد میں آنے والی نسلوں کے لئے چھوڑ گئے ہیں۔

متعلقہ:
ہم عصر حقیقت نگاری اورفیض
آج بازار میں پابجولاں چلو۔ ۔ ۔
کہیں بھی نہیں ہے لہو کا سراغ۔ ۔ ۔

(نظم دوسری  آواز)

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ طبقاتی جدوجہد!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply