ورلڈکپ کی تاریخ کا 48 سالہ ریکارڈ/محمد وقاص رشید

       انسانی زندگی کے لیے تفریح ایک بنیادی ضرورت کی حیثیت رکھتی ہے لیکن تیسری دنیا کا ایک ملک ہونے کے ناطے یہاں انسانی حیات اس نعمت سے محروم ہے۔ غربت ، مہنگائی ، لاقانونیت اور اپنی منزل کے رستے سے محروم پچیس کروڑ کی پاکستانی قوم کے پاس بہرحال کرکٹ کی صورت ایک بچی کھچی تفریح ہے۔

       ورلڈکپ ہمیشہ کسی ٹیم کے لیے تمام درمیانی مدت میں کی گئی محنت و ریاضت کا لٹمس ٹیسٹ ہوتا ہے۔ یوں تو ہر مقابلے کا ہدف جیت ہی ہوتی ہے مگر ورلڈکپ تمام جیتوں کی ایک جیت ہوتی ہے۔ ورلڈکپ کا ہر مقابلہ پوائینٹس ٹیبل پر آپکے بڑھے ہوئے ہاتھوں کو کپ سے نزدیک یا دور لے کر جاتا ہے لیکن  پاکستان اور سری لنکا کا میچ یوں بھی اہمیت کا حامل تھا کہ ہمیں سری لنکا نے ایشیا کپ سیمی فائنل میں تازہ تازہ زخم لگایا تھا۔

  جہاں اس میچ میں جیت سے ٹیم کو اعتماد ملا وہیں ہماری کمزوریاں بھی سامنے آئیں جن پر فوری طور پر قابو پاکر آگے آنے والے بڑے مقابلوں میں بہتر کارکردگی دکھائی جاسکتی ہے۔

    ٹاس جیت کر سری لنکا نے پہلے کھیلتے ہوئے 344 رنز بنائے۔ ایشیا کپ میں بھی اور حالیہ میچز میں بھی ایک بات جو سامنے آئی کہ سری لنکن بیٹسمین اٹیکنگ کرکٹ کھیلتے ہیں ایسے میں باؤلرز دباؤ میں ہوتے ہیں۔ باؤنڈری سے باہر جاتی گیندوں کو دیکھتے باؤلرز اس وقت شدید بے بس نظر آتے ہیں جب ایک طرف بیٹسمین رعایت نہ کر رہے ہوں اور دوسری طرف اپنے فیلڈرز بھی انکی طرف سے کھیل رہے ہوں۔

     آسٹریلیا نے ایک کیچ کے عوض میچ کھو دیا۔ پاکستانی فیلڈرز کو یہ بات سمجھنی ہو گی ۔ بلے سے باؤلنگ کا بھرکس نکالتے مینڈس کے دو کیچ پوری سینچری میں پڑے۔ اس موقع  پر چار سو رنز کہیں نہیں گئے تھے۔ بہرحال بریک تھروز ملتے رہے اور آخری پانچ اوورز میں پاکستانی باؤلرز نے سری لنکن بیٹسمینوں کی اوور ہارڈ ہٹنگ کی کوشش کو مسلسل کٹرز اور یارکرز کی مدد سے سمجھداری سے ناکام بنایا۔ پہلی اننگ کے اختتام پر کرکٹ کے اس طالبعلم نے لکھا کہ ان اوورز میں پچیس سے تیس رنز پاکستانی باؤلرز نے بچائے یہ وننگ رنز ہو سکتے ہیں۔

     بیٹنگ کا آغاز اچھا نہیں تھا۔ کون کہتا ہے کہ پاکستانی بیٹسمین میں consistency نہیں۔ دیکھیں امام کو۔ دونوں میچوں میں ایک ہی شارٹ لگا کر ایک ہی جگہ آؤٹ ہوا۔ بابر انگلینڈ کے خلاف جیسے سیم کرن کی گیند پر لیگ سٹمپ سے باہر گیند کو casually کھیلتے ہوئے کیپر کے ہاتھوں آؤٹ ہوا تھا اسی کا ایکشن ری پلے کل تھا۔

    مگر اس کے بعد شکر ہے چراغوں میں روشنی آ گئی۔ عبداللہ شفیق تکنیکی لحاظ سے بابر کے بعد کا خلا پر کر سکتا ہے۔ اسکے پاس ایک اوپننگ بیٹسمین کے لیے ضروری تمام شاٹس موجود ہیں اور دوسرا وہ بال کو میرٹ پر کھیلتا ہے سلاگنگ نہیں کرتا۔ کرکٹنگ شاٹس کھیلتا ہے۔ سواپنے ورلڈکپ ڈیبیو میں شاندار سینچری کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔

      رضوان کی اس اننگز کی بہت ضرورت تھی۔ راقم نے لکھا تھا پرفارمر وہ ہوتا ہے جو بڑے میچز میں ٹیم کو ضرورت کے وقت دوسروں کی طرف نہ دیکھے بلکہ دوسرے اسکی طرف دیکھیں۔ رضوان نے وہی کیا۔ کیا ہی سمجھدار انداز میں اننگز کا آغاذ کیا اور خود کو ایک فنشر ثابت کیا جسکی as a whole پاکستانی بیٹنگ کو بہت ضرورت ہے کہ چاہے پہلے ٹارگٹ دے رہے ہوں یا چیز کر رہے ہوں پہلے چار بیٹسمین میں سے آف اینڈ آن ایک بڑی سینچری کے ساتھ آخری اوورز تک کھیلنے کی صلاحیت پیدا کرے۔ دیکھا جائے تو بھارت کی بیٹنگ لائن کی سب سے تگڑی چیز یہی ہے۔ ایک وقت تھا جب بھارتی بیٹنگ صرف ٹنڈولکر کا نام ہوتی تھی۔ پھر کچھ سمے یہ انحصار کوہلی پر آیا تھا مگر اب یہ منفی اپروچ انہوں نے ختم کر دی اور نتائج ہمارے سامنے ہیں۔

   سب سے مثبت بات یہی ہے کہ بابر کے آؤٹ ہونے کے بعد دونوں ٹاپ آرڈر کے بلے باز خوداعتمادی سے کھیلے۔ سعود شکیل نے اچھی اننگز کھیلی لیکن فنشر بننے کا فن سیکھنا ہو گا اور چاچا تو پھر چھا گیا۔

   پاکستانی بیٹسمین کی اعلی کارکردگی میں تو کوئی دورائے ہی نہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ سری لنکا کی باؤلنگ خصوصا تیس اور چالیس اوورز کے دوران اچھی نہیں تھی۔ متھیشا نے نو اوورز میں 90 رنز دے دیے۔ ایکسٹراز کی تعداد بھی زیادہ تھی۔

   ایک موقع پر رضوان کی بیٹنگ اور ایکٹنگ سکلز میں مقابلہ ہونے لگا۔ وہ جس طرح بار بار بلا پھینک کر زمین پر لیٹ رہا تھا۔ اس سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ ایکٹنگ کر رہا ہے لیکن جب فزیو کے جانے کے بعد اس نے اپنی ٹانگ پر کچھ پڑھتے ہوئے مکے مارنے شروع کر دیے تو مجھے یقین ہو گیا کہ یہ ایکٹنگ نہیں اوورایکٹنگ کر رہا ہے۔ جب اس نے ایک “مس ہٹ” پر دوبارہ درد کا بہانہ کیا اور گیند فیلڈر سے تھوڑا فاصلے پر گرنے پر ایک دم اٹھ کھڑا ہوا تو بحیثیت کرکٹ شائق اسے میں نے ہی نہیں بہت سے دوسرے لوگوں نے بھی محسوس کیا۔ ایک بین الاقوامی کمنٹیٹر نے تو اسے مین آف دی میچ کے ساتھ آسکر ایوارڈ دینے کا چٹکلہ بھی چھوڑا۔ بہرحال شکر کہ بیٹنگ سکلز ایکٹنگ سکلز سے بہتر تھیں سو پاکستان نے 48 سالہ ورلڈکپ کی تاریخ میں پہلی بار اتنا بڑا ٹوٹل چیز کرنے کا ریکارڈ جڑ دیا جسے میری کرکٹنگ سینس سمجھتی ہے کہ اسی ورلڈکپ میں ٹوٹنا ہے۔ ویسے میں ایک دو پیاروں کے جذبات کے احترام میں وہ پوسٹ ڈیلیٹ کرنے ہی والا تھا کہ پوسٹ میچ سیرمنی میں رضوان سے سوال ہوا کہ۔۔۔۔۔

Q : What about your cramp.

A : Sometimes cramp sometime my acting.

     جیو پر آئے عماد وسیم اور محمد عامر نے اس ایکٹنگ کو “سمارٹ کرکٹ ” قرار دیا توضیح یہ پیش کی کہ کھلاڑی تب ایسا کرتے ہیں جب چیزیں ٹھیک نہ ہو رہی ہوں تو تھوڑا سا ٹائم گین کرنے کے لیے۔  میں حیران ہوا کہ رضوان نے تو باکمال اننگز کھیلی آٹھ کی مطلوبہ اوسط چھے پر لا کر اس ایکٹنگ کی ضرورت کیوں پڑی۔ بہرحال میرا خدشہ شکر ہے غلط ثابت ہوا اور ہم جیت گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

  کل کا میچ کرکٹ کے کاندھوں پر خودساختہ منکر نکیر ہٹانے کا بہترین موقع ہے ہے۔ ایک مسلمان اور غیر مسلم ٹیم کا مقابلہ تھا۔ دونوں کے باؤلرز کو مار پڑی، دونوں نے کیچ چھوڑے ، دونوں میں دودو سینچریاں بنیں اور آخر میں جیت کی دیوی اسکی ہوئی جس نے خود اعتمادی سے اسکی طرف قدم بڑھائے ۔ اگلے میچز کی کارکردگی میں اس جیت کا اعتماد دکھائی دینا چاہیے۔ یہی قدرت کا نظام ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply